31 اکتوبر 1984 کی معمول کی ایک صبح جوگی نیند سے بیدار ہو کر ناشتے کے لیے میز پر ’اوہ، نو بج گئے کتنا لیٹ ہو گیا پاپا جی‘ کہتا ہوا آتا ہے جہاں پورا خاندان ہنسی خوشی باتیں اور ناشتہ کر رہا ہوتا ہے
اچانک گولیاں چلنے اور ٹیلیفون بجنے کی آواز کے ساتھ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ’ووٹر لسٹ چاہیے مجھے، ایک ایک کا نام مارک ہونا چاہیے۔۔ میں آ رہا ہوں ابھی۔‘
اس کے اگلے ہی لمحے گلی میں جلتے ہوئے گھر، گاڑیاں اور درجنوں افراد ہاتھوں میں جلتی ہوئی لکڑیاں لیے دوڑتے نظر آتے ہیں
اس کے بعد ایک بس میں کچھ لوگ جوگی کو مارتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔ ’میری غلطی کیا ہے‘ جوگی کے اس سوال کے جواب میں اسے کہا جاتا ہے ’تُو سردار ہے نا۔۔ یہی تیری غلطی ہے‘
شہر میں دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے، جوگی سنسان گلیوں میں بھاگتا ہوا گھر پہنچتا ہے، گھر میں کوئی نہیں ہوتا!
دہلی پولیس کا ایک اہلکار جو کہ جوگی کا دوست بھی ہے، مشورہ دیتا ہے کہ اپنے خاندان کو یہاں سے لے جاؤ۔ اس وقت تمہارے لیے پنجاب سے زیادہ محفوظ کوئی جگہ نہیں ہے
یہ ذکر ہے ان چند مناظر کا، جو نیٹ فلکس پر نشر کی گئی 1984ع کے سکھ مخالف فسادات پر بنائی گئی فلم ’جوگی‘ میں دکھائے گئے ہیں
ہندوستان میں ہونے والے اکثر قتل عام کو وہاں کا میڈیا ’فسادات‘ یا ’دنگے‘ کے عنوان سے پیش کرتا ہے۔۔ ایسا ہی تاثر 1984 میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے بھی قائم کیا گیا
لیکن ’جوگی‘ نے فلم بینوں کا 1984 کے واقعے کو دیکھنے کا نظریہ بدل دیا ہے
یاد رہے کہ سنہ 1984ع میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے اپنے دو گارڈز نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد ملک میں سکھ مخالف ’دنگے‘ شروع ہوئے اور اس قدر زور پکڑ گئے کہ ہزاروں سکھوں کو قتل کر دیا گیا
’جوگی‘ دیکھنے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ وہ صرف فسادات نہیں بلکہ ’سکھوں کی نسل کشی‘ تھی
جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے مسلمانوں اور ہندوؤں نے بھیانک وقت میں ساتھ دیا یہ اُس اتحاد کی ایک خوب صورت کہانی ہے
ٹوئٹر صارف رانا سلمان فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”جوگی فلم نے میرا نظریہ بدل دیا، اس سے پہلے میں 1984ع کے سکھوں کے فسادات کہا کرتا تھا“
سوشل میڈیا صارف ایشیتا بھرگوا نے کہا ”نیٹ فلکس پر جوگی دیکھی، اس فلم نے میرے ذہن میں کئی سوالات اٹھائے، ہم ہٹلر کے بارے میں بات کرتے ہیں، اس نے جو بھی کیا لیکن ہم 1984ع سکھ فسادات کے بارے میں کوئی بات کیوں نہیں کرتے؟“
فلم ’جوگی‘ میں پولیس آفیسر کو اپنے سکھ دوست کی مدد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جس پر ٹوئٹر صارف جگرا جٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’جگدیش تیلتر، سجن کمار اور للت میکن۔ فلم دکھاتی ہے کہ پولیس آفیسر اپنے سکھ دوستوں کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں سکھوں کے مدد کے لیے بلانے پر بھی پولیس مدد کو نہیں آئی بلکہ بہت جگہوں پر سکھوں کے خلاف تشدد میں پولیس خود ملوث رہی“
سمی جوہال کا کہنا ہے ”ان تمام مسلمانوں اور ہندوؤں کا شکریہ جنہوں نے 1984ع کے خوفناک وقت میں سکھوں کی زندگیاں بچائیں۔ ’جوگی‘ بتاتی ہے کہ سچے دوست اپنی جانیں اور نوکریاں داؤ پر لگا کر دوستوں کی مدد کرتے ہیں“
گُربیر سنگھ نے فلم کے حوالے سے لکھا ’یہ فلم ان لوگوں کی آنکھوں میں آنسو لے آئے گی، جنہوں نے 1984ع کے واقعے کو دیکھا ہے۔‘
ایک فلم بین نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ”علی عباس ظفر اور سکھمانی صدانہ نے ایک انتہائی حساس اور دلچسپ کہانی لکھی ہے کہ کس طرح ایک بہادر سکھ اپنے بھائیوں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ کہانی سامعین کی توجہ حاصل کرتی ہے کیونکہ یہ ایک حساس انسانی ڈرامہ ہے۔ مجموعی طور پر جوگی ایک حساس ڈرامہ ہے“
ایک اور صارف کے مطابق ”پیچیدہ تحریر اور اعلیٰ اثر انگیز پرفارمنس کے ساتھ، ‘جوگی’ تباہی اور المیے کے درمیان امید تلاش کرنے کے مضبوط جذبات کو جنم دیتی ہے۔ انسانیت اور دوستی کی یہ دل دہلا دینے والی کہانی آپ کو جذبات سے بھرے دل کے ساتھ چھوڑ دے گی“
ایک فلم کی رائے کے مطابق ”فلم ’جوگی‘ خونی فسادات کے ایک حصے کو لے کر ہمیں ایک جذباتی کہانی پیش کرتی ہے کہ کس طرح مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے تین دوست درجنوں سکھوں کو دہلی سے فرار ہونے میں مدد کرتے ہیں، اس سے پہلے کہ ہندوستانی آرڈر بحال کیا جائے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ فوجی دستوں کو پہلے کیوں نہیں بلایا گیا اور جو اتنی اموات اور اتنی تباہی کو روک سکتے تھے“
فلم اس مرکزی موضوع پر مبنی ہے کہ کیسے 1980 کی دہائی کے ہندوستان میں کشیدگی کے درمیان، مختلف مذاہب کے تین دوست اپنے قصبے میں سینکڑوں لوگوں کو بچانے کے لیے ایک عظیم لیکن خطرناک کوشش میں متحد ہوئے
مرکزی کاسٹ میں دلجیت دوسانجھ، عمیرہ دستور، کمود مشرا اور محمد ذیشان ایوب شامل ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر علی عباس ظفر ہیں
16 ستمبر کو اسٹریمنگ ویب سائٹ نیٹ فلکس پر ریلیز ہونے والے فلم ’جوگی‘ میں دلجیت دسانجھ نے مرکزی کردار ادا کیا ہے، جبکہ محمد ذیشان ایوب نے جوگی کے پولیس آفیسر دوست کا کردار نبھایا۔