مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے پشتونوں کے آباؤ اجداد کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے ہے، جو برصغیر کی تقسیم اور بھارت اور پاکستان کے بننے سے پہلے یہاں آ بسے تھے
مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے اسی کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے علاقے ونتراگ میں لگ بھگ دس ہزار افغان خاندان رہتے ہیں، جہاں انہوں نے کشمیری معاشرے میں گھل مل جانے کے باوجود اپنی الگ ثقافت کو برقرار رکھا ہوا ہے
جموں و کشمیر کے اضلاع اننت ناگ، گاندربل، بارہمولہ اور کشتواڑ میں کشمیری پشتونوں کے گھر ہیں، جنہیں ’کشمیری پٹھان‘ بھی کہا جاتا ہے
کچھ افغان تاجر، جو کشمیر میں پھنسے ہوئے تھے، گاندربل منتقل ہو گئے جب کہ دیگر اننت ناگ واپس چلے گئے، جو اس وقت ایک بڑا تجارتی مرکز تھا
ونتراگ میں سالار خان نے سب سے پہلے ایک گاؤں قائم کیا۔ علاقے کے ایک رہائشی بشیر احمد نے بتایا، ‘سالار پاکستان کے فرنٹیئر علاقے کے رہائشی تھے۔‘
بشیر احمد نے بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد 1947ع میں تقسیم سے پہلے خدا کے فضل سے یہاں آئے تھے۔ ’وہ کشمیر کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں لیکن وہ منتشر ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ یہاں آباد پشتون اصل میں افغانستان سے تھے لہٰذا وہ پشتو یا فارسی بول سکتے ہیں
’پشتون برادری کی جڑیں افغانستان میں ہیں۔ ہماری برادری اللہ کے فضل سے یہاں کاروباری مقاصد کے لیے آئی تھی۔ ہمارے آباؤ اجداد ہمیں بتاتے تھے کہ وہ کشمش اور دیگر اشیا مثلاً جڑی بوٹیاں بیچنے آتے تھے۔‘
بشیر کے مطابق تقسیم سے قبل لوگ برصغیر میں آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرتے تھے
اس حقیقت کے باوجود کہ ونتراگ کی بنیاد افغان تارکین وطن نے کئی دہائیاں قبل رکھی تھی، ان کے رہنے اور کھانے کی عادات کے ساتھ ساتھ ان کے لباس اب بھی ان کی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں
’ہم عام طور پر یہ شرعی لباس پہنتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم اسی طرح کا لباس پہنتے ہیں جو افغانستان میں پہنا جاتا ہے کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد وہاں سے آئے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ رمضان کے دوران ہر گھر میں تازہ روٹیوں سے بھرا تندور ہوتا ہے۔ افطار پر ہر گھر سے روٹیاں مسجد بھجوانے کی روایت آج بھی اس گاؤں میں زندہ ہے
تاہم انہوں نے کہا کہ آج ان کی آبادی بہت کم ہے کیونکہ ان کی زبان کو حکومتی مدد نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ پشتو ایک بین الاقوامی زبان ہے اس لیے ہر ملک اسے یونیورسٹی کی سطح پر شامل کرنا چاہتا ہے
انہوں نے حکومت سے خصوصی توجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ان کی ثقافت اور روایت مختلف ہے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ ہمارے خدشات پر توجہ دیں۔ ’ ہمارے پاس وہ اسراف نہیں جو دوسری برادریاں کرتی ہیں، ہماری شادیاں سادہ ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ حکومت اور مرکز نے ان کی بطور قبائلی درجہ بندی کرنے کے بعد 1953 میں پی آر سی دیا تھا
وہ کہتے ہیں ”ہمیں کاشت کاری کے لیے زمین دی گئی تھی لیکن ہمیں اپنی برادری کی بہتری کے لیے ثقافتی اکیڈمی اور دیگر فوائد کی ضرورت ہے۔ چیزوں کو ہم سے دور رکھا گیا ہے“