جب میں کاپاڈوشیہ کی ‘وادی محبت’ سے گزر رہا تھا تو شدید طوفانی ہواؤں نے گرد و غبار سے پورے ماحول کو آلودہ کردیا تھا۔ گلابی اور پیلے رنگ کی پہاڑیوں نے زمین کے اس وسیع حصے کی وادیوں کو گہرے سرخ رنگ میں بدل کر مزید حسِین و رنگین بنادیا تھا، اور آسمان کی جانب بلند ہوتی ہوئی چٹانوں کی شکلوں جیسے آتش دان دور دور تک پھیلے ہوئے تھے
یہ بنجر، گرم لیکن ہوا دار اور دلکش منظر تھا۔ ہزار سال پہلے کے یہ غیر مستحکم، آتش فشاں والے ماحول کے مناظر قدرتی طور پر میرے اردگرد موجود برج مخروطی، مشروم سے ڈھکی ہوئی شکلوں میں ایسے نظر آتے تھے کہ جیسے کسی مجسمہ ساز نے انہیں اس زمین پر تراشا ہو۔ اب یہ خطہ لاکھوں سیّاحوں کو وسطی ترکی کے علاقے میں طویل پیدل سفر یا گرم ہوا کے غباروں کی پرواز کے ذریعے اس کی طرف راغب کرتا ہے
لیکن کاپاڈوشیہ کی زمینی سطح کے نیچے اتنے ہی بڑے تناسب کا ایک معجز نما شہر صدیوں سے چھپا ہوا ہے۔ ایک زیر زمین شہر، جو بیک وقت مہینوں تک بیس ہزار سے زائد باشندوں کو اپنی پناہ گاہ میں محفوظ رکھ سکتا ہے
’ایلینگوبو‘ کا قدیم شہر، جسے آج ڈیرنکویو کے نام سے جانا جاتا ہے، زمین کی سطح سے 85 میٹر سے زیادہ نیچے واقع ہے، جس میں سرنگوں کی 18 منزلیں شامل ہیں
دنیا کا سب سے بڑا کھدائی سے دریافت ہونے والا یہ زیر زمین شہر ہزاروں سالوں سے تقریباً مستقل طور پر استعمال میں تھا، فریجیون تہذیب سے لے کر فارسیوں اور بازنطینی دور کے عیسائیوں تک یہ تسلسل سے آباد رہا
آخر کار سنہ 1920 کی دہائی میں کاپاڈوشیہ کے یونانیوں نے اس وقت یہاں رہنا چھوڑ دیا، جب انہیں ترکوں کے خلاف جنگ کے دوران شکست ہوئی تھی اور وہ اچانک اجتماعی طور پر یونان فرار ہو گئے
نہ صرف اس کے غار نما کمرے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ایک وسیع و عریض خطے پر پھیلے ہوئے ہیں، بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ دو سو سے زیادہ چھوٹے چھوٹے اور الگ الگ زیر زمین شہر، جو اس خطے میں دریافت ہوئے ہیں، وہ سرنگوں کے ذریعے آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ قائم کر سکتے تھے اور اس کی وجہ سے زیر زمین ایک وسیع نیٹ ورک بنتا نظر آتا ہے
میرے گائیڈ سلیمان کے مطابق، ڈیرنکویو کو صرف سنہ 1963 میں ایک گمنام مقامی نے ‘دوبارہ دریافت’ کیا تھا کیونکہ اس کی مرغیاں اکثر گم ہوجاتی تھیں
جب وہ اپنے گھر کی تزئین و آرائش کر رہا تھا، تو مرغی زمین کے اندر ایک چھوٹی سی دراڑ میں غائب ہو گئی۔ اس دراڑ کو اس نے دوبارہ بھرنے کے بعد بند کر دیا تاکہ دراڑ دوبارہ نظر نہ آئے۔ قریب سے کچھ کھوج لگانے اور کچھ کھدائی کے بعد، اس تُرک نے ایک تاریک گزرگاہ کا پتہ لگایا۔ یہ 600 سے زیادہ داخلی راستوں میں سے پہلا زیرِ زمین راستہ تھا، جو نجی گھروں کے اندر سے گزرتا ہوا زیر زمین شہر ڈیرنکویو کی طرف جاتا ہے
کھدائی فوری طور پر شروع ہوئی، جس میں زیر زمین رہائشوں، خشک خوراک کے ذخیروں، مویشیوں کے اصطبل، سکول، شراب خانوں اور یہاں تک کہ ایک عبادت خانے کے پیچیدہ قسم کے نیٹ ورک کا بھی انکشاف ہوا
یہ ایک پوری تہذیب تھی، جو محفوظ طریقے سے زیر زمین آباد تھی۔ شہر کے غار کی خبر پھیلتے ہی تنگ اور بند علاقوں کے خوف میں مبتلا ہزاروں تُرکوں نے اس کی چھان بین کے لیے اس کا رُخ کیا۔ اور سنہ 1985 میں یونیسکو نے اس علاقے کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر لیا
شہر کی تعمیر کی صحیح تاریخ کے تعین کے بارے میں مختلف تحقیقات ہو رہی ہیں، لیکن ‘اناباس’ نامی کتاب جو کہ ایتھنز کے ایک محقق زینوفون نے تقریباً 370 قبل مسیح میں لکھی تھی، سب سے قدیم تحریری کام ہے جس میں بظاہر ڈیرنکویو کا حوالہ ملتا ہے۔ کتاب میں اس نے اناطولیہ کے لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو کاپاڈوشیہ کے علاقے یا اس کے آس پاس کے خطے میں آباد تھے اور وہاں کے باشندے اس علاقے میں مشہور چٹان کے کنارے غار کی رہائش گاہوں کے بجائے زیر زمین کھودے گئے گھروں میں رہتے ہیں
فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی میں کلاسیکل اسٹڈیز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اینڈریا ڈی جیورگی کے مطابق، کاپاڈوشیہ اس قسم کی زیر زمین تعمیرات کے لیے منفرد طور پر موزوں ہے کیونکہ اس کی زمین میں پانی کی کمی ہے اور کمزور اور آسانی سے ڈھل جانے والی چٹانیں ہیں
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”خطے کا ارضی جغرافیہ (جیومورفولوجی) زیر زمین جگہوں کی کھدائی کے لیے سازگار ہے’۔ ان کے مطابق مقامی خانہ دار کلسی پتھر، یا چونے کے پتھر کی مٹی کو بیلچے اور کدال جیسے سادہ اوزاروں سے کھودنا اور تراشنا کافی آسان ہوتا ہے۔ یہی آتِش فِشاں چٹان کے پھٹنے سے اُڑنے والے پتھروں پر مُشتمل (پائروکلاسٹک) مادّہ قدرتی طور پر دیو مالائی کہانیوں کے آتش دان اور زمین سے اوپر زمین پر کھڑے بُرجوں کی قطاروں کی مانند نظر آتے ہیں۔
لیکن ڈیرنکویو کی تعمیر اور تخلیق کا سہرا کسے جاتا ہے، یہ بات ابھی تک جزوی طور پر معمہ بنی ہوئی ہے۔ زیر زمین غاروں کے وسیع و عریض نیٹ ورک کی تعمیر عموماً قدیم قوم ‘حِنی’ (ہیٹیوں) سے منسوب کی جاتی ہے
بحیرہ روم کی تہذیب کی ایک محقق، اے برٹینی کے ایک مضمون ‘غار کی رہائش، علاقائی غار کی فن تعمیر’ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ‘انھوں (اس قدیم قوم) نے چٹان کی ابتدائی چند سطحوں کی کھدائی کی ہو گی جب وہ 1200 قبل مسیح کے لگ بھگ فریجیوں کے حملے کی زد میں آئے تھے’۔ اس مفروضے کو مزید تقویت دیتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ ڈیرنکویو کے اندر ‘حِنی’ (ہیٹائٹ) تہذیب کے نمونے پائے گئے ہیں
تاہم شہر کا زیادہ تر حصہ ممکنہ طور پر فریجیوں نے تعمیر کیا تھا، جو لوہے کے دور کے انتہائی ماہر معمار تھے اور جن کے پاس زیر زمین سہولیات کی تعمیر کے ذرائع تھے
ڈی جیورگی نے وضاحت کی کہ ‘فریجیون اناطولیہ کی سب سے نمایاں ابتدائی سلطنتوں میں سے ایک تھے۔’انھوں نے پہلے ہزار سال قبل مسیح کے اختتام کے آس پاس مغربی اناطولیہ میں ترقی کی اور ڈیرنکویو سمیت چٹانوں کی شکلوں کو یادگاری نشان اور نمایاں چٹان سے کٹے ہوئے برج بنائے ہوں گے۔’
اصل میں ڈیرنکویو ممکنہ طور پر سامان کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اس کا بنیادی مقصد غیر ملکی حملوں کی صورت میں عارضی پناہ گاہ کے طور پر سامان وغیرہ کا ذخیرہ کرنا تھا، جس میں کاپاڈوشیہ نے صدیوں کے دوران طاقتور سلطنتوں کے حملوں کا ایک مستقل سلسلہ دیکھا تھا
ڈی جیورگی نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ ‘ایک کے بعد دوسری سلطنتوں کے آثار اور اناطولیہ کے مناظر پر ان کے اثرات ڈیرنکویو جیسے زیر زمین پناہ گاہوں میں ملتے ہیں۔’
یہ (ساتویں ویں صدی کے) اسلامی حملوں کا وقت بنتا ہے (جو کہ بنیادی طور پر عیسائی بازنطینی سلطنت پر حملوں کا سلسلہ تھا)۔ تاہم یہ مکانات اس زمانے میں مکمل طور پر زیرِ استعمال تھے (یعنی آباد تھے)۔’ جب کہ فریجیون، فارسی اور سلجوق، ایک دوسرے کے ساتھ اس خطے میں آباد تھے اور بعد کی صدیوں میں زیر زمین شہر تک پھیل گئے تھے۔ ڈیرنکویو کی آبادی بازنطینی حکومت کے دوران اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی، اور اُس وقت اس زیرِ زمین شہر میں تقریباً بیس ہزار لوگ آباد تھے
آج آپ صرف 60 ترک لیرا (2.80 برطانوی پاؤنڈ) میں اس زیر زمین شہر کی زندگی کی تلخ حقیقت کا تجربہ کر سکتے ہیں
جیسے ہی میں کچی، تنگ سرنگوں میں نیچے اترا، دیواریں صدیوں کی ٹارچ لائٹنگ سے سیاہ نظر آئیں، فوراً ہی تنگ و تاریک رستوں کے خوف کا ایک ناآشنا سا احساس پیدا ہونے لگا۔ تاہم ڈیرنکویو پر مسلط ہونے والی مختلف سلطنتوں کی کہانی جلد ہی آسانی سے عیاں ہو گئی۔ جان بوجھ کر تنگ، چھوٹے دالانوں نے سیّاحوں کو رکوع جیسی جھکی ہوئی حالت میں راہداریوں اور رہائش گاہوں کی بھول بھلیوں میں جانے پر مجبور کیا۔ ظاہر ہے کہ ان میں داخل ہونے والے سیّاحوں کے لیے ایک یہ غیر مناسب حالت تھی۔ چراغ کی لو سے بھی مدھم روشنی میں، آدھے ٹن وزنی گول پتھر 18 منزلوں میں سے ہر ایک کے درمیان بنے ہوئے دروازے کو بند کردیتے تھے اور یہ پتھر صرف اندر سے حرکت کر سکتے تھے۔ ان بھاری دروازوں کے بیچ میں چھوٹے، بالکل گول سوراخوں کی وجہ سے رہائشیوں کو ایک محفوظ دائرے کو برقرار رکھتے ہوئے حملہ آوروں کو برچھی مارنے کا موقع بھی مل سکتا تھا
میرے گائیڈ سلیمان نے مزید کہا کہ ‘زیر زمین زندگی شاید بہت مشکل تھی۔ یہ قدیم لوگ اپنے آپ کو ایک قسم کے مہر بند مٹی کے برتنوں میں محفوظ رکھتے، چراغوں کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کرتے اور لاشوں کو (نامزد) جگہوں پر دفناتے بھی تھے۔’
شہر کی ہر منزل کو مخصوص استعمال کے لیے احتیاط سے تعمیر کیا گیا تھا۔ مویشیوں کی طرف سے پیدا ہونے والی بدبو اور زہریلی گیسوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ سرد مہینوں کے لیے موصولیت (اِنسولیشن) کی ایک گرم تہہ فراہم کرنے کے لیے مویشیوں کو زمین کی سطح کے قریب اصطبل میں رکھا گیا تھا
جبکہ شہر کی اندرونی منزلوں میں مکانات، تہہ خانے، سکول اور ملاقات کی جگہیں بنائی گئی تھیں۔ اسے منفرد نصف دائرے کی شکل کی چھتوں سے پہچانا جا سکتا ہے، ایک روایتی بازنطینی مشنری سکول، جو مطالعہ کے لیے ملحقہ کمروں کے ساتھ مکمل ہے، یہ دوسری منزل پر واقع ہے
ڈی جیورگی کے مطابق، ‘شراب سازی کے تہہ خانے، انھیں محفوظ رکھنے کے لیے حوض اور صراحیاں (ایک تنگ گردن کے ساتھ لمبے، دو ہاتھ والے مرتبان) بھی یہاں دریافت ہوئے ہیں۔’ ان کے حساب سے یہ مخصوص کمرے یہ بتاتے ہیں کہ ڈیرنکویو کے باشندے ان زیرِ زمین منزلوں کے نیچے مہینوں گزارنے کے لیے تیار ہوتے تھے
لیکن سب سے زیادہ متاثر کن ہوا کی آمد و رفت کا ایک پیچیدہ نظام ہے اور یہ اچھی طرح سے محفوظ ہے جو پورے شہر کو تازہ ہوا اور صاف پانی فراہم کرتا ہے
درحقیقت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈیرنکویو کی ابتدائی تعمیر ان دو ضروری عناصر کے اردگرد مرکوز تھی۔ پچاس سے زیادہ ہوا کی آمد و رفت کے سوراخ، جو شہر کے بہت سے مکانات اور دالانوں کے درمیان قدرتی ہوا کا بہاؤ بناتے ہیں، کو پورے شہر میں پھیلایا گیا تھا تاکہ ان کی ہوا کی فراہمی پر ممکنہ طور پر کسی مہلک حملے سے لوگوں کو بچایا جا سکے۔ کنواں 55 میٹر سے زیادہ گہرا کھودا گیا تھا اور شہر کے باشندے اسے آسانی سے نیچے سے باہر کی دنیا سے منقطع کر سکتے تھے
اگرچہ ڈیرنکویو کی تعمیر ان لوگوں کی واقعی بہت زیادہ ذہانت کا ثبوت دیتی ہے، لیکن کاپاڈوشیہ میں یہ واحد زیر زمین شہر نہیں ہے۔ 445 مربع کلومیٹر پر یہ 200 میں سے محض سب سے بڑا شہر ہے اور اناطولیہ کے میدانوں کے نیچے زیر زمین شہروں میں سے ایک ہے
ان چھوٹے شہروں میں سے چالیس سے زیادہ سطح کے نیچے تین یا اس سے زیادہ منزلوں کی سطح پر ہیں۔ بہت سے قدیم لوگ احتیاط سے کھودی گئی ان سرنگوں کے ذریعے ڈیرنکویو سے رابطے میں رہتے تھے۔ کچھ سرنگیں 9 کلومیٹر دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر پہلی منزل پر فوری واپسی ضروری ہو تو یہ سبھی ہنگامی فرار کے راستوں سے لیس ہیں
لیکن کاپاڈوشیہ کے زیر زمین راز ابھی تک مکمل طور پر کھودے نہیں جا سکے ہیں۔ سنہ 2014 میں ایک نیا اور ممکنہ طور پر اس سے بھی بڑا زیر زمین شہر ‘نوشہر’ کے علاقے کے نیچے دریافت ہوا تھا
ایک آباد ڈیرنکویو کی کہانی سنہ 1923 میں اس وقت ختم ہوئی جب کاپاڈوشیہ کے یونانی ایک اجتماعی انخلا پر مجبور ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے شاید شہر کی ممکنہ تعمیر کے 2,000 سال بعد ڈیرنکویو کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ اس شہر کے وجود کو جدید دنیا نے فراموش کر دیا تھا، لیکن گُم ہوجانے والی کچھ مرغیوں نے اس زیر زمین شہر کو کم از کم سیاحوں کے لیے دوبارہ آباد کر دیا۔
بشکریہ بی بی سی اردو