لاہور کی ہوا میں میتھین گیس کی مقدار میں پریشان کن حد تک اضافہ

ویب ڈیسک

لاہور کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے جائزہ سے پتہ چلا ہے کہ شہر کی ہوا میں میتھین گیس کی سطح اندازوں سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، جو انسانوں اور ماحول دونوں کے لیے ہی نقصان دہ ہے

سائنسدانوں کی جانب سے جاری ایک نئی تحقیق کے نتائج کے مطابق دنیا میں نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے گلنے سڑنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر میتھیں گیس کا اخراج ہو رہا ہے

واضح رہے کہ میتھین گیس زمینی درجہ حرارت میں اضافے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے

اس تحقیق میں سائنسدانوں نے دنیا کے تین بڑے شہروں کے سیٹلائٹ ڈیٹا کا جائزہ لیا،جن میں پاکستان کا لاہور، بھارت کا دہلی اور ارجنٹائن کا بیونس آئرس شامل ہیں۔ اس ڈیٹا سے پتا چلا ہے کہ سن 2018ء اور سن 2019ء کے دوران لاہور میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج 1.4 سے 2.6 گنا زیادہ تھا۔ یہی حال دہلی اور بیونس آئرس کا تھا

یہ مطالعہ بدھ کو تحقیقی جریدے ’سائنس ایڈوانسز‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس تحقیق کا مقصد مقامی حکومتوں کو عالمی حدت میں کمی کے لیے بنائے گئے اہداف کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ مطالعے میں ان خصوصی عوامل اور مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جو ماحولیاتی تباہی میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں

میتھین گیس کیسے بنتی ہے؟

جب نامیاتی فُضلہ جیسے کہ خوراک، لکڑی یا کاغذ گلنے سڑنے لگتے ہیں تو ہوا میں میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ آئل اینڈ گیس سسٹمز اور زراعت کے بعد دنیا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی تیسری بڑی وجہ نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر یا پھر لینڈ فِلز ہیں۔ لینڈ فِلز اس نامیاتی ملبے کو کہا جاتا ہے، جو زمین بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے

گرین ہاؤس گیسوں میں میتھین کا حصہ صرف 11 فیصد ہے اور اخراج کے بعد یہ تقریباً بارہ سال تک ہوا میں رہتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہوا میں یہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 80 گنا زیادہ گرمی یا حدت کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے

سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق موجودہ عالمی حدت میں 25 فیصد کردار اُس میتھین گیس کا ہے، جو انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے

جدید سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال

یوہانس ماساکیرز اس مطالعے کے سرکردہ مصنف ہیں اور نیدرلینڈز انسٹیٹیوٹ فار اسپیس میں بطور ماحولیاتی سائنسدان اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”یہ پہلا موقع ہے کہ ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ تصاویر کو لینڈ فلز کا مشاہدہ کرنے اور ان کے میتھین کے اخراج کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے‘‘

انہوں نے مزید کہا ”ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ بہت سے نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر یا لینڈ فلز شہر کے سائز کے مقابلے میں تو نسبتاً چھوٹے ہیں لیکن اُس مخصوص علاقے میں خارج ہونے والی ضرر رساں گیسوں کے ایک بڑے حصے کے ذمہ دار ہیں‘‘

یونیورسٹی آف لندن میں ارتھ سائنٹسٹ اوآن نسبت کا کہنا ہے ”اس نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لینڈ فلز یا کوڑے کے ڈھیروں کا بہتر انتظام کس قدر ضروری ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں تو خاص طور پر اس حوالے سے اقدامات کرنا ضروری ہیں کیونکہ ان ممالک میں اکثر ایسے کوڑے کے ڈھیروں کو آگ لگ جاتی ہے، جس سے ایسے علاقوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے“

ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے سدباب میں سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال ابھی نیا ہے، لیکن پاکستان جیسے ممالک مستقبل میں اس سے مزید فائدہ اٹھا سکتے ہیں

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق چین اور بھارت دنیا میں سب سے زیادہ میتھین گیس پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close