وزیراعظم شہباز شریف کی آڈیو لیک کے بعد حکمراں اتحاد کے رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل مزید مبینہ آڈیو کلپس منظر عام پر آئی ہیں، خدشات ہیں کہ وزیراعظم کے دفتر سے ڈیٹا ’ہیک‘ کیا گیا ہے
وزیر اعظم کی آڈیو لیک میں کیا ہے؟
خیال رہے کہ صرف ایک روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف اور ایک سرکاری افسر کے درمیان ایک مبینہ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تھی
گزشتہ روز سوشل میڈیا پر وزیراعظم شہباز شریف کی ایک آڈیو کال وائرل ہوئی، جس میں وہ کسی شخص کے ساتھ مریم نواز کے داماد راحیل کے لیے بھارت سے ایک پاور پلانٹ منگوانے کی بات کر رہے ہیں
آڈیو کلپ میں عہدیدار کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ‘اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو جب یہ معاملہ ای سی سی اور کابینہ کے پاس جائے گا تو ہمیں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا’
اس پر وزیر اعظم شہباز شریف انہیں کہتے ہیں ”داماد، مریم نواز کو بہت عزیز ہے، انہیں اس کے بارے میں بہت منطقی طور پر بتائیں اور پھر میں ان سے بات کروں گا“
سامنے والا کہتا ہے ”یہ نظر کے لیے برا ہوگا اور سیاسی طور پر بہت زیادہ پریشانی کا سبب بن سکتا ہے“
خیال رہے کہ مریم نواز کی صاحبزادی مہرالنسا نے دسمبر 2015 میں صنعتکار چوہدری منیر کے بیٹے راحیل سے شادی کی تھی، یہ شادی اس لیے قابل ذکر تھی کہ اس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی شرکت کی تھی
آڈیو کلپ میں دوسری آواز پھر مریم نواز کے داماد کی ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور معاملہ سامنے لاتی ہے
ان کا کہنا ہے کہ اتحاد پارک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک گرڈ اسٹیشن لگانا تھا، جس کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ اس سے ’قومی طریقے‘ سے نمٹا جانا چاہیے
حکومتی عہدیدار نے یہ بھی تجویز کیا کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو اس معاملے سے نمٹنے کے لیے مصروف عمل ہونا چاہیے، جو اسے بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں
مبینہ آڈیو کے آخر میں سابق جسٹس مقبول باقر کا ذکر ہے، جن کے نام پر قومی احتساب بیورو (نیب) کے اگلے سربراہ کے لیے غور کیا جارہا تھا
عہدیدار وزیر اعظم کو دو میڈیا پرسنز کی ’تجویز‘ پہنچاتے ہوئے سنے گئے کہ وہ نیب کے سابق سربراہ جاوید اقبال کے ساتھ اپنے تجربے کو دیکھتے ہوئے ایک سابق جج کو چیئرمین نیب بننے کی پیشکش نہ کریں کیوں کہ جاوید اقبال بھی سابق جج تھے، جنہیں مسلم لیگ (ن) نے ہی تعینات کیا تھا
یہ گفتگو آڈیو کا وقت بتانے میں مدد کرتی ہے، کیونکہ نیب کے سربراہ کے تقرر کا معاملہ تقریباً دو ماہ قبل خبروں میں تھا، جس کے بعد سابق انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ آفتاب سلطان کو انسداد بدعنوانی کے ادارے کی قیادت کے لیے منتخب کرلیا گیا تھا
ادھر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور مریم نواز شریف کے معاون ذیشان ملک نے کئی بار کوششوں کے باوجود تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم ریاست سے زیادہ اپنے خاندان کے کاروباری مفادات کو سامنے رکھتے ہیں
تازہ آڈیو کلپس
جو کلپس جو آج منظر عام پر آئیں ہیں، انہیں بھی پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں نے ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے، ان میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں سے متعلق گفتگو کی گئی تھی
پہلے کلپ میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم اور وزیر اعظم کے درمیان مفتاح اسمٰعیل کے بارے میں ہونے والی گفتگو سنی گئی
اس کلپ میں مریم نواز، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے بارے میں کہہ رہی ہیں ”اسے پتا نہیں کہ یہ کر کیا رہا ہے، اس نے بہت مایوس کیا، اس کی شکایتیں ہر جگہ سے آتی رہتی ہیں، وہ ذمہ داری نہیں لیتا، ٹی وی پر الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں“
ساتھ ہی مذکورہ کلپ میں مریم نواز نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو واپس لانے کی بھی خواہش کا اظہار کیا
واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار آئندہ ہفتے وطن واپس آنے والے ہیں
دوسرا کلپ وزیر اعظم، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے درمیان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو سے متعلق ہے
ان آڈیو لیکس کے بعد مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی کیمپ میں خاموشی چھائی ہوئی ہے، جبکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے وزیراعظم آفس کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھائے گئے
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ جس طرح سے وزیر اعظم آفس کے ڈیٹا کو ڈارک ویب پر فروخت کے لیے پیش کیا گیا، اس سے ملک کی سائبر سیکیورٹی کی حالت ظاہر ہوتی ہے
واضح رہے کہ اوپن سورس انٹیلیجنس انسائڈر نامی اکاؤنٹ کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل یہ آڈیوز ایک سو گھنٹوں سے بھی زیادہ طویل دورانیے کے ریکارڈ شدہ اس ڈیٹا کا حصہ ہیں، جس کی ڈارک ویب ہیکنگ فورم پر 345000 ملین ڈالر تک بولی لگائی گئی
اوپن سورس انٹیلیجنس انسائڈر کا دعویٰ ہے کہ یہ فون پر ہونے والی گفتگو نہیں بلکہ پی ایم آفس میں رکارڈ کی گئی گفتگو ہے
انہوں نے کہا ”یہ ہماری انٹیلیجنس ایجنسیوں خصوصاً آئی بی کی بہت بڑی ناکامی ہے، ظاہر ہے سیاسی معاملات کے علاوہ سیکیورٹی اور خارجہ موضوعات پر بھی اہم گفتگو اب سب کی دسترس میں ہے“
خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر تیمور خان جھگڑا نے کہا کہ دفتر وزیر اعظم سے 8 جی بی کا ڈیٹا لیک ہوا ہے، قطع نظر اس کے کہ کون بول رہا ہے یہ ریکارڈنگ کا مکروہ کلچر شرمناک ہے
انہوں نے سوال کیا کہ کیا کوئی جواب دے گا کہ کس قانون کے تحت اور کون سیاسی قیادت کی بات چیت کو ٹیپ کر رہا ہے، چاہے وزیراعظم کے دفتر میں ہو یا فون پر؟ ‘اور اس ڈیٹا کی حفاظت کے لیے کون جوابدہ ہے؟’
انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ ایک مبینہ آڈیو میں اسحٰق ڈار کی واپسی کے لیے میدان سجایا جارہا ہے
انہوں نے کہا کہ لیک ہونے والی آڈیوز یقینی طور پر اس ‘امپورٹڈ’ حکومت کو چلانے میں مجرم نواز شریف اور ان کی ضمانت پر رہا بیٹی کے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتی ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دفتر وزیر اعظم یا وزیر اعظم ہاؤس میں جاسوسی کس نے کی
شیریں مزاری نے مزید کہا کہ ہیکنگ اس لیے ہوئی کیونکہ آلات ان مقامات پر رکھے گئے تھے، تو ذمہ دار کون ہے اور احکامات یا فیصلہ کہاں سے آیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بھی توجہ مرکوز کی جانی چاہیے
بحث اور سوالات
ان آڈیو لیکس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی اہم سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، جن کا مرکزی نکتہ پاکستان میں اہم سرکاری دفاتر اور عہدوں کی سائبر سکیورٹی ہے۔ پی ٹی آئی نے اس معاملے پر باقاعدہ جوڈیشل انکوائری کروانے کا مطالبہ کیا ہے
اہم بات یہ ہے کہ ایک جانب جہاں آڈیو میں ہونے والی گفتگو موضوع بحث ہے وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ یہ گفتگو کس نے ریکارڈ کی؟ کیسے ریکارڈ کی اور یہ آن لائن کیسے پہنچی؟ اسی سے جڑے اہم سوال یہ بھی ہیں کہ اس سارے معاملے میں پاکستان کی سائبر سکیورٹی کس قدر مضبوط یا کمزور ہے؟
آڈیو لیکس کے بارے میں جب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے وفاقی وزیر احسن اقبال سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک انہوں نے یہ آڈیو نہیں سنی، اس لیے وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے
بی بی سی نے آڈیو ان کے ساتھ شیئر کی تاہم احسن اقبال سمیت پاکستان مسلم لیگ کے کسی رہنما کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا
سوشل میڈیا پر اسے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سکیورٹی بریچ قرار دیا جا رہا ہے۔ اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ گفتگو کب، کیسے اور کہاں ریکارڈ کی گئی، بیشتر افراد جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ واقعی سکیورٹی بریچ ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو یہ کتنے بڑے پیمانے کی سکیورٹی بریچ ہے، اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
سابق وزیر اعظم کے فوکل پرسن آن ڈیجٹل میڈیا اور پنجاب میں آئی ٹی کے وزیر ڈاکٹر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ ’اصل سوال تو یہ ہے کہ سو گھنٹوں سے اوپر کی ریکارڈنگ ہوئی کیسے؟ کیا وزیراعظم ہاؤس میں گفتگو سننے والے خفیہ آلے لگائے گئے؟‘
ان کا کہنا ہے ”وزیراعظم ہاؤس میں خارجہ پالیسی سمیت تمام تر حساس موضوعات پر بھی بات چیت ہوتی ہے تو کیا یہ سب ڈیٹا اب ہیکرز کے ہاتھ ہے؟ یہ سیاسی ایشو نہیں، پاکستان پر سائبر حملہ ہے“
پنجاب میں ڈجیٹل اصلاحات متعارف کروانے والے عمر سیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سائبر اسپیس محفوظ نہیں ہے
انہوں نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ ہمارے پاس سائبر اسپیس میں ہونے والی ترقی کے ساتھ ساتھ چلنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم قومی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو سیاسی طور پر سنسنی پھیلانے سے بالاتر ہو کر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطرہ کیا ہے
ایک سینئیر صحافی نے سوال اٹھایا کہ ’اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ گفتگو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے ریکارڈ کی یا پھر وہ اس سے بے خبر تھے؟‘
صحافی عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ’جب وزیراعظم ہاؤس بھی محفوظ نہیں تو باقی کیا کہنا، مجھے جارج اورول کا ناول 1984 اور کردار بگ برادر یاد آ گیا جو ہر چیز پر خفیہ نظر رکھتا ہے۔۔ آج بڑا بھائی کون ہے؟؟؟‘
صحافی مبشر زیدی لکھتے ہیں ’وزیر اعظم اور مریم نواز کو ان آڈیو لیکس پر اپنا رد عمل دینا چاہیے۔ کسی دوسرے ملک میں ایسی لیکس آتیں تو ابھی تک انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان مستعفی ہو چکے ہوتے۔‘
صارف عزیر یونس نے لکھا کہ ’پہلی صورت یہ ہے کہ وہاں موجود کسی شخص کا فون ہیک کیا جا چکا ہو جس میں لوکیشن کی مدد سے فون میں موجود ہاٹ مائیک کو صارف کی مرضی کے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
عزیر یونس کے مطابق ’ایک صورت یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں خفیہ آلات موجود ہوں، جن کے ذریعے اس گفتگو کو ریکارڈ کیا گیا تاہم بعد میں یہ لیک ہوئی یا کر دی گئی۔‘
صحافی سرل المائڈا نے لکھا ’عمران خان سے ایک ملاقات کے دوران میں نے ایک بات پہلی بار نوٹس کی کہ ایک شخص نے اندر آ کر آلے کی مدد سے دو بار کمرے کی تلاشی لی اور تمام ڈجیٹل آلات کو کچھ فاصلے پر رکھا گیا۔‘