گوات کش پہاڑی سلسلہ ہے۔ گوات کش کنڈ مشہور پاس ہے، یہ بہت تاریخی علاقہ ہے۔ ڈاکٹر مبارک بلوچ کا کہنا ہے کہ ”جب شہنشاہ ایران بلوچوں کے ساتھ لڑائی سے تنگ آگئے تو انہوں نے 1938 میں یہ اعلان کیا کہ بلوچ اپنے ہتھیار حکومت کے پاس جمع کرائیں۔ بہت سے بلوچ سرداروں نے انکار کر دیا تو حکومت نے ان کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایرانی فوج نے فوج کشی شروع کر دی
ڈاکٹر مبارک بلوچ، جس کو بلوچ تاریخ پر دسترس حاصل ہے، انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں ھوت ابرھیم ایرانی فوجیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے چھ ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ ملیر شفیع گوٹھ، پاکستان ہوٹل یو سی تھانو کے ھوت اس جنگ کے بعد ہجرت کر کے وہاں گئے۔ جدگالوں کا سردار اس وقت سردار میر عبدی تھا، اس کے والد سردار دین محمد کو گرفتار کر کے شیراز لئے گئے، جہاں اس کو مار دیا گیا تو میر عبدی نے تمام سرداروں سے کہا اب جنگ کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ سردار میر عبدی پہاڑوں پر چلے گئے ھوتوں نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ھوت ابراھیم اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس چھاپہ مار ٹیم شامل ہوا۔ سردار میر عبدی نیکشہر سے پہلے کاجو کے علاقے میں آئے ،اتنے میں لاشار کے علاقے ریاست شگین کے سردار میر نیاز حان اس علاقے میں آئے۔ اس نے سردار میر عبدی سے کہا کہ بارڈر تک آپ کا علاقہ ہے مجھے بارڈر کراس کراؤ ۔
میر عبدی خان نے یہ زمہ داری ھوت ابراھیم کے حوالے کی وہ ان کو لے کر جارہے تھے تو گوات کش ڈن کے علاقے میں ایرانی فوج نے انہیں روکا۔ ایرانی فوج نے نیاز حان سمیت سب کو گرفتاری پیش کرنے کے لیے کہا۔ اس ھوت ابراھیم نے کہا کہ ایک تو میر نیاز حان میرا باھوٹ/ میار ہے ،میار جلی پر ہم بلوچ جان دیتے اس لیے یہ ہو نہیں سکتا جنگ ہوئی ۔انہوں نے نیاز حان اور اس کے فیملی کو ایک جگہ بٹھا کر فوج کے ساتھ جنگ کا فیصلہ کیا۔ میار جلی کے خاطر ھوت ابراھیم اپنے چھ ساتھیوں سمیت مارے گئے ،ایرانی فوج نیاز حان مبارکی لاشاری کو فیملی سمیت گرفتار کرکے قصر قند میں قید کیا جاتا ہے،اس موقعے پورا قصر قند مردوں اور عورتوں سمیت تھانے حملہ کرکے اس کو اس چھڑا کر مند کے بارڈر کراس کرا کے واپس آتے ہیں
نیکشہر زاھدان روڈ سے ہم پیشن کے جانب مڑے۔ پیشن یہاں سے 25 کلو میٹر ہے، اسی راستے پر نیل دپ، تکسر سے پیشن سے شمال میں باغوں کے بیچ ہم ایک چھوٹے سے گاؤں آئے جو ھمارے ساتھی گل محمد جدگال کے کزن رسول بخش کا گاؤں ہے۔ وہ ہمیں لینے کے لیے تین گاڑیوں کے ساتھ شاھبیک زئی آئے تھے۔ بہت خوبصورت ھرا بھرا گاؤں ھر طرف کھجور کے درخت تھے۔
سب سے پہلے ہم نے ھمارے ساتھی گل محمد کے خوش دامن کی فاتحہ خوانی کی۔رات کا کھانا کر رات دیر تک گپ شپ کی۔ صبح سویرے اٹھے ، اقبال ھاشمی کاٹھوڑ والے نے کہا آپ پیشن ائے ہیں، اس لیے بلوچی ادب کے بڑے نام بر جان بلوچ ( ھوت برکت) سے ملاقات کرنا۔ اپنے فون کیا ہم نے بر جان شام آرہے ہیں۔ جب انہوں نے سنا ہم آئے ہیں وہ آنکھوں سے معذوری کے باوجود اپنے بیٹے کے ساتھ ملنے آئے۔بلوچی اور سندھی ادب تاریخ پر سحر حاصل بحث ہوئی ۔ہم نے شام کو ان کے گھر آنے کا وعدہ کیا وہاں سے ہم ایک اور بلوچوں کے خوبصورت گاؤں دکش آئے۔ یہ بھی گل محمد کے کزن تھے وہاں ہم نے گل محمد کے بہن کی فاتحہ خوانی کی.
دکش بہت خوبصورت علاقہ ہے۔ یہ ہر طرف ہرے بھرے پہاڑوں کے بیچ وادی کی طرح ہے ۔ ان پہاڑوں سے دکش ان علاقوں کو سیراب کرتا پیشن ندی میں گرتا ہے ، پیش ندی اصل میں سرباز ندی ہے۔ پیشن میں داخل ہونے کے بعد اسے پیشن ندی ،باھو کلات میں داخل ہونے بعد باھو کلات ندی کہتے ہیں۔ پیشن میں اس پر ڈیم بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے نیچے والے علاقے ویران ہو گئے ہیں۔ لوگ ڈیم کے خلاف ہیں ۔بڑے ڈیم جہاں بھی ہیں تباہی لاتے ہیں۔
دکش سے ہم گل محمد جدگال کے کزن رسول بخش کی سربراہی میں تین گاڑیوں میں نیکشہر کے روانہ ہوئے ،
رسول بخش اس پورے علاقے چابہار سے نیکشہر تک کے پہاڑوں ،ندیوں،گوٹھوں،قبائل کے ناموں سے وقف تھا میں اور مبارک اسی کے ساتھ تھے ،نیکشہر تک وہ ہمیں اس علاقے کے بارے میں بتاتا جاریا تھا۔
جاری ہے