28 اگست کو روایتی حریفوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ کے بعد سے برطانیہ کی کاؤنٹی لیسٹر شائر کے قصبے لیسٹر میں پرتشدد فرقہ وارانہ واقعات میں اضافہ ہوا اور ایک خصوصی پولیس آپریشن شروع کیا گیا۔
برطانیہ کی کاؤنٹی لیسٹر شائر کے قصبے لیسٹر میں دو گروہوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا اور ایک خصوصی پولیس آپریشن شروع کیا گیا۔ اس سب کی وجہ بظاہر ہزاروں میل دور دبئی میں بھارت اور پاکستان کے مابین کھیلا گیا کرکٹ میچ بنا
روایتی حریفوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان گذشتہ ماہ 28 اگست کو ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ کے بعد سے شہر میں شروع ہونے والی ہندو اور مسلم برادریوں میں ’کشیدگی‘ کو پندرہواں دن ہے، جس میں پاکستان کو شکست ہوئی تھی
ہوا کچھ یوں کہ بھارتی کرکٹ کے سینکڑوں شائقین جیت کا جشن منانے کے لیے سینکڑوں افراد بیلگریو کے علاقے میں داخل ہوئے۔ بات یہیں تک ہوتی تو شاید ٹھیک تھا لیکن بھارتی شائقین نے پاکستان مخالف اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی نعرے لگانے شروع کر دیے، جس کے نتیجے میں تشدد ہوا
اس جھگڑے کے نتیجے میں ایک اٹھائیس سالہ شخص کو جائے وقوعہ پر پہنچنے والے ایک ایمرجنسی اہلکار پر حملہ کرنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا
لیسٹر شائر لائیو کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کے بعد آنے والے دنوں میں بیلگریو اور سپنی ہلز کے علاقوں میں اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے
ہفتے کو صورتحال مزید بگڑ گئی، جب مشرقی لیسٹر میں ہندو اور مسلم افراد کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی، جس کے نتیجے میں پولیس کے کم از کم سولہ اہلکار زخمی ہوئے اور پولیس نے گشت میں اضافہ کر دیا
بعد ازاں پولیس فورس کے عارضی چیف کانسٹیبل راب نکسن نے بتایا کہ بدامنی کے اس واقعے کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس آفیسرز جن میں سوار اہلکار بھی شامل تھے، کو دیگر فورسز سے بلایا گیا تھا اور انہیں خاصی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ بدامنی کے اس واقعے میں زخمی پولیس اہلکاروں کی تعداد سولہ سے بڑھ کر پچیس ہو گئی ہے، تاہم کوئی بھی شدید زخمی نہیں ہوا
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے تقریباً دو سو افراد نے گرین لین روڈ پر ماسک پہن کر مارچ کیا اور جئے شری رام کے نعرے لگائے تھے، یہ ایک مذہبی نعرہ ہے جسے انتہا پسندوں کی جانب سے جنگی نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے
مقامی افسران کو گرین لین روڈ پر بھیجا گیا، جہاں مسلمانوں کے کاروبار اور ایک ہندو مندر ہے، جبکہ غیر مجاز احتجاج کو روکنے کے لیے مزید کمک بھیجی گئی تھی
بعد ازاں ہندو برادری کے مارچ کے جواب میں لگ بھگ ایک سو مسلم مردوں کا ایک گروپ اکٹھا ہو گیا
سوشل میڈیا کی وجہ سے صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی جب ایک شخص کی ایک ہندو مندر کے باہر جھنڈا اتارنے کی وڈیوز گردش کرنے لگیں، جبکہ ایک اور وڈیو جس کی صداقت کی تصدیق نہیں ہوسکی، میں ایک جھنڈے کو جلاتے ہوئے دکھایا گیا
ان مشکل حالات میں پولیس فورس نے ایک خصوصی آپریشن کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں سیکشن 60 اور ’اسٹاپ اینڈ سرچ‘ کے اختیارات کے تحت گذشتہ ہفتوں میں منگل تک مجموعی طور پر سینتالیس گرفتاریاں ہوئیں اور مزید افراد کی تلاشی جاری ہے
ان میں سے دو گرفتاریاں ہفتے کے روز تیز دھار آلہ رکھنے اور کشیدگی کی سازش کے شبہ میں ہوئیں
لیسٹرشائر پولیس نے بتایا کہ اتوار سے بدنظمی کے کوئی نئے واقعات نہیں ہوئے، تاہم ہفتے کے آخر میں ہونے والے تشدد کے بعد مشرقی لیسٹر میں ’فعال گشت‘ جاری ہے
چونتیس سالہ کمیونٹی ایکٹیوسٹ ماجد فری مین کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کی گئی وڈیو میں سڑک پر شیشے توڑے جانے کی آواز سنائی دے رہی تھی، جبکہ پولیس ہجوم پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی
ماجد نے دی گارڈین کو بتایا ”وہ بوتلیں اور ہر چیز پھینک رہے تھے۔ وہ ہماری مساجد کے سامنے سے گزر رہے تھے اور کمیونٹی کو طعنہ دے رہے تھے اور بلا تفریق لوگوں کو مار رہے تھے“
پولیس ترجمان نے تشدد اور نقصان کے متعدد واقعات کی طرف اشارہ کیا، جس کی حکام تحقیقات کر رہے ہیں
پولیس کا کہنا تھا ”ہمیں ایک وڈیو کے بارے میں معلوم ہے، جس میں ایک شخص لیسٹر کے میلٹن روڈ پر واقعے ایک مذہبی عمارت کے باہر ایک جھنڈا گرا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس افسران علاقے میں عوامی بدنظمی سے نمٹ رہے تھے“
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی
لیسٹر کے ہندو مندروں کے نمائندے دھرمیش لاکھانی نے دی گارڈین کو اس بات کی تصدیق کی کہ بیلگریو روڈ پر واقع شیوالیہ مندر کے باہر سے ایک جھنڈا اتارا گیا، جبکہ دوسرے کو جلایا گیا ہے
دھرمیش لاکھانی نے کہا ”مجھے یہ کہتے ہوئے بہت فخر ہے کہ اس دن جب پرچم ہٹایا گیا تھا تو باہر ایک امام موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں مندر کے باہر کھڑا ہوں اور اس بات کو یقینی بنا رہا ہوں کہ کچھ نہ ہو“
بعد ازاں اتوار کی رات اٹھارہ دیگر افراد کو پرتشدد بدنظمی، حملے اور ہتھیار رکھنے سمیت دیگر جرائم کے الزام میں گرفتار کیا گیا
پولیس نے پیر کی شام بتایا کہ بیس سالہ اموس نورونہا کو تشدد کے سلسلے میں ہتھیار رکھنے کا جرم قبول کرنے کے بعد دس ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے
شہر میں قائم فیڈریشن آف مسلم آرگنائزیشنز سے تعلق رکھنے والے سلیمان ناگدی نے کہا کہ کچھ بہت ہی غیر مطمئن نوجوان ہیں جو تباہی پھیلا رہے ہیں ۔ ہمیں یہ پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے کہ اس صورتحال کو ختم ہونا چاہیے اور والدین اور گرینڈ پیرنٹس کے ذریعے ان کے بیٹوں سے بات چیت کے ساتھ ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے
ہندو اینڈ جین ٹیمپل آکراس لیسٹر کی نمائندگی کرنے والے سنجیو پٹیل کا کہنا ہے کہ تشدد کسی چیز کا حل نہیں ہے۔ یہ امن، سکون اور انگیجمنٹ کا وقت ہونا چاہیے
بھارتیوں کی جانب سے اشتعال انگیزی کی ابتدا کرنے کے عنصر کو یکسر پس پشت ڈالتے ہوئے برطانیہ میں انڈین ہائی کمیشن نے پیر کو ان لوگوں پر تنقید کی، جن کے بارے میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے لیسٹر میں ’انڈین برادری‘ پر حملہ کیا اور ’ہندو مذہب کی حدود اور علامات‘ کو نقصان پہنچایا تھا
انہوں نے کہا ”ہم نے اس معاملے کو برطانوی حکام کے سامنے اٹھایا ہے اور ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متاثرہ افراد کو تحفظ فراہم کریں“
اس یکطرفہ بیان میں شہر کی مسلم آبادی کے خلاف بھارتیوں کی نفرت آمیز کاروائیوں اور اشتعال انگیزی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا
ادہر برطانیہ میں پاکستان ہائی کمیشن لندن نے لیسٹر میں گزشتہ ویک اینڈ سے جاری کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہائی کمیشن نے حالیہ پیش رفت کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم علاقے کے مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی تشدد اور دھمکی کی منظم مہم کی شدید مذمت کرتے ہیں
ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب لیسٹر میں اس طرح کے اسلاموفوبک واقعات رپورٹ ہوئے ہوں
ہائی کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ برطانیہ ایک متنوع اور روادار ملک ہے، جہاں تمام مذاہب اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہائی کمیشن کو مکمل اعتماد ہے کہ برطانوی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے حکام واقعات کی مکمل چھان بین کریں گے اور تشدد کو فروغ دینے والوں اور مرتکب افراد سے قانون کے مطابق نمٹیں گے۔ ہم تمام کمیونٹیز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ برطانوی قوانین اور رسوم و رواج کی پابندی کریں، اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو مذہبی جذبات کو مجروح کریں اور سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچائیں
جب کہ برطانیہ کی مسلم کونسل نے اس کی مذمت کی ہے، جسے وہ ’لیسٹر میں انتہائی دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلم کمیونٹیز کو نشانہ بنانے‘ کے طور پر بیان کرتا ہے
ایک بیان میں باڈی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران، لیسٹر کی متنوع کمیونٹیز کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ پرتشدد دائیں بازو کی ہندوتوا انتہا پسندی کے مقامی طور پر جڑ پکڑنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہفتہ، 17 ستمبر کو، بالاکلا پوش مردوں کے گروپوں نے ایک مارچ کی قیادت کی، جو کہ ہندوتوا قوم پرست بالادستی کے نعرے لگاتے ہوئے، گرین لین روڈ کے ساتھ ساتھ جو کہ زیادہ تر مسلم اور سکھ آبادی والا علاقہ ہے‘‘
اس نے اس طرح کے اشتعال انگیزی کی مثالوں کو مساجد کے باہر نعرے لگانے، مسلمانوں پر ہجوم کے حملوں اور حالیہ مہینوں کے دوران گھروں اور کاروباروں میں توڑ پھوڑ کے طور پر بیان کیا
بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں برادریوں کے نوجوانوں کے گروپ بعد میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، جس کے نتیجے میں جھگڑے اور لڑائیاں ہوئیں
جبکہ مذہبی رہنماؤں نے یکجہتی کے بیانات شیئر کیے ہیں اور پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے، مقامی طور پر قانون نافذ کرنے والے افسران کی سمجھی جانے والی بے عملی پر تنقید کی جا رہی ہے، جو دیرینہ خدشات کے باوجود بھیڑ کو منتشر کرنے میں ناکام رہے
بیان میں کہا گیا ہے کہ
”مقامی گروپوں کے درمیان کشیدگی اب بھی برقرار ہے، اور مظاہرے جاری ہیں۔ اب انتہا پسندی کے اس زہریلے برانڈ کی تشویش ہے، جو بھارت سے درآمد کیا گیا، دوسرے شہروں میں پھیل رہا ہے‘‘
کونسل کی سیکرٹری جنرل، زارا محمد نے بھی ایک بیان میں کہا کہ “کمیونٹیوں نے مجھ سے ہندوستان میں انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کے پروپیگنڈے اور ان کے ہندوتوا ایجنڈے کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جس کا اظہار اب ہم برطانوی سڑکوں پر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
”ان اشتعال انگیزیوں نے مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا اور اس کے نتیجے میں لیسٹر میں مقامی کمیونٹیز کے درمیان دشمنی کو ہوا دی“
انہوں نے کہا ”ہم نہیں مانتے کہ یہ لوگ وسیع تر ہندو برادریوں کے خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں، جن کے ساتھ مسلمانوں اور سکھوں کے علاوہ، برطانیہ میں اچھے تعلقات ہیں، جس کی تاریخی طور پر لیسٹر ایک بہترین مثال ہے۔ ہم کسی بھی عبادت گاہ یا مذہب کی علامتوں کے خلاف حملوں کی مذمت کرتے ہیں – ہمارے معاشرے میں کسی بھی قسم کی نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہے“
انہوں نے تمام برادریوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور پولیس اور سیاست دانوں سمیت مقامی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ ”مقامی لوگوں کے خدشات کو معروضی طور پر سنیں اور صورتحال کو پھیلانے کے لیے تعمیری انداز میں کام کریں۔ ہم سب کو متحد رہنا چاہیے جیسا کہ ہم کئی سالوں سے ہیں اور اس درآمد شدہ نفرت کو ہمیں تقسیم نہیں ہونے دینا چاہیے۔‘‘
دوسری جانب لیسٹر سٹی کے کمیونٹی لیڈروں نے پولیس کے ساتھ مل کر لوگوں سے امن قائم کرنے کی اپیل کی ہے۔ سٹی میئر سر پیٹر سولسبی نے کہا کہ ہم اکثر لیسٹر سٹی میں اچھے کمیونٹی تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن آپ اس کے بارے میں کبھی بھی تساہل نہیں برتنا چاہیے اور اس حوالے سے آپ کبھی مطمئن نہیں ہو سکتے۔ آپ کو اس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پیشرفت کے لئے ہمیشہ کام جاری رہتا ہے اور یہ بالکل واضح ہے کہ ابھی اس حوالے سے کافی کام ہونا باقی ہے
انہوں نے مزید کہا ”میں نے اس مصیبت کے شروع ہونے کے بعد سے کمیونٹیز کے بہت سے لوگوں سے بات کی ہے، اور وہ اس سے بالکل حیران ہیں۔ یہ کسی ایسی چیز کی نمائندگی نہیں کرتا جو لیسٹر میں ابل رہی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا برصغیر کی سیاست سے زیادہ تعلق ہے“