پاکستان کی معیشت اس وقت جمود کا شکار ہے۔ اشیائے خوردونوش کی بڑھتی قیمتوں، مہنگائی، تنزلی کے شکار روپے اور توانائی کی قلت نے ایک معاشی بحران کو جنم دیا ہے
آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کا وہ معاشی پیکج جو اپریل میں معطل ہوا تھا، یہ رقم کب تک پاکستان کو مل سکے گی، اس بارے میں ابھی کچھ مراحل باقی ہیں
سابق وزیراعظم عمران خان کے مطابق پاکستان کے تمام سیاسی اور معاشی مسائل کا حل جلد از جلد نئے انتخابات کے انعقاد میں ہے۔ 18 جولائی کو اپنے ایک خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا ہماری معیشت اور مزید نیچے جائے گی۔‘
ایسے میں دو سوال انتہائی اہم ہیں کہ کیا نئے انتخابات معاشی استحکام لا سکیں گے اور دوسرا یہ کہ ملکی معیشت دراصل چلا کون رہا ہے
ماہر معاشیات عاطف میاں کے بقول پانچ سال کے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آنے والی ایک نئی سیاسی جماعت، ضروری نہیں کہ معاشی استحکام بھی لے آئے
ان کا کہنا ہے کہ مارکیٹس واضح حالات کا تقاضا کرتی ہیں اور پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی واضح منصوبہ نہیں بنایا ہوا کہ اگر وہ الیکشن جیت جاتی ہیں تو وہ معیشت کو کیسے چلانا چاہتی ہیں
انہوں نے کہا ’جو بھی اقتدار میں آئے گا، وہ مثلاً ٹیکس یا انفراسٹرکچر کی ترقی یا زراعت کے ضمن میں کون سی پالیسیاں مرتب کرے گا؟ ان کا وزیر خزانہ کون ہوگا؟ ان تفصیلات پر بات کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ یہ تفصیلات کسی سیاسی جماعت یا اسٹیبلشمنٹ سے پوچھیں گے تو کوئی جواب نہیں ملے گا‘
عاطف میاں کے نزدیک ایک اور مسئلہ جو مارکیٹس میں بہت زیادہ الجھن کا باعث ہے، وہ یہ کہ اس وقت معیشت چلا کون رہا ہے
انہوں نے پوچھا کہ ’معیشت کا انچارج کون ہے اس ملک میں؟‘
انہوں نے اپنے سوال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر مجھے کسی سے بات کرنے کی ضرورت ہو تو میں کس سے بات کروں گا؟ کیا میں وزیراعظم سے بات کروں یا چیف آف آرمی اسٹاف سے بات کروں؟ جب آپ کو اس سوال کا جواب نہیں پتا تو یہ ایک خطرناک بات ہے۔‘
واضح رہے کہ کچھ روز قبل ہی پاکستان کے فوجی سربراہ نے براہ راست امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین کو فون کر کے آئی ایم ایف سے قرض کی جلد ادائیگی کی درخواست کی تھی
اس کے بعد انہوں نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض کے حصول کے لیے سعودی عربیہ اور متحدہ عرب امارات کے حکام سے رابطہ کیا
اس کے علاوہ گذشتہ تین برس میں آرمی چیف نے کاروباری برادری سے مختلف اوقات میں براہ راست ملاقاتیں کیں
حتیٰ کہ سنہ 2019 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے قومی ترقیاتی کونسل قائم کی جس کے نوٹیفیکیشن کے مطابق اس کا مقصد ’معاشی ترقی کے لیے پالیسیز کی تشکیل‘ تھا۔ کونسل کے سربراہ وزیراعظم تھے جبکہ اس کے اراکین میں ایک آرمی چیف بھی تھے
انٹر لوپ لمیٹڈ کے چئیرمین مصدق ذوالقرنین کہتے ہیں ‘’جب کاروباری حضرات اسٹیبلشمنٹ سے ملتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ انہیں بلاتی ہے تو اس سے حکومت پر اعتماد میں کمی کا اظہار ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے“
اس سوال پر کہ کیا فوری انتخابات ہی پاکستان کی معاشی مشکلات کا حل ہیں، مصدق ذوالقرنین کا کہنا تھا ”پاکستان کے مسائل قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل مدتی ہیں جن کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ ساختی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے“
تاہم انہوں نے کہا ”ہاں شاید نئے انتخابات سے کچھ قلیل مدتی معاشی استحکام آ جائے لیکن اگر مصنوعات اور تیل کی قیمتوں سمیت لوڈ شیڈنگ ایسے ہی رہی تو کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا“
عاطف میاں بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل بنیادی طور پر طویل مدتی نوعیت کے ہیں
ان کا کہنا ہے ”میرا نہیں خیال کہ پاکستان آج جہاں کھڑا ہے اس میں قلیل مدتی استحکام نامی کوئی شے ہے“