پاکستان تحریک انصاف کا 26واں یوم تاسیس: عمران خان کی جماعت نے کیا کھویا، کیا پایا؟

ظفر ملک

’دجلہ کنارے کتے کے مرنے کے حوالے سے خلیفہ عمر بن خطابؓ کا قول ضرور لکھنا ہے۔۔۔ اور مسجد میں خطبے کے دوران جب اُن (عمرؓ) سے ایک شخص نے کُرتے کے کپڑے کا سوال کیا، وہ مثال بھی دینی ہے۔‘

مینگورہ سے بحرین کی جانب جاتے ہوئے عمران خان میرے ساتھ اپنے اگلے جلسے کی تقریر کے نکات پر گفتگو کر رہے تھے۔ وہ تہہ کیے ہوئے ایک سفید کاغذ پر رومن (اُردو) میں نوٹس بنا رہے تھے۔ اُن کی گفتگو میں ریاست مدینہ کے حوالے تب بھی نمایاں تھے۔

یہ سنہ 1997 کی انتخابی مہم تھی، پیپلز پارٹی حکومت کی برطرفی کے بعد صدر فاروق لغاری نے نگران حکومت قائم کر کے عام انتخابات کا ڈول ڈال رکھا تھا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ساتھ ساتھ اپریل 1996 میں وجود میں آنے والی نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی میدان میں اُتر چکی تھی، سنہ 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں عظیم کامیابی سمیٹنے اور شوکت خانم کینسر ہسپتال جیسے بڑے فلاحی منصوبے کے قیام کے بعد اب کرکٹر عمران خان سیاست کے میدان کا رُخ کر چکے تھے۔

اس وقت میں جنگ راولپنڈی میں سینیئر رپورٹر تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے اسائنمنٹ دی کہ مجھے عمران خان کے ساتھ اُس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) اور شمالی علاقوں کے دورے پر جانا ہے۔

اس دوران مجھے عمران خان کے ساتھ تقریر کے نکات اور موضوعات پر گفتگو کرنا تھی۔ بعد میں گورنر بننے والے اویس غنی تحریک انصاف سرحد کے صدر کے طور پر اس سفر میں ہمراہ تھے۔

عمران خان کے ہمراہ اُس وقت کے میڈیا ایڈوائزر منصور صدیقی بھی تھے جنھوں نے قاضی حسین احمد کے اسلامک فرنٹ سے شہرت حاصل کی تھی۔

تحریک انصاف کا بیانیہ تیار کرنے میں عمران خان کا مرکزی کردار

سینیئر ٹی وی اینکر نسیم زہرہ بھی عمران خان کے سیاسی قافلے کا حصہ رہ چکی ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے نسیم زہرہ کہتی ہیں میں نے 96 میں پارٹی جوائن کی تو مجھے سینٹرل انفارمیشن سیکریٹری بنایا گیا۔

’میرا تحریک انصاف میں شامل ہونے کا مقصد یہ تھا کہ وہ (تحریک انصاف) قانون کی بالادستی کی بات کر رہے تھے۔ دوسرا وہ کہہ رہے تھے کہ سب آئین کے تحت کام کریں، چاہے وہ سیاستدان ہوں یا بیوروکریسی یا فوج۔‘

اُس وقت عمران خان کی جو سوچ تھی، وہ یہی تھی کہ ہر صورت قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔ وہ لوگ جو شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ میں ان کے ساتھ تھے، وہ بھی یہی کہتے تھے کہ جب ہم فنڈ ریزنگ کے لیے باہر نکلے تھے تو جس طرح کی پذیرائی ملی اس سے یہ اندازہ ہوا کہ کچھ اس سے بڑھ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف کے بانی رکن اور صوبہ پنجاب کے سابق صدر حفیظ خان بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے منشور کا مسودہ حسن نثار نے لکھا، اور خود میں منشور کمیٹی کے علاوہ حامد خان کی سربراہی میں قائم پارٹی کی آئین کمیٹی کا بھی رکن تھا۔‘

ان دنوں پاکستان میں دو سیاسی جماعتیں میوزیکل چیئر کھیل رہی تھیں، ایک پر مبینہ بدعنوانی کے الزامات لگتے تو دوسری جماعت آ کر اس پر مقدمے بناتی تھی اور پھر خود پر بدعنوانی کے الزامات لگنے کے بعد کچھ عرصے میں اقتدار سے باہر ہو جاتی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان کی کوشش تھی کہ وہ ایسی اصلاحات لائیں کہ جن سے یہ نظام ٹھیک کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نام رکھا جا رہا تھا تو کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اسے پارٹی کا نام دیا جائے، کچھ نے کہا کہ اسے ایک تحریک کے طور پر لے کر چلا جائے، ’موومنٹ فار جسٹس‘، لیکن پھر پتہ چلا کہ ایئر مارشل اصغر خان نے بھی ملتے جلتے نام سے پارٹی بنائی تھی۔ اس لیے وہ نام ترک کر دیا گیا۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف نام رکھنے کا مقصد یہی تھا کہ انصاف کا بول بالا ہو، جسٹس فار آل، انصاف سرعام، یہ نعرہ تحریک انصاف نے دیا تھا۔ مقصد یہی تھا کہ ملک میں بہتری لائی جائے، نظام کو بہتر کیا جائے، کرپشن کو روکا جائے اور عام آدمی کے لیے جدوجہد کی جائے۔‘

حفیظ خان کہتے ہیں کہ یہ بیانیہ بنانے میں بنیادی کردار عمران خان کا تھا، ان میں سے کئی بحثیں زمان پارک میں اُن کے گھر پر ہوتی تھیں اور کئی بعد ازاں سکاچ کارنر میں قائم ہونے والے دفتر میں ہوتی رہیں۔ عمران خان ان ساری گفتگوؤں میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے۔

نسیم زہرہ بھی پارٹی کے ابتدائی دنوں اور سرگرمیوں میں عمران خان کی سیاسی سوچ اور اپروچ کو واضح کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہم عوام میں جاتے تھے تو ہم بازار میں آم اور سبزی کی پیٹیاں رکھ کر سیڑھی بنا کر کھڑے ہوتے تھے اور عمران خان تقریر کرتے تھے۔‘

’کبھی کراچی کمپنی میں اور کبھی شہر کے کسی دوسرے حصے میں چھوٹا سا سٹیج بنا کر جلسہ کرتے تھے۔ یہ بات اہم تھی کہ عمران خان میں تب بھی جوش جذبہ بہت تھا، جب ہم کسی ایسی سرگرمی سے واپس آتے تھے تو عمران خان پُرجوش انداز میں کہتے تھے کہ دیکھو کتنی دنیا آئی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ جواب میں ہم کہتے تھے کہ تعداد تو کچھ زیادہ نہیں تھی، یہی سو دو سو لوگ تھے تو عمران خان کہتے تھے کہ لیکن تم لوگوں نے ان لوگوں کی آنکھوں میں دیکھا تھا، کتنا جذبہ تھا؟ کتنا جنون تھا؟ ایسا شروع سے ہی تھا کہ عمران خان بہت پُرجوش ہوتے تھے۔‘

پی ٹی آئی ایک اصلاحی تحریک

عمران خان کے سابق معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کا پورا نام سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ’پاکستان تحریک انصاف‘ ہے جو پولیٹیکل پارٹی کے طور پر رجسٹرڈ ہے لیکن بنیادی طور پر یہ ایک ’اصلاحی تحریک‘ ہے۔ دنیا میں جتنی بھی تحریکیں ہیں، وہ مقاصد حاصل کرتی ہیں لیکن وہ کبھی اقتدار میں نہیں آتیں۔ اس لحاظ سے تحریک انصاف وہ ’اصلاحی تحریک‘ ہے، جو اقتدار تک پہنچی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ امریکی صدور کو دیکھیں تو وہ صدارت کی مدت پوری کرنے کے بعد اس منصب کو استعمال کر کے سماجی خدمت کرتے ہیں لیکن اُن کے مقابلے میں عمران خان دنیا کا وہ لیڈر ہے، جس نے سماجی خدمت کرتے کرتے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور اقتدار کی منزل تک جا پہنچا۔ یہ نام اور اس کے مقاصد اور طریق کار عمران خان کی سوچ اور طرز سیاست کی عکاسی کرتا ہے۔‘

افتخار درانی کہتے ہیں کہ چونکہ عمران خان سوشل ورک سے سیاست کی طرف آئے ہیں اس لیے ان کی توجہ کا اصل مرکز پہلے انصاف اور دوسرا سوشل ویلفیئر ہے

افتخار درانی کے مطابق عمران خان اس کی انسپائریشن جہاں سے لے رہے ہیں وہ اس ملک کے قیام کی بنیاد ہے، اس حوالے سے اہم ترین چیز علامہ محمد اقبال کا سنہ 1930 کا خطبہ الہ آباد ہے۔

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ کراچی میں گئے تو سب نے اپنے اخراجات خود برداشت کیے، یہ بات عمران خان ہمیشہ کہتے تھے کہ دیکھنا ایک دن میں وزیر اعظم ضرور بنوں گا، ایسا نہیں تھا کہ تب کوئی لاکھوں لوگ آتے تھے لیکن جب ہم اکٹھے بیٹھتے تھے تو عمران خان ایسا کہتے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب 1997 کا الیکشن آیا تو کچھ لوگوں کے خلاف کیسز جو لغاری صاحب نے بنائے تھے اُن کو بھی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی تو اس وقت عمران خان نے خط لکھا کہ یہ غلط ہے اور یہ کہ کرپٹ لوگوں کو سسٹم میں کیوں واپس لایا جا رہا ہے۔‘

 ’گھبرا تو نہیں گئے‘

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ عمران خان کی اپروچ یہی تھی کہ ہر صورت میں قانون کی بالادستی قائم کی جائے گی اور یوں کہہ لیں کہ اس وقت ان کا اس نکتے پر بہت زور تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب سنہ 97 کے الیکشن میں پارٹی کو ایک نشست پر بھی کامیابی نہیں ہوئی تو خان صاحب نے سب کو فون کیے کہ آپ لوگ گھبرا تو نہیں گئے؟ انہوں نے ہر ایک کو حوصلہ دیا اور کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’اس وقت بھی سب سے زیادہ ووٹ جو ملے تھے وہ اس وقت کے صوبہ سرحد میں تھے اور یہی طے تھا کہ وہاں کارکردگی سب سے اچھی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’تب جو کور کمیٹی تھی، سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کہلاتی تھی اور سینٹرل ایگزیکٹیو کا فیصلہ تھا کہ صوبہ سرحد میں تنظیمی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ ان دنوں اویس غنی صوبہ سرحد کے صدر تھے لیکن خان صاحب پشاور گئے اور اویس غنی کو ہٹا کر نوابزادہ محسن علی خان کو صوبائی صدر بنا دیا۔‘

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’97 کے الیکشن کے بعد خان صاحب کو سمجھ آنے لگ گئی تھی کہ الیکٹورل پالیٹکس کی ضروریات کیا ہیں؟‘

’ہم لوگ جو ان کے ساتھ پارٹی چلا رہے تھے وہ ’تحریک‘ کے انداز میں چل رہے تھے کہ نئے لوگ آ رہے ہیں جو کہ ایماندار ہیں اور وہ آ کر معاملات ٹھیک کریں گے لیکن خان صاحب کو تبھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ کامیابی کے لیے الیکٹیبلز کو لے کر چلنا پڑے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اور اس کا نتیجہ پھر آپ نے 2018 میں دیکھا کہ انھوں نے الیکٹیلز کو ساتھ لیا۔ جب پارٹی اقتدار میں آئی تو بہت مختلف لوگ ساتھ تھے، اب کامیابی کا تعین تو اس سے ہو گا کہ حکومت میں کون لوگ ساتھ تھے؟ ان کا تجربہ کتنا تھا؟‘

’ووٹ کبھی عمران خان کی ترجیح نہیں تھے‘

افتخار درانی کہتے ہیں کہ ووٹ کبھی بھی عمران خان کی ترجیح نہیں رہے۔ عمران خان سیاست میں متبادل قیادت لانے کے عمل پر کام کر رہے تھے۔ کیونکہ وہ ویلفیئر کی سیاست کر رہے تھے تو اس کے لیے وہ خیبر پختونخوا میں ایسی سیاسی قیادت سامنے لائے جن کا اس سے پہلے کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سنہ 2018 میں بھی نئی سیاسی قیادت کو عمران خان آگے لائے لیکن پوری پارٹی کو چند الیکٹیبلز کے ساتھ برینڈ کر دیا گیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’قومی اسمبلی کے ساتھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نشستوں کا جائزہ لے لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ عمران خان کی سوچ کا نتیجہ کیا تھا، کہیں پانچ یا چھ یا کہیں آٹھ یا دس سے زیادہ آپ کو جانے پہچانے چہرے نہیں ملتے بلکہ نئے لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں۔‘

سنہ 1996 سے پاکستان تحریک انصاف سے منسلک اور پارٹی کے ویمن ونگ کی سرپرست اعلیٰ منزہ حسن کہتی ہیں کہ ’تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کا نام نہیں بلکہ یہ عوام کو انصاف فراہم کرنے کی ایک تحریک ہے جس کا مقصد پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ پارٹی ایک عام سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ عمران خان کی سوچ حقوق العباد کے حوالے سے اہم پروگرام رکھتی ہے، پناہ گاہوں کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔‘

ان کے مطابق ’خواتین کے حقوق کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوئے جائیداد میں حصہ لینے کی ضمانت دے دی گئی۔ ہیلتھ کارڈ بھی سماجی خدمت کی سوچ کا عکاس ہے۔ یہ پالیسیاں ریاست مدینہ کے ماڈل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔‘

حفیظ خان کہتے ہیں کہ ’حکومت میں آنے کے بعد خان صاحب سے رابطہ نہیں رہ سکا کیونکہ میرے لیے مشکل تھا کہ لائن میں لگ کر جی حضوری کی جائے۔ اب میری تحریریں خان صاحب تک پہنچتی ہیں، کبھی وہ خوش ہوتے ہیں اور کبھی وہ ناراض ہوتے ہیں۔‘

حفیظ خان کہتے ہیں کہ ’خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد بہت ساری چیزیں جو ہونی چاہییں تھیں وہ ہوئیں اور بہت جو نہیں ہونی چاہییں تھیں، وہ بھی ہوئیں۔‘

’خان صاحب جس پروگرام کے تحت آئے تھے اس میں کچھ کوتاہیاں واضح ہو گئیں جو کہ تیاری کی کمی کا نتیجہ تھا اور پھر جو ٹیم تھی وہ بھی اس طرح پرفارم نہیں کر سکی اور خاص طور اس بات کا میں بہت ناقد رہا ہوں کہ پنجاب جو سب سے بڑا اور اہم صوبہ ہے، جہاں ملک کی 62 فیصد آبادی قیام پذیر ہے، اس میں انھوں نے ہمارے سر پر جو بزدار بٹھا دیا تھا وہ میری رائے میں بڑی ناکامیوں میں سے ایک تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’خان صاحب اس معاملے میں میری رائے سے اتفاق نہیں کرتے لیکن میری رائے یہ تھی کہ یہ (بزدار) ان کو ہی پسند ہے، باقیوں کو کیوں اس کی خوبیاں نظر نہیں آتیں۔‘

’گورننس اور احتساب آپس میں گڈ مڈ ہو گئے‘

عمران خان کے تین سال سے زائد دور حکومت میں ان کی سوچ پر عملدرآمد کے حوالے سے نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ ’قانون کی بالادستی اپنی جگہ ہے اگر دیکھیں تو ہم سب ہی لوگ احتساب کے حامی تھے لیکن کیا یہ طریقہ تھا احتساب کرنے کا اور نیب کو چلانے کا؟‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جو نیب کو اختیار ملا تو جیسے مشرف کے دور میں نیب غیرجانبدار احتساب کی بجائے سیاستدانوں کو ہی ہدف بنا رہا تھا تو اسی انداز میں سلیکٹیو احتساب کا تاثر بن رہا تھا، گورننس اور احتساب آپس میں گڈ مڈ ہو گئے تھے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر چیز میں ہی نیب احتسابی عمل کے نام پر آڑے آ رہا تھا۔ بیوروکریسی، کاروباری برادری اور سیاستدان سبھی کو نیب سے شکایت ہو رہی تھیں۔ نیب کو ایسے کام کرنا چاہیے تھا کہ قانون کی بالادستی ہو۔‘

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’قانون کی بالادستی کا کیا یہ مطلب ہے کہ آپ ہر ایک سے جھگڑا کر لیں؟ اب خان صاحب کی حکومت کے حوالے سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اہلیت نہیں تھی۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کام کرنے کے لیے لوگ کیسے چنے تھے؟ کس کا کتنا تجربہ تھا؟ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ پرانے لوگوں کو لائیں لیکن تجربہ کار لوگ تو لائیں۔‘

’ایک طرف تجربے اور اہلیت کی کمی دوسری طرف یہ کہ کیا آپ نے اہم اداروں کے حوالے سے قانون کی بالادستی کو لاگو کیا؟ اس کو چلنے دیا؟ اگر قانون کی بالادستی کی بات تھی تو آپ نے فوج کے ساتھ تعلق کیا رکھا؟ دراصل یہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس کو تو دونوں طرف ہی چلنا تھا۔۔۔‘

’عمران خان کی سیاست ویلفیئر کی سیاست ہے، میکاولین سیاست نہیں‘

افتخار درانی کہتے ہیں کہ ’عمران خان کی سیاست نظریہ پاکستان کی ریاست کی بنیاد پر قائم ہونے والی ریاست کی سیاست ہے اور یہ ’ویلفیئر‘ کی سیاست ہے، یہ میکاولین سیاست نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس مقصد کے لیے عمران خان نے نئے لوگوں کو نکالا، نئے لوگوں کو سامنے لایا، انھیں موقع دیا، کہ آئیں مل کر کرپشن کے خاتمے اور عوام کی خدمت کرتے ہیں۔‘

’اس مقصد کے حصول میں آنے والی رکاوٹوں کی عمران خان نے نشاندہی شروع کر دی۔ سنہ 2002 میں عمران خان پارلیمنٹ میں پہنچے لیکن پھر انھوں نے پارلیمنٹ چھوڑ دی وہ اس لیے کہ عمران خان ایک ’جنگ مخالف‘، ’امن پسند‘ اور ترقی پسند انسان ہے۔‘

حفیظ خان کہتے ہیں کہ ’میری رائے میں ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ خان صاحب نے بے شمار کام ٹھیک کیے ہیں لیکن ان کی ٹیم اس کو ٹھیک طرح اجاگر نہیں کر سکے۔‘

’اکنامکس کے طالب علم کے طور میں کہہ سکتا ہوں کہ معیشت کے میدان میں جو چیلنجز خان صاحب کو درپیش تھے اس کو سنبھال لینا بڑی بات تھی لیکن ان کی ٹیم اس کو درست انداز میں پروموٹ نہیں کر سکی۔‘

حفیظ خان کہتے ہیں کہ ’میری رائے میں خان صاحب جہاں چوک گئے وہ یہ کہ پارلیمانی نظام میں ذاتی رابطہ اور تعلق کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن خان صاحب اپنی ٹیم کو اس طرح ساتھ لے کر نہیں چل سکے۔ پھر ان کے گرد جو لوگ اکٹھے ہوئے ان میں درباری زیادہ اکٹھے ہو گئے، مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کی کمی ہونا شروع ہو گئی تھی۔‘

’جس کی وجہ سے خان صاحب کی سوچ پر عملدرآمد اس انداز میں نہیں ہو پایا جیسے ہونا چاہیے تھا۔‘

افتخار درانی کہتے ہیں کہ عمران خان شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی چیریٹی کے طور پر چلا رہے ہیں۔ ان کی جو بنیادی ترجیح ’ترقی برائے عوامی بہبود‘ کہی جا سکتی ہے۔

افتخار درانی کہتے ہیں کہ ’خیبر پختونخوا میں پولیس اصلاحات کا بنیادی مقصد عوام کو جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے کا مؤثر نظام قائم کرنا تھا۔ گورننس کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے عمران خان نے خیبرپختونخوا میں مؤثر بلدیاتی نظام قائم کیا۔‘

’عمران خان کے ویلفیئر سٹیٹ کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہی سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں ہیلتھ کارڈ کا نظام قائم کیا گیا جسے کامیاب تجربے کے بعد وفاقی حکومت کے قیام کے بعد پورے ملک میں قومی صحت کارڈ کے نام پر پھیلا دیا گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہے، اس لیے پہلے مرحلے میں خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی اور پھر وفاقی حکومت میں آ کر ٹین بلین ٹری سونامی کا پروگرام جاری کر دیا جس کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی پہچان ایک ریفارمر کی ہے جو سماجی ترقی میں یقین رکھتا ہے۔‘

’دوسری جانب احساس پروگرام کو دیکھیں تو ریاست مدینہ سے اس کا تصور لیا گیا۔ احساس اور انصاف، اس میں خوداری بھی تھی لیکن رحم، انصاف کے ساتھ احساس سے مؤثر ویلفیئر پروگرام تھا جس کے ساتھ صحت انصاف کارڈ اور ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام تھا۔‘

’یہ سارے پروگرام عمران خان کی ویلفیئر سٹیٹ کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔‘

 ’سیاستدان نہ ہو بلکہ اسٹیٹسمین ہو‘

منزہ حسن کہتی ہیں کہ ’میں نے جب 1996 میں عمران خان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو ایسے رہنما کی تلاش تھی جو محض سیاستدان نہ ہو بلکہ اسٹیٹسمین ہو۔‘

’ان کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھ کر میں کہہ سکتی ہوں کہ انھوں نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے کھیل کے میدان میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو سماجی خدمت کا ذریعہ بنایا اور یہ ان کی مثبت سوچ کا نتیجہ ہے کہ ذاتی فائدہ کی بجائے انھوں نے اس حیثیت کو مفاد عامہ کے لیے استعمال کیا۔‘

حفیظ خان کہتے ہیں کہ ’یہ جو موجودہ بحران آیا ہے ممکن ہے کہ یہ خان صاحب کے لیے باعث رحمت ہی ثابت ہو کیونکہ لوگوں کی توجہ ان مسائل سے ہٹ گئی اور پی ٹی آئی کے کارکن جو لوگوں کی تنقید کی وجہ سے پارٹی معاملات سے لاتعلق ہونا شروع ہو گئے تھے اور وہ حکومت کا دفاع کرنے میں مشکل محسوس کر رہے تھے اب نئے حالات میں ان کی واپسی شروع ہو چکی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انٹرنیشنل فرنٹ پر انھوں نے جو مؤقف اختیار کیا ہے اس سے لوگ اس موقف پر آ رہے ہیں کہ ’پہلے تو خان صاحب چوائس تھے لیکن اب عزت بن گئے ہیں۔‘

حفیظ خان کہتے ہیں کہ اس کے باوجود کہ عمران خان کو اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد پذیرائی مل رہی ہیں لیکن اگر انھیں دوبارہ موقع ملے تو انھیں دوبارہ نئے سرے سے ری بوٹ کرنا پڑے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلی دفعہ جو مشکل آئی تھی اس کی وجہ میری رائے میں ’اوور کمٹ‘ کر جانا بھی تھی لیکن انھیں لوگوں کی توقعات بڑھانے کی بجائے کارکردگی دکھانا ہو گی۔‘

’جیسے قانون یا آئین بدلنے کے لیے جب آپ کو دوتہائی اکثریت چاہیے تو وہ تو دور دور تک نہیں تھی تو جب کارکاردگی نظر نہ آ رہی ہو تو یہ بات سمجھنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close