سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط51)

شہزاد احمد حمید

ڈیرہ غازی خاں کے رہنے والے قاسم نقوی (رٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ انجینئر محکمہ بلدیات) یہاں ہمارے میزبان ہوں گے۔ تونسہ سے گدو تک کا سفر ہم کشتی میں ہی کریں گے۔ اس سفر کو طے کرنے میں ہمیں 3 دن لگیں گے۔ گدو تک کے سفر میں دوستوں کے علاوہ ڈولفن، غیر ملکی مہمان مرغابیاں، ہنس، سرخاب بھی ہمارے ہمسفر ہوں گے۔ ٹھنڈ بھی خوب ہوگی اور راستے میں کچے کے مکینوں اور ڈاکوؤں سے بھی ملاقات ہوگی۔ سب سے بڑی بات یہ سفر جھوٹ، فریب، نفرت، مصنوعی روشنیوں، مشنینی آوازوں سے دور اور قدرت، فطرت، ستاروں، سورج اور چندا ماموں اور سب سے بڑھ کر سندھو کی رفاقت میں ہوگا۔ نین بھی ہوگی، مشتاق بھی ہوگا، باس بھی ہوں گے۔

سندھو سنانے لگا، ”دوست! ڈی جی خاں میں زراعت کا نظام زیادہ تر بارش اور ’رودکوہی‘ نظام سے سیراب ہوتا ہے۔ یہاں 3 بڑے نالے ’وہودا‘ ، ’سانگھڑ‘ اور ’کہا‘ کوہ سیلمان کی تنگ گھاٹیوں اور دروں سے سر رگڑتے ہوئے نکلتے ہیں اور راستے میں اپنے چھوٹے چھوٹے معاونوں کے ہمراہ پہاڑی ڈھلوانوں سے لاکھوں ٹن سنگ ریزے، ریت اور مٹی کریدتے پہاڑ کی تلہٹی اور میری درمیانی پٹی میں انڈیل کر اس عمل مسلسل سے ’پچد‘ کا شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا طویل بارانی میدان بناتے ہیں۔اپنی ساخت کے اعتبار سے پچد باریک گندھی ہوئی مٹی کا زرخیز قطعہ ہے۔ اس میں بارش کی قلت کے سبب زراعت کا انحصار زیادہ تر ان پہاڑی نالوں پر ہے، جن کی گزرگاہوں میں پتھروں کے پشتے باندھ کر پانی جمع کیا جاتا ہے اور وہاں سے کھالوں کے ذریعے ان کھیتوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ نالوں سے زمین سیراب کرنے کا پرانا طریقہ رودکوہی کہلاتا ہے۔راجن پور کی جام پور تحصیل میں ’کہا‘ نالے سے آب پاش ہونے والی زمینوں اور ان کے پانی کو ’کالا پانی‘ کہا جاتا ہے۔ ان زمینوں میں عمدہ چاول اور گیہوں پیدا کی جاتی ہے۔ رودکوہی نظام سے باہر کی زمینیں غیر مزروعہ چھوڑ دی جاتی ہیں یا ان میں کاشت کے لئے برساتی پانی کا انتظار کیا جاتا ہے۔“

ہم غازی گھاٹ کا پل پار کر کے سندھو کے مشرقی کنارے ’بستی سرور والی‘ گاؤں پہنچے ہیں۔ جمشید بزدار کے جاننے والے دریا واسیوں کا گاؤں۔ کشتی بنانا اس گاؤں کے لوگوں کا قدیم پیشہ ہے۔ خود بھی کشتیوں یا کچے جھونپڑوں میں رہتے ہیں۔ہمارے دریائی سفر کے لئے ایک، 2 منزلہ بڑی کشتی کنارے آن لگی ہے۔ اس پر ہمارا سامان لادا جا ئے گا، دورانِ سفر استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً خیمے، کھانے پینے اور پکانے کا سامان وغیرہ۔ کشتی کے مستول پر دو جھنڈے لگے ہیں، ایک سبز رنگ کا (شاید کسی آستانہ کا ہے) اور دوسرا پیپلز پارٹی کا سہ رنگا۔ کشتی کے بیچ سرکنڈوں کی ’چک‘ کا بنا کمرہ ہے۔ جس کے فرش پر رنگ برنگا درمیانی کوالٹی کا قالین اور روئی کے گدے بچھے ہیں۔ یہ سونے کا کمرہ ہے۔ اس کمرے میں جانے کے لئے جوتے باہر اتارنے پڑتے ہیں۔ ویسے بھی جوتے اتار کے کمرے میں جانا یہاں کا رواج ہے۔ پہلی منزل پر لکڑی کے دو بنچ ہیں اور ان کی اطراف لکڑی کا مضبوط جنگلہ ہے۔ نین کے لئے کشتی میں سونے کا ایک علیحدہ عارضی کمرہ بنایا گیا ہے۔ اس کمرے میں داخل ہوں تو سامنے آئینہ پر سانولی سلونی انڈین اداکارہ ریکھا کی نیم عریاں تصویر ہے، جس میں اُس من موہنی کا آدھا پیٹ، گھٹنے تک ٹانگیں اور کندھے عریاں بلکہ نیم برہنہ ہیں۔ آئینے کے ساتھ کیل پر ایک بیگ ٹنگا ہے، جس میں میک اپ کا معمولی سامان ہے، لپ اسٹک، کاجل، مسکارا، وغیرہ۔ مجھے خیال آیا کشتی والے کی بیوی کا ہوگا۔ یہ سوچ کر ایک خوشگوار مسکراہٹ میرے لبوں پر پھیل گئی ہے کہ بیلے کے علاقے کی نازنین بھی خوبصورت نظر آنے کے لئے ان مصنوعی چیزوں کا استعمال کرتی ہیں اور خوب سج دھج کے اپنے مرد کا انتظار کرتی ہوں گی اور جیسے ہی بنجارے کی نظر اپنی سلونی پر پڑتی ہوگی تو وہ دن بھر کی تھکن بھول جاتا ہوگا۔ ویسے بھی محبت اور حسن کے آنچل تلے ہر مرد کائنات کی ہر تھکن بھول جاتا ہے۔ میرے ساتھ تو ہمیشہ ہی ایسا ہوا ہے۔

لہروں کے دوش پر
لہریں مجھ سے سرگوشی کرتی ہیں
کنارے کی نرم ریت گدگداتی ہے
لہریں میرے پیر چھوتی ہیں
میرے خیالوں میں تم چلی آتی ہو۔۔

کہتے ہیں موج دریا میں ہوتی ہے اور بیرونِ دریا کچھ نہیں ہوتا۔ میں اسے نہیں مانتا۔ دل کی موج دریا کی موج سے کہیں طاقت ور ہوتی ہے۔ ہاں اگر دریا اور دل کی موجیں مل جائیں تو ماند برق جاتی ہیں۔۔ جہاں دل پر گری، قیامت برپا کر دی۔

اب سفر سندھو کی لہروں کے دوش پر ہوگا۔ کشتی کے کمرے میں لگی ریکھا کی تصویر، سندھو کی نرم لہریں دل اور سندھو کی موجوں کو ایسا جوڑیں گی جو الفاظ کے احاطے سے باہر ہوگا۔ کم از کم مجھ جیسا کم عقل تو ان جذبات کے اظہار کے لئے الفاظ ڈھوندنے میں ناکام ہے۔ لہریں بھی کمال ہوتی ہیں۔۔ اٹھتی پانیوں میں ہیں اور آگ لگاتی دل میں ہیں۔ واہ ری لہرو۔ لہروں کے دوش پر محوِ سفر ملاحوں کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔ مجھے اس حوالے سے سندھی زبان کی ایک نظم کے کچھ اشعار ذھن میں اتر آئے ہیں۔ شاعر اس نظم میں بیوی کے جذبات کا اظہار کر رہا ہے۔ ترجمہ کچھ یوں ہے؛
”آج کی رات میری خاطر رکو۔ میں کشتی کو تھامے رہوں گی۔ کیا میری محبت اتنی طاقت ور نہیں جو تمہیں روک سکے۔۔ اگر دریا کی موجیں محبت بھری اور مست ہیں تو میری سانسیں گرم، آنکھیں مست اور باہیں بھی محبت سے لبریز ہیں۔میرے ہاتھ کشتی کو ہلنے نہیں دیں گے۔ تم میری آنکھوں میں دیکھو، تمہیں انتظار اور قرار ملے گا۔“

کشتی تیار ہے۔ سامان لادا جا چکا ہے اور مسافر سوار ہو چکے ہیں۔ میرے ساتھ شاعر کے بیان کردہ سبھی جذبات اور احساسات ہیں۔ کشتی سندھو کی لہروں کے حوالے۔ اللہ خیر ہوئے۔ پیر بخش، چاچا غلام رسول المعروف چاچا گاماں اور میراں ملوانی کشتی کے ملاح ہیں جبکہ حضور بخش میرانی باورچی ہے۔ ہلکی داڑھی سر پر مہندی سے رنگے ہوئے گھنے بال، سندھی ٹوپی، کندھے پر اجرک، کھلی شلوار قمیض میں ملبوس۔ سبھی چالیس پچاس کے پیٹے میں ہیں۔ انہوں نے اپنی عمر سندھو کے پانیوں میں کشتی کھیتے گزاری ہے۔ سندھو کی طرح یہ بھی ہنس مکھ، زندہ دل اور یار دوست ہیں۔ سندھو کے غصہ اور دریا دلی سے خوب واقف ہیں۔ صبح کا وقت، بادِ نسیم چل رہی ہے اور سندھو کے پرسکون پانی پر رواں کشتی۔ کشتی کا ڈیزل انجن اسٹارٹ ہوا، کالا دھواں فضا میں بکھرا اور کشتی آہستہ آہستہ سندھو کے پانیوں پر چلنے لگی ہے۔

چاچا گاموں بولے؛ ”ہم اس کشتی پر دس ناٹ فی گھنٹے کی رفتار تک سفر کر سکتے ہیں۔ ہماری دیسی موٹر بوٹ۔ آپ اسے چھوٹا بحری جہاز بھی کہہ سکتے ہیں۔“ سندھو کی آواز سنائی دی؛ ”پانی میں سفر کا فاصلہ ناٹیکل میل سے ناپا جاتا ہے جبکہ رفتار ناٹس میں۔“

سورج کی سنہری کرنیں سندھو کے پانی سے ٹکراتی اپنے ہی رنگ میں رنگنے لگی ہیں۔ حدِ نظر سفید اور سنہرے موتیوں کی مالائیں جیسے جگ مگ کر رہی ہوں۔ ہمارے بائیں طرف سرکنڈوں کا جنگل دور تک پھیلا ہے۔ کہیں کہیں باغوں کے سلسلے ہیں۔ ہماری کشتی کنارے سے تقریباً ڈیڑھ دو سو میٹر دور ان موتیوں کی سطح پر تیرتی چلی جا رہی ہے۔ سبھی دوست کشتی کے عرشے پر بیٹھے سندھو کے اطراف کے حسن میں کھوئے ہیں

پانی میں ہلچل پیدا ہوئی، چاچا گاماں بول پڑا؛ ”سائیں! ادھر ہی ’بلہن‘ (مقامی لوگ سندھو کی ڈولفن کو بلہن کہتے ہیں) ہوگی۔“ اس نے یہ کہا ہی تھا کہ حضور بخش کی اونچی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ ہم سے کچھ فاصلے پر ڈولفن کا جوڑا فضاء میں بلند ہوا، قہقہہ گونجا، لمحہ بھر کے لئے ڈولفن کا یہ جوڑا اپنا پہلا درشن کروا کر سندھو کے گدلے پانی میں زبردست اچھال لا کر پانی کی سطح سے اس کی گہرائی میں گم ہو گیا ہے۔ چاچا گاموں بولا؛ ”بلہن کا یہ جوڑا کچھ دور تک ہمارے ساتھ ہی سفر کرے گا لیکن کشتی سے دور رہ کر۔ دو تین بار پانی سے اچھلے گی، قہقہہ بھی لگائے گی جیسے ہمارے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہو، خاص طور پر بی بی جی کو۔“ ان کا فقرہ ختم ہی ہوا تھا کہ ہم سے کچھ دور بلہن پھر سے فضاء میں بلند ہوئی۔ اب کی بار ذرا دیر تک درشن دیتی رہی اور نین نے تو اس کی تصویر بھی کھنچ لی ہے۔ ”واہ! اللہ کی شان دیکھو۔ یہ انسانوں سے پیار کرتی ہے۔ انسانی جان بچانے کے حوالے سے اس کی بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔“

باس کہنے لگا؛ ”سندھو کی ڈولفن خاص نسل کی ہے۔ اس کو دکھائی نہیں دیتا اور یہ ’اندھی ڈولفن‘ کے نام سے مشہور ہے۔ سندھو کے علاوہ یہ دریائے گنگا میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ پانی پر اٹھنے والی لہروں سے سمت اور اپنی طرف آنے والی چیزوں کو محسوس کرتی ہے۔“ یہ سن کر حضور بخش نے جواب دیا؛ ”جی سائیں ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔ یہ بلہن اندھی ہوتی ہے لیکن یہ ہماری دوست اور ساتھی ہے۔ ہم اس سے اور یہ ہم سے پیار کرتی ہے۔ کئی بار اس نے مشکل میں پھنسے ملاحوں کی مدد کی ہے۔ مدد کرنے کے بعد اس کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close