بھارت میں کسانوں نے ایک بار پھر احتجاج شروع کر دیا ہے اور رکاوٹیں توڑتے ہوئے دارالحکومت دہلی میں داخل ہو گئے ہیں
اس موقع پر کسانوں نے حکومت کے خلاف شدید نعرہ بازی کی اور کہا ”ہمارے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جا رہے“
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو ہزاروں کی تعداد میں ملک کے مختلف حصوں سے کسان دارالحکومت کے قریب جمع ہوئے اور پھر مل کر شہر میں داخل ہوئے، حکومت نے کسانوں کی ممکنہ آمد کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے تاہم وہ کسان کو داخل ہونے سے نہ روک سکے
خیال رہے کہ ایک سال تک جاری رہنے والے کسانوں کے پچھلے احتجاج کے بعد حکومت نے ان سے مذاکرات کیے تھے اور ان کے بیش تر مطالبات مان لیے تھے، جس کے بعد کسانوں نے احتجاج ختم کر دیا تھا تاہم آٹھ ماہ بعد کسانوں نے وعدے نہ پورے کرنے کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا ہے
احتجاج کا اہتمام کرنے والی تنظیم سمیوک کسان مورچہ کی جانب سے حکومت سے جو مطالبات کیے جا رہے ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ حکومت تمام پیداواروں کے لیے کم سے کم امدادی قیمت کی ضمانت دے، کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں
اس معاملے پر درخواست کے باوجود ابھی تک بھارتی وزارت زراعت کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے
اطلاعات کے مطابق احتجاج کرنے والے کسانوں نے جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور پنڈال کی طرف بڑھتے ہوئے راستے میں آنے والی رکاوٹیں توڑ دیں
پچھلے سال نومبر میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ زراعت کے حوالے سے بنے تین قوانین واپس لیں گے تاہم کسانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے کسانوں کا استحصال ہو گا
پچھلے سال نومبر میں کسانوں کے شدید احتجاج کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’ہم نے تینوں زرعی قوانین واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم تینوں قوانین کو واپس لینے کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس میں آئینی عمل کا آغاز کریں گے جو رواں ماہ کے آخر میں شروع ہوگا‘
یاد رہے کہ اس سے قبل احتجاج کا فیصلہ اس وقت تیز کر دیا تھا، جب اس پر انڈین سپریم کورٹ کا یہ موقف سامنے آیا تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہ اس کا جائزہ لے گی
پچھلے سال ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے اور چار کسانوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے
ستمبر 2020 میں کئی ریاستوں میں کسانوں کے احتجاج کے باوجود حکومت کی جانب سے تین متنازع قوانین کی منظوری دی گئی تھی
جس پر کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان سے زرعی اشیا کی قیمتوں کے تعین کا اختیار متاثر ہو گا اور بڑے ریٹیلیرز قیمتوں کو کنٹرول کریں گے۔
ان قوانین کی منظوری کے بعد بڑے پیمانے کا احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ملک کے مختلف حصوں سے کسانوں کی ریلیاں دارالحکومت پہنچی تھیں جہاں انہوں نے ڈیرے ڈال لیے تھے اور بی جے پی کی حکومت کو دفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا تھا
اسی طرح 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان دارالحکومت دہلی کے لال قلعہ میں داخل ہو گئے تھے اور اس کے اوپر جھنڈا لہرا دیا تھا
اس پر وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ دلی میں مظاہرین نے لال قلعے پر دھاوا بول کر ملک کی ’توہین‘ کی ہے۔