حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگلے چند دنوں میں پانی کے ریلے سندھ تک پہنچ جائیں گے جس سے سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد کی مشکلات میں اضافہ ہو گا
پہلے ہی سیلاب زدہ صوبہ سندھ شمال میں سیلابی ندیوں سے آنے والے ایک نئے سیلاب کی تیاری کررہا ہے جہاں مون سون سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی
سندھ کئی ہفتوں سے جاری موسلا دھار بارشوں کی زد میں ہے جس نے صوبے بھر کے کھیتوں میں پانی بھر دیا ہے لیکن اب شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں سے آنے والے پانی کے ریلے انتہائی تیزی سے سے دریائے سندھ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور چند دن میں یہاں پہنچ جائیں گے
جہاں سیلاب صوبے میں داخل ہونے کے لیے تیار نظر آتا ہے وہیں دوسری جانب سندھ کے لاکھوں لوگوں کی قسمت کا انحصار 90 سال پرانے بیراج پر ہے جو دریائے سندھ سے پانی کے بہاؤ کو دنیا کے سب سے بڑے آب پاشی نظام میں سے ایک کی طرف لے جاتا ہے۔
سکھر بیراج کے سپروائزر عزیز سومرو نے کہا کہ اس وقت سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
سکھر شہر کے قریب ایک 42 سالہ کاشتکار ارشاد علی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو میں مون بارشوں سے کھجور اور سبزیوں کی فصل کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دریا میں آنے والا پانی ہمیں خوفزدہ کر رہا ہے
دریائے سندھ کا پانی پہلے ہی کئی جگہوں پر کناروں سے باہر آرہا ہے اور جب تک سکھر بیراج بہاؤ کو کنٹرول نہیں کرتا، یہ تباہی کا باعث بنے گا۔
یہ اصل میں لائیڈ بیراج کے نام سے جانا جاتا ہے جسے 1932 میں مکمل ہونے پر انجینئرنگ کا کمال تصور کیا جاتا تھا جو پتھر کے ستونوں کے درمیان لگے ہوئے 19 اسٹیل گیٹس کے ذریعے فی سیکنڈ 14لاکھ کیوبک میٹر پانی خارج کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
وزیر برائے آبی وسائل خورشید شاہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس (بیراج) نے 90 سال مکمل کر لیے ہیں جب کہ اس کی 50 سال کی گارنٹی تھی، لہذا ہم اس کی ضمانت شدہ زندگی سے 40 سال آگے ہیں۔
بیراج کے ذریعے پانی کو تقریباً 10ہزار کلومیٹر کی نہروں کی ایک سیریز کی طرف منتقل کیا جاتا ہے جو کھیتوں سے گزرتی ہیں لیکن برسوں تک نظر انداز کیے جانے کے سبب وہ آج کے دنوں کے پانی کے ریکارڈ حجم سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ گدائی کا ڈھیر لگ رہا ہے اور اسے ہٹایا نہیں جا رہا ہے، سامان کی کمی کی وجہ سے 2010 سے نہروں کی کھدائی نہیں کی گئی
انہوں نے کہا کہ شہر پہلے ہی دریا کی سطح سے چار فٹ نیچے ہے۔
سندھ کے کچھ حصوں میں صرف اونچی سڑکیں اور ریل کی پٹڑیاں ہی خشک ہیں جہاں ہزاروں غریب دیہی لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ پناہ لیے ہوئے ہیں۔
سکھر کے قریب خیموں کی قطار دو کلومیٹر پر محیط ہے جہاں لوگ اب بھی لکڑی کی چارپائیوں، بستروں اور برتنوں اور کھانے پینے کی اشیا سے لدے کشتیوں کے ذریعے پہنچ رہے تھے۔
مزدور وکیل احمد نے کہا کہ کل سے دریا میں پانی چڑھنا شروع ہوا جس سے تمام گاؤں ڈوب گئے اور ہم بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔
بیراج سپروائزر نے کہا کہ ہر سلائس گیٹ 6 لاکھ مکعب میٹر فی سیکنڈ سے زیادہ دریا کے بہاؤ سے نمٹنے کے لیے کھلا ہے
یہ سیلاب پاکستان کے لیے کے لیے ایک ایسے بدتر وقت پر آیا ہے جب معیشت زوال کا شکار ہے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے معزول کر دیا گیا تھا۔
دریا کے نگران شاہد حسین نے کہا کہ یہ پشتہ مضبوط ہے، مشینری دستیاب ہے اور عملہ چوکس ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس سال مون سون کے سیلاب نے سوا تین کروڑ سے زیادہ افراد یعنی ہر سات میں سے ایک پاکستانی کو متاثر کیا ہے ، تقریباً دس لاکھ گھروں تباہ ہو گئے یا انہیں بری طرح نقصان پہنچا ہے لہٰذا حکومت نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
جہاں دارالحکومت اسلام آباد اور ملحقہ جڑواں راولپنڈی سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے لیکن وہ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔
حکام نے اے ایف پی کو بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ٹماٹر، مٹر، پیاز اور دیگر سبزیاں دستیاب نہیں ہیں اور قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔
انجینئرز اتوار کو شہر میں دریائے سندھ کے ایک اہم موڑ علی واہن لیوی کو مضبوط بنانے کے لیے ہنگامہ بنیادوں پر کام کر رہے تھے کیونکہ اسے بپھرتے ہوئے دریا سے خطرات لاحق ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اچھی چیز وقت ہے، جب تک شمالی علاقوں سے آنے والا پانی یہاں تک پہنچے گا، اس وقت تک مقامی بارشوں کی وجہ سے آنے والا سیلاب کا پانی کم ہو جانا چاہیے۔
لیکن اگر یہاں دوبارہ بارش ہوتی ہے تو صورتحال تیزی سے بدل سکتی ہے۔
اتوار کے روز نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے کہا کہ مون سون بارشوں سے مرنے والوں کی تعداد 1ہزار 33 تک پہنچ گئی ہے اور پچھلے 24 گھنٹوں میں 119 افراد ہلاک ہوئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سال کے سیلاب کا 2010 سے موازنہ کیا جا سکتا ہے جو بدترین تھا جہاں اس وقت 2ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور ملک کا تقریباً پانچواں حصہ زیر آب آ گیا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سندھ کا فضائی دورہ کرنے کے بعد کہا کہ گاؤں کے گاؤں کا صفایا ہو چکا ہے، لاکھوں گھر تباہ ہو چکے ہیں، بہت تباہی ہوئی ہے۔
شمال علاقوں میں ابلتے ہوئے دریاؤں کے قریب رہنے والے ہزاروں لوگوں کو بھی خطرے کے علاقوں سے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن فوج کے ہیلی کاپٹر اور امدادی کارکن اب بھی محفوظ مقام پر پہنچ رہے ہیں
حکام اس تباہی کا ذمہ دار انسانوں کی وجہ سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیتے ہیں جہاں ان کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کی وجہ سے پاکستان غیرمنصفانہ طور پر ابتر ماحولیاتی اقدامات کو برداشت کر رہا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم جرمن واچ کے گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے جو ان ممالک کی فہرست ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی خطرات سے دوچار ہیں۔
بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی اور مقامی ضابطوں کو بنیاد بنا کر سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں ہزاروں عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں جو صورتحال کو مزید خراب کرتی ہیں