”جو سیلاب سے بچ گیا تھا، وہ لٹیرے لے گئے“

ویب ڈیسک

چند روز قبل نواں کلی کے علاقے میں رات گئے مقامی پولیس کے کنٹرول روم سے کوئٹہ کے قریب موجود ولی تنگی ڈیم میں شگاف پڑنے کی اطلاع جاری کی گئی۔ یہ اعلان سنتے ہی علاقہ مکین ننگے پاؤں، بے سرو سامانی کے عالم میں جان بچانے گھر چھوڑ چھاڑ کر نکل پڑے

اسی دوران پیش آنے والے واقعات نے وہ کچھ ہوا، اس نے نہ صرف ہماری معاشرتی پستی کو عیاں کر دیا بلکہ انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک گیا۔ یہ رہائشی اپنی جان بچانے شہر کی جانب آئے تو اس دوران ان میں سے کئیوں کے گھر لوٹ لیے گئے

کامران شہزاد بھی اسی علاقے میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے گھر کی نچلی منزل کے ملبے تلے دبی الماری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”یہاں میری بیوی کا زیور تھا۔ اور یہاں اس شیلف میں نقدی تھی، جس سے میں نے دوسری منزل کی دیوار بنانی تھی۔ سب کچھ چلا گیا۔“

نواں کلی حالیہ سیلاب سے کوئٹہ کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں آبادی کے قریب ہی پانی کی گزرگاہ ہے، جو طویل عرصے سے خشک تھی۔ گزشتہ ہفتے آنے والے سیلاب کے پانی نے اسی راستے پر موجود بیشتر گھروں کو مکمل طور پر زمیں بوس کر دیا۔ جو بچ گئے وہ رہنے کے قابل نہیں رہے

کامران نے بتایا ”جب نواں کلی میں خبر پھیلی کہ ولی تنگی ڈیم ٹوٹ رہا ہے تو لوگ گھروں سے بھاگ نکلے. ہم سب پہلے ہی سیلاب سے تباہ حال تھے۔ یہاں چھبیس گھر پانی میں بہہ گئے تھے۔ کوئی مدد کو نہیں آیا تھا۔ کئی لوگ ٹوٹے پھوٹے گھروں کے باہر تمبو لگا کر بیٹھے تھے۔ جب ایک اور سیلاب کی خبر آئی تو کسی کو ہوش نہیں رہا۔ ہر کوئی بیوی بچوں سمیت پل کی دوسرے طرف بھاگا۔ کچھ دیر بعد اعلان ہوا کہ یہ خبر غلط ہے“

انہوں نے بتایا ”یہ خبر پولیس کے کنٹرول روم سے جاری کی گئی تھی. لوگ جب اپنے گھر واپس پہنچے تو پتا چلا کہ چور ان کا بچا کھچا سامان بھی چوری کر گئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم یہ افواہ کیسے اڑی، مگر یہاں سیلاب سے متاثر ہونے والوں کے لیے یہ بھی ایک عذاب تھا“

ایسے ہی واقعات 26 اگست کو بھی پیش آئے، جب یہاں کے لوگ سیلابی ریلے کی زد میں آ گئے تھے۔ کامران کے مطابق کئی گھروں میں ڈاکہ ڈالا گیا۔ کامران انتہائی دکھ کے ساتھ کہتے ہیں ’ہم سیلاب میں پھنسے تھے۔ یہ لوگ کہتے کہ ہم مدد کرنے آئے ہیں۔ جو قیمتی سامان تھا وہ سیلاب لے گیا، جو بچ گیا وہ مدد کے بہانے لٹیرے لے گئے۔‘

انہوں نے بتایا ”ہم اپنی پریشانی میں تھے۔ جب جان کا غم ہو تو مال کا غم نہیں رہتا۔ وہ کہتے کہ ہم مدد کے لیے آئے ہیں۔ وہ سامان اپنی گاڑیوں میں رکھتے تھے اور اس کے بعد روانہ ہو جاتے۔ ہم دیکھتے رہ جاتے کہ یہ ہمارے ساتھ ہیں۔ مگر وہ یہ سامان لے گئے اور بیچ دیا“

تاہم اس حوالے سے فی الحال پولیس کے پاس کوئی رپورٹ موجود نہیں ہے۔ البتہ پولیس نے ڈیم ٹوٹنے کی افواہ سے متعلق انکوائری کا حکم دیا ہے

اطلاعات کے مطابق حکومت بلوچستان نے 27-28 اگست کی درمیانی شب جاری ہونے والی جعلی اطلاع کی انکوائری کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جو یہ تحقیق کرے گی پولیس کے کنٹرول روم سے ایسا پیغام کیوں جاری کیا گیا

دوسری جانب بلوچستان کے بیشتر علاقوں کا زمینی رابطہ اب بھی ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہے۔ یہاں جھل مگسی، نصیر آباد، جعفر آباد، لسبیلہ، ہرنائی سمیت بتیس اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ ان علاقوں تک زمینی رسائی تقریبا ناممکن ہے جبکہ امدادی سامان کی ترسیل اور ریلیف ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایا ”یہ سڑکیں اس طرح ختم ہوئی ہیں جیسے کبھی موجود ہی نہ تھیں“

کامران شہزاد کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے بیمار ہیں اور ان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا۔ ”ہمیں ایک گلاس پانی تک نہیں ملا، نہ ٹینٹ ملا، ڈپٹی کمشنر اپنا نمبر دے کر گئے، ہم اس پر کال کرتے ہیں اور کوئی جواب نہیں ملتا۔ اب اوپر اللہ ہے اور نیچے یہ حکومت ہے“

یہی شکایت ان سے کچھ ہی فاصلے پر گرے ایک اور گھر کے مکین بھی کرتے ہیں

تسلیم اختر نے روتے ہوئے بتایا ”میری تین بہوؤں کا سامان اور زندگی بھر کی جمع پونجی پانی لے گیا ہے۔ میرے شوہر کی پینشن سے ہم نے یہ گھر بنایا کہ بڑھاپے کا سہارا ملے گا۔ مگر ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ میں صبح آئی تو یہاں چوکیدار سے پوچھا کہ میرا گھر کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ وہ اوپر جو سریے نظر آ رہے ہیں وہ آپ کا گھر ہے’، تسلیم نے اپنے گھر کی چھت پر بنے سریوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا

تسلیم اختر نے بتایا کہ وہ صبح سے شام تک یہاں بیٹھتی ہیں کہ شاید کوئی مدد کو آ جائے مگر ابھی تک کوئی نہیں آیا

تسلیم اختر کہتی ہیں ”لوگ آتے ہیں فوٹو بناتے اور پھر چلے جاتے ہیں۔ میں وڈیوز بنا بنا کر تھک گئی ہوں۔ ہم وہ عورتیں ہیں جو کبھی گھر سے نہیں نکلیں اور اب کیمروں کے سامنے منہ دکھا رہے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے۔ مگر کسی نے ایک گلاس پانی تک نہیں پوچھا“

انہوں نے کہا کہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت کس کی ہے، انہیں صرف امداد چاہیئے۔ ‘وزیر اعظم عمران ہے یا شہباز، ہمیں کوئی غرض نہیں، ہمارے مدد کی جائے۔’

یہاں لوگوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں ٹینٹ مہیا کیے جائیں اور حکومت مالی مدد کرے

ادہر سندھ کے علاقے خیر پور ناتھن شاہ سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق ”ہم گاڑی سے جیسے ہی اترے کچھ لوگ نظر آئے جو نیوی والوں کی منت کر رہے تھے کہ پانی میں پھنسی ان کی رشتہ دار خواتین کو نکالنے میں مدد کی جائے“

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں انڈس ہائی وے پر خیرپور ناتھن شاہ سے 6 کلومیٹر دور واقع نائچ گاؤں کسی جیٹی کا منظر پیش کر رہا تھا، جہاں نجی کشتیوں، پاکستان نیوی اور آرمی کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن کی کشتیوں کی مدد سے خیرپور ناتھن شاہ اور آس پاس کے علاقوں سے لوگوں کو ریسکیو کیا جا رہا تھا

اس مقام سے آگے انڈس ہائی وے ایک دریا میں بدل چکی تھی، جس نے خیرپور ناتھن شاہ، گوزو اور دیگر علاقوں کو اپنے اندر سمیٹ لیا تھا

تین روز قبل ضلعی انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کر کے لوگوں کو نقل مکانی کے لیے کہا تھا جس کی وجہ سے رات کو جیسے بھگدڑ سی مچ گئی لیکن کئی خاندان ابھی نکلنے نہیں پائے تھے کہ سپڑیو بند سے پانی کی سطح بلند ہوئی اور لوگ پھنس کر رہ گئے

انور باگڑی نے بتایا کہ وہ صبح سے نیوی والوں کے پاس چکر لگا رہے ہیں۔

’کہتے ہیں کہ ابھی کرتے ہیں، شام کرتے ہیں، وہاں خواتین بھی ہیں پھنسی ہوئی ہیں۔ جب ضلعی انتظامیہ نے اعلان کیا تو کچھ لوگ نکل آئے لیکن ہمارے کچھ لوگ وہاں ہی رہے گئے تھے۔ وہ سامان بھی نہیں نکال سکے تھے۔‘

ایدھی رضاکار اس باگڑی خاندان کو لے کر ان کی نشاندہی کیے گئے مقام پر روانہ ہو گیا۔ اس مقام پر صوبائی حکومت یا ضلعی انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو نکالنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ فشریز محکمے کی دو سفید موٹر بوٹس موجود تھیں، لیکن وہ ریسکیو آپریشن میں شریک نہیں ہوئیں

ایک کشتی سے نظر ببر اور ان کی بیگم عابدہ ببر اترے جنہوں نے بتایا کہ جب پانی کی سطح بلند ہوئی تو وہ اس وجہ سے بھی نہیں نکل رہے تھے کہ گھر کی نگہبانی کون کرے گا

شہر میں موجود پانی میں پھنسے جاوید سومرو نے ٹیلیفون پر بتایا کہ ان کے ساتھ اس وقت نو افراد شہر کے ایک اونچے ہوٹل میں موجود ہیں اور ان کو ریسکیو کرنے کی ضرورت ہے

انھوں نے فضا میں ہیلی کاپٹر اڑتے دیکھا جو نیچے نہیں آیا

شام کے پانچ بجے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے بیٹے سعد ایدھی کشتی پر دس کے قریب لوگوں کو ریسکیو کرنے کے بعد کنارے پر پہنچے

ابھی انہوں نے پانی کے دو گھونٹ ہی پیئے تھے کہ کئی لوگ ان کے پاس پہنچے، جو کسی نہ کسی کی مدد کی درخواست کرنے لگے

ایک شخص نے کہا کہ کچھ خواتین اور بچے کالج سے آگے پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی رہنمائی کے لیے ایک نوجوان بھی کشتی میں سوار ہو گیا

کشتی پانی کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی تو کچھ مقامات پر بجلی کی تار سے چند فٹ نیچے پانی موجود تھا

کشتی کو چلاتے ہوئے سعد ایدھی نے پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بتایا ’لوگ بہت ہیں، وسائل کم ہیں۔‘

شہر میں داخل ہوئے تو کچھ لوگ پیٹرول پمپ کی چھت پر موجود تھے۔ کچھ گھروں پر کھڑے تھے۔ اسکول، ہسپتال، نادرا کی عمارت کا آدھا حصہ پانی میں گم تھا اور بازار تو مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوا تھا

باگڑی خاندان کی خواتین تو نہیں ملیں لیکن کالج کے پاس نصف درجن کے قریب لوگ موجود تھے، جو کشتی میں سوار ہوئے۔ راستے میں دیگر افراد نے بھی سوار ہونے کی درخواست کی۔ مزید دو افراد کو سوار کر لیا گیا۔ اب کشتی میں مزید لوگوں کی جگہ نہیں تھی

اس سوال پر کہ وہ پہلے کیوں نہیں نکلے، کشتی میں سوار ان افراد میں سے ہر کسی کے پاس اپنی کہانی تھی۔ ایک نے کہا کہ اس کے بہنوئی نے کہا کہ کچھ نہیں ہو گا، پانی نہیں آ رہا، اس لیے وہ نہیں نکلے۔ ایک نے کہا کہ مقامی رہنما نے یقین دہانی کرائی کہ خیرپور ناتھن شاہ نہیں ڈوبے گا

محمد خان نے بتایا کہ کچھ لوگ گھر میں چوری کے ڈر سے بھی نہیں نکلے۔ ’چور کشتیوں میں آ کر لوگوں کا سامان لے جاتے ہیں۔‘ شہر میں اس وقت کئی لوگ اپنے گھروں کی چوکیداری کر رہے ہیں

محمد خان نے بتایا کہ نجی کشتیوں والے دس سے پندرہ ہزار روپے لے رہے ہیں

یاد رہے کہ خیرپور ناتھن شاہ 2010ع کے سیلاب میں بھی متاثر ہوا لیکن حالیہ نقصان کی شدت اور وسعت اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ شہر کی بحالی میں ایک بڑا عرصہ درکار ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close