پشاور کے ایک مقامی ریستوران میں آنے والے گاہک اس وقت حیرت زدہ رہ جاتے ہیں، جب انہیں افریقی ویٹر پشتو میں نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ ان سے آرڈر لیتے ہوئے اردو میں بھی گفتگو کرتے ہیں
سیڈرک آسوبگا کا تعلق مغربی افریقی ملک بینین سے ہے اور وہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر پشاور میں بائیو ٹیکنالوجی کے مضمون میں ایم فل کر رہے ہیں
سیڈرک آسوبگا نے پشتو میں بات کرتے ہوئے بتایا ”میں پشتو بول سکتا ہوں۔ اردو بھی ’تھوڑی تھوڑی‘ بول اور سمجھ لیتا ہوں“
ایسا نہیں ہے کہ سیڈرک روانی سے پشتو بول سکتے ہیں، لیکن وہ روزمرہ کے کچھ الفاظ اور جملے بول لیتے ہیں، جیسا کہ پشتو میں مہمانوں کو خوش آمدید کہنا وغیرہ
وہ بتاتے ہیں ”آرڈر کیسے لینا ہے اور یہ کہ جب وہ مجھ سے قیمت پوچھتے ہیں تو میں بتاتا ہوں، جس کے جواب میں ہم سب طے کر لیتے ہیں اور میں آرڈر لے لیتا ہوں“
سیڈرک کا کہنا ہے ”میں نے پارٹ ٹائم ملازمت کے لیے درخواست دی تھی۔ مجھے اس نوکری سے متعلق فیسبک گروپ کے ذریعے علم ہوا“
زندگی میں آگے بڑھنے کا خواب دیکھنے والے سیڈرک کہتے ہیں ”میں مزید ہنر بھی سیکھنا چاہتا تھا، جیسا کہ سٹیکس کیسے بناتے ہیں۔ ریستوران کو کیسے چلاتے ہیں کیونکہ زندگی صرف پڑھنے سے متعلق نہیں“
ان کا کہنا ہے ”اس میں دیگر چیزیں بھی شامل ہیں جیسا کہ کام کی جگہ کا انتظام کیسے چلاتے ہیں وغیرہ۔ اس لیے میں نے ایک اور تجربہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، جو میرے لیے مستقبل میں مفید ہوگا“
واضح رہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر غیر ملکی افراد جو ’اسٹوڈنٹ ویزے‘ پر پاکستان میں موجود ہیں، کے لیے کل یا جز وقتی نوکری کے لیے پابندی کا کوئی ذکر نہیں، تاہم ویب سائٹ پر پاکستان میں ملازمت کے خواہش مند غیر ملکی افراد کا ایک علیحدہ سیکشن ضرور موجود ہے
سیڈرک نے پاکستان اور پشاور میں اپنے قیام کا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا ”پاکستان خصوصاً پشاور کے لوگ ان بہترین لوگوں میں سے ہیں، جن سے میں اب تک ملا ہوں کیونکہ یہ مہربان اور دوستانہ رویہ رکھتے ہیں“
انہوں نے کہا ”میرے ڈپارٹمنٹ سے لے کر ریستوران تک جب بھی میں آتا ہوں تو ایسے نہیں لگتا کہ میں ان کی خدمت کر رہا ہوں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ میری خدمت کر رہے ہیں، حتیٰ کہ مجھے ان سے کہنا پڑتا ہے کہ میں یہاں، آپ کی خدمت کے لیے موجود ہوں“
سیڈرک جلد گریجویشن مکمل کر لیں گے، کیونکہ انہوں نے اپنا ریسرچ ورک مکمل کر لیا ہے۔ اپنے مستقبل کے ارادوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا ”میں پی ایچ ڈی کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ آسٹریلیا، برطانیہ یا پھر کینیڈا، جو میری پہلی ترجیح ہے“