(نہ مٹنے والی بھوک کی کہانی)
بحریہ ٹاؤن نے اپنے پنجے گاڑنے کے بعد اب کھیرتھر کو نوچنا شروع کر دیا ہے….
ملیر کو ملیا میٹ کرتے ہوئے یہ بھیڑیا اب ضلع جامشورو کی حدود میں کھیرتھر رینج میں واقع وائلڈ لائف کی چھ سو ایکڑ زمین پر قبضہ کر کے "بحریہ گرین سٹی کراچی” بنانے جا رہا ہے. یہ سارا علاقہ کھیرتھر نیشنل پارک میں شامل ہے…. نیشنل پارک کے حوالے سے وضع کردہ عالمی قوانین کی شاہ راہ پر بھی اب ملک ریاض کی پہیوں والی فائلیں چلیں گی… صد حیف کہ عدالتوں اور ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے سر کی جوئیں تو مر ہی گئی تھیں، پر ایمان بھی بک گئے!
سیوھن ڈولپمنٹ اتھارٹی کے پلاننگ اینڈ ڈولپمنٹ کنٹرول کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے دستخط سے جاری ہونے والے لیٹر نمبر AD/P&DC/SDA/199 مورخہ 19 جون 2020 میں ضلع جامشورو کے تعلقہ تھانہ بھولا خان کی دیھ اور تپہ مول میں "بحریہ گرین کراچی” کی منظوری اور پیش رفت کے حوالے سے لکھا ہے.
لیٹر میں لکھا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی نے جامشورو کی دیھ مول میں پانچ سو بتیس ایکڑ پچیس گُھنٹوں کی اراضی پر مبنی "بحریہ گرین کراچی” کے لے آؤٹ پلان کی منظوری کے لیے درخواست دی ہے.
جن سروے نمبروں پر بحریہ گرین کراچی کے لے آؤٹ پلان کی منظوری دی جا رہی ہے،، ان میں 322، 324، 325، 328، 329، 330، 526، 527، 528، 672، 673، 674، 675، 1075، 1089، 1090 سے لے کر 1098 تک سروے نمبر شامل ہیں.
لیٹر میں لکھا ہے کہ اگرچہ ابھی تک بحریہ ٹاؤن نے نہ تو جاری کیے گئے چالان بھرے ہیں اور نہ ہی ان کی طرف سے اس سلسلے میں ضروری اور مطلوبہ کاغذات جمع کروائے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود لے آؤٹ پلان کی "عارضی” منظوری دے دی جاتی ہے.
عارضی منظوری کے نام پر مستقل قبضہ!
بحریہ ٹاؤن کو مطلوبہ کاغذات ایک مہینے کے اندر جمع کرنے کے لئے کہا گیا ہے، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ایک محض تماشہ ہے.
اس لیٹر میں ہاتھی کے صرف دکھاوے کے دانت نظر آ رہے ہیں، لیکن پسِ پردہ صورتحال انتہائی بھیانک ہے.
کیونکہ فطرت، کنکرٹ کا ایک ایسا جنگل بننے جا رہی یے، جہاں نہ مقامی انسانوں کے لئے کوئی جگہ ہوگی اور نہ جنگلی حیات کے لئے!
ملیر کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہی کہانی اب جامشورو میں کھیرتھر کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے… اگر یادداشت کمزور نہیں تو ہمیں یاد ہی ہوگا کہ سپریم کورٹ نے 2011 میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران کراچی کی زمینوں کی الاٹمنٹ پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ پابندی صرف مقامی زمینداروں کے لیے ہی تھی، کیونکہ اسی دوران سندھ اسمبلی نے ایک دلال کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک بل پاس کرکے روینیو کے اختیارات ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو سونپ دئے تھے اور ہزاروں ایکڑ زمین جعل سازی کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کر دی گئی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ اس مقصد کے لیے ڈپٹی کمشنر ملیر کا دفتر با قاعدہ ہیرا منڈی بنا رہا اور ریاستی اداروں کی طاقت کے ذریعے مقامی لوگوں کو ڈرا، دھمکا اور للچا کر زمینیں فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ فیض محمد گبول مرحوم کو کون بھول سکتا ہے، جو اسٹے آرڈر ہاتھ میں تھامے بے بسی سے اپنی ہی زمین پر بحریہ ٹاؤن کے غاصبانہ قبضے اور اس پر اونچی عمارتوں کو تعمیر ہوتے دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا.
ریونیو ایکٹ کے مطابق کنسالیڈیٹڈ زمین کا مکمل اختیار لینڈ یوٹیلائزیشن ایکٹ 1912 کے تحت ریونیو ڈپارٹمنٹ کے پاس تھا اور بلکل محدود تھا. جس کے تحت ایک مالک کی ملکیت میں شامل زمینیں اگر ضلع کے مختلف حصوں میں تقسیم ہیں اور اس وجہ سے وہ اگر ان پر کاشتکاری نہیں کر پا رہا، تو مذکورہ ایکٹ کے ذریعے انہیں دوسری جگہ شفٹ کیا جایا سکتا ہے ۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ ایکٹ صرف زرعی مقاصد کے لیے زرعی اور زیر کاشت زمین کے لیے ہے. لیکن کمال مکاری سے سندھ اسمبلی نے دلالی کی انتہا کرتے ہوئے صرف بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانے کے لیے روینیو کے یہ اختیارات اس وقت ملیر ڈولپمنٹ کو سونپ دیے تھے ، جو کہ اس کا دائرہء کار میں نہیں آتے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے زمینوں کے معاملات میں شدید بدعنوانی کا نوٹس لے کر اس کی چھان بین نیب کے سپرد کر دی تھی۔ تحقیقات کے دوران ضلع ملیر میں بحریہ کو زمینوں کی الاٹمینٹ میں سنگین بے ضابطگیاں پائی گئیں. یہ ثابت ہوا کہ یہ سارا عمل غیر قانونی طریقے سے طے پایا، لیکن اس کے باوجود جو کچھ ہوا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، کیوں کہ ایک دنیا نے دیکھا کہ کس طرح سپریم کورٹ میں سرِ عام انصاف کی بولیاں لگیں، کیسے زورِ زر کے سامنے عدالتیں سر بسجود ہوئیں…
یہی وجہ ہے کہ دیکھنے والے، مستقبل میں جھنگلی حیات اور فطری خوبصورتی کے خوبصورت شاہکار جامشورو کے کھیرتھر پہاڑی سلسلے کو بحریہ ٹاؤن کے ہاتھوں تاراج ہوتا دیکھ رہے ہیں.