پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی کی خالی قرار دی گئیں تمام نو نشستوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے یوں کرکٹ کی دنیا میں بڑے ریکارڈ اپنے نام کرنے والے کپتان سیاست کے میدان میں بھی ایک بڑی کامیابی کے جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں
تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مطابق وہ گیم کے تمام رولز سے خوب واقفیت رکھتے ہیں، وہ ماہر ہیں، ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ کیسے کھیلنا ہے اور کہاں کھیلنا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس میدان میں اترے ہیں
عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گِل نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے ”جس جس سیٹ سے استعفٰے منظور کر کے خالی کی جائے گی وہاں خان صاحب خود امیدوار ہوں گے اور خود الیکشن لڑیں گے۔ آ جائیں میدان میں، لگ پتہ جائے گا اب“
عمران خان کی سوشل میڈیا پر ایک وائرل وڈیو بھی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے، جس میں وہ اپنے سیاسی مخالفین کو للکارتے ہوئے پنجابی میں کہتے ہیں کہ تہاڈے واسطے تے ’میں کلّا ہی کافی آں۔‘
عمران خان کے اس فیصلے پر مزید بات کرنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے چند روز قبل تحریک انصاف کے صرف گیارہ ارکان کے استعفے قبول کیے ہیں
اگرچہ تحریک انصاف کے تمام اراکین نے قومی اسمبلی کی اپنی نشستوں سے استعفے دیے ہیں لیکن منظور صرف گیارہ کیے گئے
پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور ن لیگ کے ایاز صادق نے تمام استعفوں کی بجائے صرف گیارہ کی منظوری کی عجیب توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں جہاں پی ٹی آئی کم مارجن سے جیتی تھی، ان کے استعفے منظور کیے گئے ہیں
پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غیرقانونی انتخابات ہو رہے ہیں، گیارہ استعفوں سے متعلق کیس ہائی کورٹ میں ’ایڈمٹ‘ ہو چکا ہے تو ایسے میں الیکشن کمیشن کو نیا شیڈول نہیں دینا چاہیے تھا۔‘
ان کے مطابق کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف یہ شیڈول جاری کیا ہے
واضح رہے کہ ہفتے کو پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں الیکشن کمیشن کا جاری کردہ انتخابی شیڈول معطل کرنے کی درخواست کی گئی ہے
فواد چوہدری کے مطابق یہ حکومت کی طرف سے یہ ایک سیاسی چال ہے کہ گیارہ نشستوں سے استعفے قبول کر کے تحریک انصاف کی اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے۔ ان کے مطابق اگر استعفے قبول ہی کرنے ہیں تو پھر تمام نشستوں کو خالی قرار دے کر انتخابات کا اعلان کیا جاتا
انہوں نے کہا ”عمران خان کی طرف سے تمام نشستوں سے خود انتخابات لڑنے کا فیصلہ حکومتی سیاسی چال کے جواب میں ’نہلے پہ دہلا‘ ہے۔ تحریک انصاف نے اس حکومتی چال کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔“
پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کے مطابق عمران خان کے اس فیصلے سے پتا چلتا ہے کہ حقیقت تو یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کسی اور چیز سے کہیں زیادہ عمران خان کا نام ہے
وہ کہتے ہیں’عمران خان ہی پی ٹی آئی ہیں۔ وہ پارٹی کے نمائندہ ہیں اور پارٹی ان کی نمائندگی کرتی ہے۔‘
فواد چوہدری ان کی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کے مطابق اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف عمران خان ہی ہیں۔ تاہم سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج سے یہ بھی ثابت بھی ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کسی کارکن کو بھی انتخابی معرکے میں اتاریں تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے
احمد بلال محبوب کے مطابق اگر عمران خان نو نشستوں سے خود جیت جاتے ہیں تو پھر انہیں ممنوعہ فنڈنگ جیسی حالیہ پیش رفتوں کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی
ان کے مطابق ادارے جو اقدامات عمران خان کے خلاف اٹھانا چاہتے ہیں تو ان کی جیت کی صورت میں ان کے ذہنوں پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور یوں عمران خان اپنے خلاف کی جانے والی کارروائی کے ممکنہ اثرات کا عوام کے بیانیے کی حد تک مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے
احمد بلال محبوب کے مطابق عوامی ردعمل اداروں پر اثر انداز ہوتا ہے بے شک کوئی یہ کہے کہ وہ بیرونی حالات کا اثر قبول نہیں کرتا
احمد بلال محبوب کے مطابق یہ سیاسی اعتبار سے عمران خان کی بہتر حکمت عملی ہے۔ ان کے مطابق عمران خان اگر جیت جاتے ہیں تو پھر وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ دیکھیے میں کتنا مقبول ہوں
یاد رہے کہ عمران خان نے سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پانچ نشستوں سے انتخاب میں حصہ لیا تھا اور پانچوں میں فتح اپنے نام کی تھی۔ چیئرمین تحریک انصاف نے این اے 131 لاہور سے خواجہ سعد رفیق، این اے 53 اسلام آباد سے شاہد خاقان عباسی، این اے 243 کراچی سے ایم کیو ایم پاکستان کے سیّد علی رضا عابدی، این اے 95 میانوالی سے ن لیگ کے عبید اللہ خان، این اے 35 بنوں سے جمعیت علما اسلام (ف) کے اکرم خان درانی کو ہرایا تھا
یوں اگر عمران خان اس بار پانچ سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوتے ہیں تو وہ کسی اور کا نہیں بلکہ اپنا ہی بنایا ہوا ریکارڈ توڑ ڈالیں گے
احمد بلال کے مطابق عمران خان موجودہ سسٹم کو زچ کرنا چاہتے ہیں، وہ اس موجودہ حکومت کو پریشان کرنا چاہتے ہیں اور ان ضمنی انتخابات کے ذریعے اپنی مقبولیت ثابت کرنا چاہتے ہیں
صحافی عارفہ نور نے عمران خان کے گیارہ نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ عمران خان ڈوماز کے محاورے کو نئے معانی دے رہے کہ کہ ’آل فار ون اینڈ ون فارل آل‘ یعنی پورا گروہ ایک شخص کے لیے اور ایک شخص پورے گروہ کے لیے
مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ ’اس وقت پارلیمان میں اپوزیشن موجود نہیں ہے، اس لیے حکومت کو پارلیمان کے اندر کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ نمبر گیم کا تو مسئلہ ہے ہی نہیں اور دوسری طرف عمران خان نشستیں جیت کر پارلیمنٹ تو جائیں گے نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت عمران خان حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں اور اس طرح حکومت کو زچ کر کے نئے انتخابات کی طرف لانے کی کوشش ہے۔‘
ان کے مطابق ’اگر عمران خان نو نشستیں جیت جاتے ہیں تو ان کی مقبولیت مزید بڑھے گی اور حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔‘
’اس حکمت عملی کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے نئی صورتحال بنانا ہے۔ اس سے ملک میں جاری سیاسی غیریقینی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔‘
قانون اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟
پاکستان کی سیاست میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ کوئی رہنما تمام نشستوں پر خود میدان میں اترے ہوں
احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کئی دفعہ بحث ہوتی ہے کہ زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چائیے۔ اور اگر کوئی ایک سے زیادہ نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو پھر ایسے میں دیگر نشستوں پر انتخابات کا خرچہ وہ خود اٹھائے
تاہم ان کے مطابق ابھی تک قانون میں ایسی کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے اور موجودہ قانون عمران خان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ تمام نو نشستوں سے ضمنی انتخابات میں حصہ لے سکیں
تجزیہ نگار مجیب الرحمٰن شامی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’کئی رہنما ایک سے زائد نشستوں پر انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں لیکن، دو یا تین نشستوں پر، تاہم یہ ایک نئی صورتحال ہے جس میں 9 نشستوں پر ایک ہی امیدوار میدان میں ہوگا۔‘
مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں ’قانون کسی کو ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے سے نہیں روکتا۔ قانونی طور پر کوئی قدغن نہیں ہے، اگر حکومت چاہے تو قانون میں ترمیم کر کے ان کا راستہ روک سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ضمنی انتخابات سے پہلے ترمیم ہوسکتی ہے یا نہیں۔‘
ممنوعہ فنڈنگ کیس: عمران خان کے کاغذات مسترد ہو سکتے ہیں؟
اس ضمن میں ایم سوال یہ بھی ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کے خلاف فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان کو اظہار وجوہ کا نوٹس دے رکھا ہے۔ کیا اس صورت میں ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق چیف الیکشن کمشنر کنور دلشار کہتے ہیں ’اس کیس میں چونکہ ابھی سزا نہیں ہوئی تو عمران خان الیکشن لڑ سکتے ہیں اور سزا ہونے تک ان پر قانونی طور پر کوئی قدغن نہیں ہے۔‘
مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق ’ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ جائے گا، یہ ایک طویل مرحلہ ہے اور لمبی کہانی ہے۔ اس سے ضمنی انتخابات متاثر ہوتے نظر نہیں آتے۔‘