سیکس چیٹ کرنے والی پُرکشش خاتون، ممکن ہے دراصل نائجیریا میں بیٹھا کوئی مرد ہو

ویب ڈیسک

امریکہ میں موجود پچاس سالہ شخص ایک سفید فام خاتون کے ساتھ آن لائن چیٹ میں مصروف ہے۔ سفید فام خاتون کی آن لائن پروفائل کے مطابق وہ ایک ماڈل ہیں، اُن کا نام ’جنجر ہنی‘ ہے اور وہ کافی دلکش ہیں

خاتون کی پروفائل تصویر میں انھیں بستر پر الٹا یا منھ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

سفید فام شخص کا خیال ہے کہ جس خاتون سے وہ بات کر رہے ہیں وہ کہیں اُن کے آس پاس کے علاقے میں ہی رہتی ہوں گی لیکن انہیں بالکل اندازہ نہیں کہ سفید فام ماڈل کے بہروپ میں اُن سے بات کرنے والا دراصل ایک مرد ہے، جو امریکہ نہیں بلکہ نائجیریا میں بیٹھ کر اُن کا دل لبھا رہا ہے

دنیا بھر سے مرد بالغوں کی ویب سائٹس کو سینکڑوں ڈالر صرف اس لیے ادا کرتے ہیں، تاکہ وہ پُرکشش نظر آنے والی خواتین سے گفتگو کر سکیں، لیکن جھانسے میں آ کر وہ جس پرکشش خاتون سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ خاتون ہو، یہ ضروری نہیں، وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی ماہ تک شواہد اکٹھے کرنے کے بعد یہ پتا چلا کہ فیک (جعلی) پروفائلز کے پیچھے ایک عالمی نیٹ ورک ہے، جو بالغوں کی ڈجیٹل سرگرمیوں کے لیے بنے سخت قوانین کو توڑتا ہے

نائیجیریا میں یونیورسٹی کے طالب علم ایبیودون (فرضی نام) ایک ایسے ہی موڈریٹر ہیں، جو ڈچ کمپنی ’میٹیور انٹریکٹو بی وی‘ کی ڈیٹنگ ویب سائٹ پر جعلی پروفائلز چلاتے ہیں

ایبیودون اس ویب سائٹ پر درجنوں پروفائلز بدل بدل کر استعمال کرتے ہیں، لیکن ہر دفعہ وہ ایک پرکشش سفید فام عورت بنتے ہیں

ایک سائٹ پر وہ ’جنجر ہنی‘ ہیں، ایک ایسی اکیس سالہ ماڈل، جس نے شہوت انگیز انداز میں ایک گلابی رنگ کا لحاف اپنی کمر پر لپیٹ رکھا ہے

بطور ’جنجر ہنی‘ وہ خود کو ہنی (شہد) کے بعد بہترین چیز قرار ’دیتی‘ ہیں اور مردوں سے ’کہتی‘ ہیں انہیں جنجر بلائیں کیونکہ یہی اُن کے بالوں کا رنگ ہے

ایبیودون کے کمپیوٹر میں ایک فولڈر ہے، جس میں ’جنجر ہنی‘ کی متعدد فحش تصاویر ہیں، جو وہ اپنے گاہکوں کو اس وقت بھیجتے ہیں، جب گاہک مزید شہوت انگیز تصاویر کا مطالبہ کرتے ہیں

پروفائل سمیت ساری تصاویر مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی اسٹاک تصاویر ہیں

ایبیودون اکیلے نہیں ہیں، جنہیں ججنر ہنی کی پروفائل تک رسائی حاصل ہے۔ درجنوں دوسرے چیٹ موڈریٹر ہیں، جو چوبیس گھٹنے شفٹس میں اس فیک پروفائل کو استعمال کرتے ہیں

ایبیودون جیسے موڈریٹرز ججنر ہنی کی لوکیشن گاہک کے علاقے کے پچاس کلومیٹر کے اندر دکھانے کے لیے جدید میپ ٹول استعمال کرتے ہیں

یہ ویب سائٹ آنے والوں کے لیے مفت ہے، یعنی اس کی کوئی فیس نہیں لیکن جب ایک بار کوئی اس ویب سائٹ پر آ جاتا ہے، تو اسے کوئی نہ کوئی پیکج منتخب کرنا پڑتا ہے، جو چھ ڈالر سے تین سو ڈالر تک ہیں۔ اور ایک پیکج منتخب کرنے کے بعد وہ اپنی پسند کی ’عورتوں‘ سے چیٹ کر سکتا ہے

ایبیودون کا کہنا ہے ’نوجوان گاہک خواتین سے ذاتی طور پر ملنا چاہتے ہیں جبکہ بڑی عمر کے گاہک صرف سیکس چیٹ اور شہوت انگیز تصاویر سے ہی مطمئن ہو جاتے ہیں‘

ایبیودون اور دیگر موڈریٹرز کا کام ہے کہ وہ اس ویب سائٹ کے صارفین یعنی گاہکوں کی تعداد برقرار رکھیں

موڈریٹرز کو ہدایات دی جاتی ہیں کہ وہ گاہک کو بھیجنے والے اپنے پیغام کو کم سے کم ڈیڑھ سو الفاظ تک محدود رکھیں اور اپنے جملے کا اختتام ایسے کریں کہ بات جاری رہے

ایبیودون بتاتے ہیں ’یہ ایک کسٹمر سروس کی طرح ہے، صرف یہ ہے کہ گاہک سوچتا ہے کہ وہ سی ای او سے بات کر رہا ہے۔‘

’میٹیور انٹریکٹو بی وی‘ سرینیم میں ایک آؤٹ سورس کمپنی لاجیکل ماڈریشن سلوشن (ایل ایم ایس )کو استعمال کرتی ہے، جو اس کے لیے نائیجریا میں عملہ بھرتی کرتی ہے اور ان کی تربیت کرتی ہے

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایل ایم ایس کے واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور اسکائپ اکاؤنٹس پر شواہد دیکھے، جن سے پتا چلا کہ کمپنی نے سینکڑوں افراد کو بھرتی کیا اور تربیت دی، جن میں زیادہ تر افراد کا تعلق نائیجریا کے علاقوں لاگوس گور ابوجا سے ہے

چیٹ ماڈریٹرز کی نوکریاں انسٹا گرام، ٹویٹر اور ٹیلی گرام پر پوسٹ کی جاتی ہیں، جن میں کہا جاتا ہے کہ نائیجریا کے بیروزگار پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے آن لائن ملازمت، ڈجیٹل مارکیٹنگ کی ملازمت دستیاب ہے، تاہم یہ نہیں بتایا جاتا کہ انہیں بالغوں کے لیے مواد سے متعلقہ کام کرنا ہوگا

ایل ایم ایس میں بھرتیاں کرنے والی ایک اعلی اہلکار ایڈیڈالمول یوسف جرمنی میں مقیم ہیں۔ وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ملازمتوں کے اشتہار دیتی ہیں۔ ان کے ساتھ وہ پُرکشش مقامات پر چھٹیوں کی تصاویر بھی پوسٹ کرتی ہیں

ان کی ملازمت نائیجریا اور جرمنی دونوں میں قانونی ہے، وہ اپنے بھرتی ہونے والے ملازمین سے پہلے دن واٹس ایپ پر خود بات کرتی ہیں

وہ دو سال سے موڈریٹرز کی بھرتیاں کر رہی ہیں۔ گذشتہ برس نومبر میں سینکڑوں لوگوں نے یہ نوکریاں حاصل کی ہیں

انگلش زبان کا سخت ٹیسٹ پاس کر نے والے ایک نئے بھرتی شدہ عملے کو تربیت فراہم کرنے والے ایک انسٹرکٹر نے بتایا ’مغرب سے زیادہ تر مرد بات چیت کرنا چاہتے ہیں‘

ایل ایم ایس کے نائیجریا میں ڈائریکٹر نکولس اکانڈے نے قریب سو افراد کو جولائی کے پہلے ہفتے میں بھرتی کیا اور انہیں بتایا کہ یہ ملازمت قانونی ہے

چیٹ موڈریٹرز کو ان کے گاہکوں کے علاقے کی تہذیب، اندازِ تحریر اور وہاں گفتگو کے مقبول موضوعات سے متعلق بھی بتایا جاتا ہے تاکہ وہ حقیقی نظر آئیں

ایک ہفتے تک جاری رہنے والی تربیت کے بعد انہیں ویب سائٹ پر لاگ اِن کی تفصیل دی جاتی ہے، جہاں وہ اپنے صارفین کے گھر کا پتا، فون نمبر اور عمر دیکھ سکتے ہیں

یہاں آن لائن ایسے لوگوں کے کمنٹس بھی دیکھے گئے، جنہوں نے لکھا تھا کہ انہوں نے ان سے چیٹ کرنے والی عورت سے ملنے کے لیے تین سے سات ڈالر خرچ کیے ہیں

اس ویب سائیٹ پر بہت سے ڈالر خرچ کرنے والے ایک شخص کا کہنا تھا ’میں نے کم از بیس عورتوں سے بات کی لیکن ہر بار جب میں ذاتی طور پر ملنے کی بات کرتا وہ خاموش ہو جاتیں‘

ایک اور شخص نے بتایا ’میں نے چار سو ڈالر یہ سوچ کر خرچ کر دیے کہ یہ اصلی عورتیں ہیں‘

ایک اور شخص نے پرکشش عورتوں سے ملنے کی جھوٹی امید میں تین ڈالر خرچ کیے

اُن کا کہنا تھا ’وہ آپ کو یہ کہہ کر باندھ لیتی ہیں کہ وہ آپ کے ہی علاقے میں رہتی ہیں اور آپ سے آج رات ملیں گی۔ آپ پیسے خرچ کرتے ہیں اور جب ملاقات کا مقام طے کرنے لگتے ہیں تو آگے سے بہانے شروع ہو جاتے ہیں‘

میٹیور انٹریکٹو کا کہنا ہے کہ اس کے قواعد و ضوابط میں یہ واضح ہے کہ ان کی کچھ پروفائلز افسانوی ہیں، اور یہ کہ ملاقات ممکن نہیں ہوگی

تاہم یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اس کے موڈریٹرز جعلی لوکیشن کے لیے میپ ٹول کیوں استعمال کرتے ہیں، کیونکہ یہ ملاقات کے لیے گاہک کے دل میں ایک امید پیدا کرتی ہیں

ماہرین کے مطابق ان چیٹ موڈریٹر کی سرگرمیاں انٹر نیٹ فراڈ کے دائرہ کار میں آتی ہیں کیونکہ نائیجریا میں فحش اور بالغ مواد شیئر کرنا ممنوع ہے

لاکھوں نائیجرین نوجوان بیروزگار ہیں اور اس صورتحال میں ایل ایم ایس نامی کمپنی نئے عملے کو ماہانہ ڈیڑھ لاکھ نائرا یعنی تین سو ڈالر سے زائد کی تنخواہ دے کر رام کر رہی ہے۔ یہ تنخواہ نائیجریا میں کئی ملازمتوں میں ملنے والی تنخواہ سے زیادہ ہے۔ اور کام یہ ہوتا ہے کہ انہیں روزانہ مختلف گاہکوں کو پانچ پیغامات بھیجنے ہوتے ہیں

ایبیودون کے خیال میں انٹرنیٹ پر ہونے والے اس دھوکے میں ان کا کردار بہت چھوٹا سا ہے

اُن کا کہنا ہے ’یہ کسی محبت کرنے والے یا اپنے کسی دوست کو دھوکہ دینے سے مختلف نہیں جو دنیا میں لاکھوں لوگ کرتے ہیں‘

اسی دوران اُن کی اسکرین پر ’جنجر ہنی‘ کی چیٹ چمکی۔ اس مرتبہ بھی اُن کا گاہک ایک پچاس سالہ شخص تھا، جو ملاقات کے لیے کہہ رہا تھا

جنجر نے جواب دیا ’سوری میں نے اپنے کتے کو واک پر لے کر جانا ہے‘

یہ ان بہانوں میں سے ایک ہے، جو ان موڈریٹرز کو ایسی درخواستوں کا جواب دینے کے لیے سکھائے گئے ہیں

ایبیودون نے یہ ٹیب بند کی اور ایک دوسری کھولی، جہاں ان کا پروفائل نیم ایریکا تھا۔ ’ایک ایسا موتی جو آپ کے پاگل تصوارات کو مطمئن کر سکتا ہے‘

اور اس مرتبہ لندن میں موجود سیم نامی ٹھرکی اُن کے پیغام کے منتظر تھا۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close