زندگی بھر ہماری آنکھوں کا رنگ کیسے اور کیوں تبدیل ہوتا ہے؟

ویب ڈیسک

ایک نوزائیدہ بچے کی پہلی تصویر: ایک بہت ہی پیارا، حیرت سے دیکھتا چہرہ، جس کی سرمئی رنگت والی آنکھیں چمک رہی ہیں۔ اس کی آنکھوں کی بناوٹ تو بالکل اس کے والد سے ملتی ہے لیکن رنگ اپنی والدہ کی سبز مائل آنکھوں جیسا ہے

ایک سال بعد کی تصویر: اب وہ اپنے والد جیسی گہری بھوری رنگت کی آنکھوں والا ایک ہنس مکھ بچہ بن چکا ہے۔ اور ابتدائی دنوں میں اس کی آنکھوں میں جو گہرا سرمئی رنگ نظر آتا تھا، اس کا اب کوئی نشان تک باقی نہیں

آخر ایسا کیوں ہے کہ ہماری آنکھیں اپنا رنگ تبدیل کرتی ہیں؟

ہم اپنی آنکھوں کے رنگ کو اپنی مخصوص جسمانی خصلتوں میں سے ایک کے طور پر سوچ سکتے ہیں، ہمارے لیے آنکھوں کا رنگ اتنا ہی ذاتی ہے، جتنا کہ ہماری ناک کی باریکی یا یا یہ کہ ہمارے کان کتنے مڑے ہوئے ہیں

یہ ایک ایسی خاصیت ہے، جو اکثر ہم پر دیرپا تاثر چھوڑ سکتی ہے۔ آنکھوں کا رنگ اس بات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے کہ ہم کسی پر کتنا اعتماد کر سکتے ہیں

لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری آنکھوں کا رنگ زندگی بھر ایک سا نہیں رہتا۔ درحقیقت چوٹ لگنے سے لے کر انفیکشن اور سورج کی روشنی سے پہنچنے والے نقصان تک، بہت سی بیرونی چیزیں اسے تبدیل کر سکتی ہیں۔ اور بعض اوقات یہ تبدیلی بے ساختہ ہوتی ہے

شواہد سے پتا چلتا ہے کہ بچے کی آنکھوں کا رنگ بدلتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار رنگ پر ہوتا ہے

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے بائرس آئی انسٹیٹیوٹ کی ماہرِ امراضِ چشم کیسی لڈوِگ کی سربراہی میں کیلیفورنیا کے لوسائل پیکارڈ چلڈرن ہسپتال میں پیدا ہونے والے ایک سو اڑتالیس بچوں کی آنکھوں کے رنگ پر تحقیق کی گئی، جس میں پیدائش کے وقت ان کی آنکھوں کی پتلیوں کا رنگ ریکارڈ کیا گیا

تقریباً دو تہائی بچے بھوری آنکھوں والے پیدا ہوئے جبکہ بیس فی صد بچوں کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا

دو سال بعد لڈوِگ اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ نیلی آنکھوں والے چالیس بچوں میں سے گیارہ کی آنکھوں کا رنگ دو سال کی عمر تک بھورا جبکہ تین کا سرخی مائل اور دو کا سبز رنگ میں تبدیل ہو گیا تھا

بھوری آنکھوں والے ستتر نوزائیدہ بچوں میں سے تقریباً تمام (تہتر) کی آنکھوں کا رنگ دو سال کی عمر میں بھی بھورا ہی رہا تھا۔ اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ہماری زندگی کے ابتدائی مراحل کے دوران بھوری آنکھوں کے مقابلے میں نیلی آنکھیں بہت زیادہ تبدیل ہوتی ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایک اشارہ یہ ہے کہ جب بچوں کی آنکھوں کا رنگ تبدیل ہوا تو وہ ہلکے نہیں بلکہ گہرے رنگ میں تبدیل ہوئی تھیں

لڈوِگ کی تحقیق میں شامل بچوں میں سے ایک تہائی کی آنکھوں کا رنگ پہلے دو سالوں میں تبدیل ہوا، جس میں سب سے عام تبدیلی ان کی آنکھوں کا مزید گہرے رنگ میں تبدیل ہونا تھا

تحقیق میں شامل ایک سو اڑتالیس بچوں میں سے صرف پانچ (یعنی 3.4 فی صد) کی آنکھوں کا رنگ عمر کے ساتھ ہلکا ہوتا گیا۔ آنکھوں کے ہلکے رنگ کا گہرا ہونے کا رجحان آنکھ کی پتلیوں میں حفاظتی پگمنٹ کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے بارے میں مزید بات بعد میں کریں گے

آنکھوں کے رنگ کی یہ صحت مند اور قدرے عام تبدیلی اکثر بچپن کے ابتدائی دنوں تک ہی محدود ہوتی ہے۔ امریکہ میں ہونے والی ایک اور تحقیق، جو بچپن سے لے کر جوانی تک تیرہ سو سے زیادہ جڑواں بچوں پر کی گئی، اس میں معلوم ہوا کہ آنکھوں کا رنگ عام طور پر چھ سال کی عمر میں تبدیل ہونا بند ہو جاتا ہے، حالانکہ بعض صورتوں میں (دس سے بیس فیصد) یہ جوانی تک بدلتا رہا

ایک جیسی شکل و صورت والے جڑواں بچوں کی نسبت، ایسے جڑواں بچے، جن میں مشابہت کم تھی، بعد کی زندگی میں ان کی آنکھوں کے رنگ کے تبدیل ہونے کا امکان زیادہ تھا

یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں لائنز آئی انسٹیٹیوٹ میں امراض چشم کے پروفیسر ڈیوڈ میکی کے مطابق آنکھوں کا رنگ تبدیل ہونے کا رجحان جینیاتی عنصر کی جانب جھکاؤ ظاہر کرتا ہے

آنکھوں کے رنگ کی تبدیلی کے رجحان کے بارے میں تجسس رکھنے والے میکی کو معلوم ہوا کہ بچپن میں آنکھوں کے رنگ کی تبدیلی پر صرفی یہی دو تحقیقات کی گئی تھیں

انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ والدین اس تبدیلی کے بارے میں جانتے تھے اور ان کے لیے یہ معمولی سی بات تھی کہ ان کے بچوں کی آنکھوں کا رنگ بدل جائے گا

وہ بتاتے ہیں ”میں نے والدین اور ان کے دوستوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ’ہاں یہ نیلی آنکھوں والا پیدا ہوا ہے لیکن اگلے چند برسوں میں اس کی آنکھوں کا رنگ بدل جائے گا‘ اور میں وہاں کھڑا سوچ رہا ہوتا تھا کہ مجھے اس بارے میں کوئی ڈیٹا کیوں نہیں ملا۔ مجھے صرف وہ دو تحقیقی مقالے ملے ہیں اور وہ ناکافی ہیں لیکن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آنکھوں کا رنگ بدل جاتا ہے“

اگرچہ اعداد و شمار محدود ہیں اور یہ تحقیقات صرف ایک ملک امریکہ کی ہیں، لیکن آنکھوں کے رنگ میں تبدیلی شمالی یورپی، بحر الکاہل کے جزیرے والے یا مخلوط نسل کے لوگوں میں سب سے زیادہ عام دکھائی دیتی ہے

آنکھوں کے رنگوں کی یہ تبدیلیاں ان آبادیوں میں بچوں کے بالوں کے رنگ میں آنے والی تبدیلیوں سے مماثلت رکھتی ہیں۔ میکی کا کہنا ہے ”آپ کچھ بچوں کی تصاویر دیکھیں جو سنہرے بالوں والے ہیں، لیکن جب وہ بڑے ہوئے تو ان کے بال کافی گہرے بھورے رنگ کے ہو گئے۔ بالوں کا رنگ وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ تیز ہو سکتا ہے، اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ رنگ بنانے والے سیلز کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور وہ مطلوبہ علاقے میں منتقل ہو رہے ہوتے ہیں“

انہوں نے کہا کہ آنکھوں کے رنگ میں آنے والی تبدیلیوں کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہو سکتی ہے کہ پیدائش کے بعد کے مہینوں یا سالوں میں زیادہ مقدار میں پگمنٹ بنتے ہیں

ان کا کہنا ہے ”آنکھوں کا بنیادی پگمنٹ میلانین ہے اور جس طرح سے میلانین مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، اس سے آپ کی آنکھوں کو مختلف رنگ ملتا ہے۔ آسانی کے لیے ہم ان کی درجہ بندی کرتے ہیں کہ آپ کی آنکھیں نیلی ہیں، کچھ لوگ سرمئی کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں لیکن درحقیقت یہ نیلے رنگ کی ایک گہری قسم ہے، پھر آپ کے پاس سرخی مائل اور سبز رنگ کا امتزاج ہے، اور پھر آپ بھوری رنگ کی پتلیاں پاتے ہیں اور تھوڑا بھورا ہو یا انتہائی بھورا، یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ ان میں میلانین کی مقدار کتنی ہے“

میلانین کی اعلیٰ سطح تیز دھوپ میں فائدہ مند ہو سکتی ہے، جیسا کہ ہم جِلد کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ پگمنٹ سورج کے نقصان سے جِلد کو تحفظ فراہم کرتا ہے

جن پتلیوں میں کم میلانن ہوتے ہیں تو ان میں نیلا رنگ اس طرح سے آتا ہے، جس طرح پتلیوں کے پچھلے حصے میں موجود کولیجن کے ریشے روشنی پھیلاتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح فضا میں روشنی کے بکھرنے کی وجہ سے آسمان نیلا دکھائی دیتا ہے

میکی کا کہنا ہے ”کچھ بچوں کی آنکھیں وقت کے ساتھ زیادہ میلانن چھوڑتی ہیں اور یہ بات اب تک ایک معمہ ہے۔۔ در حقیقت ہم یہ نہیں جانتے کہ ان رنگوں کی تبدیلیوں پر کون سی چیز اثرانداز ہوتی ہے“

لیکن اس میں پس پردہ ماحولیاتی عنصر کا عمل دخل ہوسکتا ہے

انہوں نے کہا ”آپ تقریباً یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ہر چیز میں جینیات اور ماحول کا عمل دخل ہوتا ہے، یہاں تک کہ ان چیزوں میں بھی، جنہیں ہم مکمل طور پر جینیاتی یا مکمل طور پر ماحولیاتی تصور کرتے ہیں۔ لیکن کون سے ماحولیاتی عوامل اس پر اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ ہمارے پاس عام آبادی کے لیے واقعی کوئی ڈیٹا موجود نہیں کہ ہم اس کی نشاندہی کر سکیں“

اگرچہ آنکھوں کے رنگ میں ہونے والی بہت سی تبدیلیاں بے ضرر ہیں، لیکن ان کا تعلق کسی سنگین چیز سے بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ چوٹ، انفیکشن یا سورج سے پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے آنکھوں کے رنگ میں آنے والی تبدیلی

چوٹ کی وجہ سے آنکھ کی سب سے مشہور تبدیلیوں میں سے ایک برطانوی گلوکار ڈیوڈ بووی کی بائیں آنکھ تھی۔ ان کی سیاہ بائیں آنکھ اور ہلکی نیلی دائیں آنکھ کے درمیان نمایاں فرق سر پر لگنے والے ایک مُکے کا نتیجہ تھا کہ ان کی بائیں پُتلی مستقل طور پر پھیل گئی۔ اس حالت کو ’انیسوکوریا‘ کہا جاتا ہے۔ بہرحال اس مُکے نے بووی کی پتلیوں کے گرد کے حلقے کے نیلے رنگ کو نہیں بدلا، یہ بڑا سا ہو گیا، جس کی وجہ سے ان کی بائیں آنکھ گہری نظر آنے لگی

میکی کہتی ہیں ”یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ چوٹ لگنے سے ایرس (یا کالی پتلی کے گرد کا حلقے) کا رنگ تبدیل ہو جائے۔ ایسا ہو سکتا ہے، اگر آپ کی آنکھ کے اندر بہت زیادہ خون آجائے تو اس سے آنکھ کے کچھ حصوں پر داغ پڑ سکتا ہے۔ یا آپ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پھیلے پگمنٹ ایک جگہ جمع ہو جائیں“

عام طور پر انفیکشن اس کی بنیادی وجہ ہے۔ حقیقی ہیٹرو کرومیا کا ایک مشہور معاملہ اداکارہ میلا کیونس کے ہاں نظر آتا ہے۔ اس میں دونوں پتلیوں کے گرد حلقے کا رنگ مختلف ہو جاتا ہے۔ ان کی دائیں آنکھ بھوری اور بائیں سبز ہے۔ کیونس کی ایک پتلی کے گرد حلقے میں انفیکشن کے سبب ان میں ’ہیٹروکرومیا‘ ہوا کیونکہ اس کی وجہ سے ان کی بائیں آنکھ میں موجود کچھ پگمنٹ تباہ ہو گئے

میکی کہتی ہیں ”کچھ متعدی بیماریاں بھی پگمنٹ کو غائب کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایک ’فچز ہیٹروکومک سائکلائٹس‘ ہے جو کہ وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسے اکثر روبیلا یا جرمن خسرہ بھی کہا جاتا ہے“

وہ بتاتی ہیں ”وائرس آنکھ میں رہنا پسند کرتا ہے، جو بعد کی زندگی میں پھیل سکتا ہے اور اس کی وجہ سے آپ پگمنٹیشن کھو سکتے ہیں“

دوسرے قسم کے وائرس بھی آنکھ کے اندرونی حصے میں پروان چڑھ سکتے ہیں جو بعض اوقات پگمنٹ کو متاثر کرتے ہیں۔ ایک انتہائی غیر معمولی معاملے میں یہ دیکھا گیا کہ ایبولا سے بچ جانے والے ایک شخص کی آنکھوں کا رنگ نیلے سے سبز ہو گیا۔ جب جانچ کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ وائرس اس کے جسم میں ہر دوسری جگہ سے صاف ہونے کے بعد اس کی آنکھ کے سیال میں بچ گیا تھا

بعض اوقات آنکھوں کی رنگت میں تبدیلی پوری پتلی کو متاثر نہیں کرتی بلکہ چھوٹے دھبے چھوڑ جاتی ہے۔ ’برش فیلڈ اسپاٹ‘ کے نام سے مشہور ہلکے دھبوں کی ظاہری شکل ڈاؤن سنڈروم والے لوگوں کی پتلیوں میں ظاہر ہو سکتی ہے، جبکہ بھورے رنگ کے دھبے، جنہیں لیش نوڈلز کہا جاتا ہے، وہ ایک قسم کی جینیاتی حالت یعنی نیوروفائبرومیٹوسس ٹائپ-1 کی عام علامت ہے

اور جس طرح جِلد پر دھبے اور تل ظاہر ہوتے، اسی طرح پتلی یا آنکھ میں کہیں اور یہ ظاہر ہو سکتے ہیں

میکی کہتی ہیں ”آپ کی آنکھوں میں دھبے ہوسکتے ہیں جو عام طور پر کچھ نہیں کرتے لیکن کچھ لوگوں میں یہ بڑھ کر ٹیومر بن سکتے ہیں، اور یہ ایک سنگین مسئلہ ہو سکتا ہے“

اگرچہ آنکھوں کے رنگ کی زیادہ تر تبدیلی ان لوگوں کے لیے یقیناً دلچسپی کا باعث ہے جو اسے دیکھتے ہیں، لیکن میکی نے خبردار کیا ہے کہ اس قسم کی کسی کم خوش آئند تبدیلی کے لیے محتاط رہنا ہمیشہ اچھی بات ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close