بُلبُل کی لاش (افسانہ)

علی ایمانی (بلوچی سے اردو ترجمہ)

بُلبُل عناب کے درخت پر بیٹھ کر اسے گزشتہ دنوں کی یادوں میں لیے جارہا تھا۔ عناب بھی ہوا کے نرم جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جھوم جھوم کر باتیں سنتا اور مسکراتا جارہا تھا۔ اگرچہ بُلبل کے لیے عناب سے ایک پل بھی دور رہنا مشکل تھا، لیکن عناب بھی بُلبل سے بہت پیار کرتا تھا۔ بُلبُل اور عناب محبت بھرے انداز میں اس طرح باتیں کرتے جارہے تھے، جیسے کہ کوئی دو سہیلیاں مدّتوں بعد ملی ہوں۔ بُلبل نے زیمردار (مدہر انداز) میں عناب سے کہا:
"تجھے لمحہ بھر چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ میری ماں نے تمہاری ٹہنیوں پر اپنا گونسلہ بنایا تھا اور میں نے تمہاری ہی آغوش میں آنکھیں کھولیں ۔ تمہاری آغوش میں مجھے شمال (مغرب سے آنی والی ہوا)نے لوریاں دیں۔ تجھے یقیناً وہ دن یاد ہوگا جب میں نیا نیا گونسلے سے نکل آیا تھا ، تو ایک آدمی مجھے پکڑنے کے لیے آگے بڑھا اور تم نے نوک دار کانٹوں سے اس کے ہاتھ لہو لہاں ک ردیے۔ جب وہ زخمی ہاتھوں سے ناکام اور شرمندہ واپس ہوا تو پِدکی نے اپنا دم ہلاکر اس کا مذاق اڑایا تھا…”

"ہاں! مجھے اچھی طرح یاد ہے ” عناب نے اس کے جواب میں کہنا شروع کیا "جب وہ ناکام واپس ہوا تو چڑیا اور شیرمُرگ دونوں نے اس کے پیچھے آوازے کسے اور پدکی نے دم ہلا کر ٹِکّ ٹِکّ کی آواز نکالتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا تھا… مجھے اچھی طرح یاد ہے..”
"تم نے ہمیشہ میری حفاظت کی” بُلبل نے پھر بولنا شروع کیا "تم نے کبھی مجھے انسانی ہاتھوں سے بچایا تو کبھی ہوا کے تیز جھونکوں سے.. تم سب مجھے پیارے ہو۔ مجھے تمہارا ھمسایہ کلیر کا درخت بھی بہت پیارا لگتا ہے۔ وہ ہمیشہ مجھے بلا کر اپنی ٹہنیوں پر جھولا جھلاتا ہے”
بُلبل نے کوہی بود (گوگل کا چھوٹاپودا نما درخت) کی طرف دیکھا اور اپنی بات جاری رکھی ”یہ کوہی بود بھی مجھے بہت عزیز ہے۔ یہاں کے تمام درخت ، پتھر، چٹانیں مجھے سب پیارے ہیں.. سب مجھے عزیز ہیں ۔ مجھے اس زمین کی ساخت سے پیار ہے” بلبل نے ذرا  دم لیا اور پھر بولنا شروع کیا
"مجھے یاد ہے کہ کلیر کے درخت پر چڑیا نے گھونسلہ بنایا تھا ، اس کے بچے مجھ سے کمزور تھے۔ ایک دن میں نے ماں سے پوچھا کہ اس چڑیا کے بچے اس قدر کمزور کیوں ہیں؟ تو میری ماں نے میری چونچ سہلاتے ہوئے کہا تھا کہ چڑیا کے بچے کمزور نہیں ہیں ، یہ اپنے وقت پر تیار ہوں گے اور یہی بچے تمہارے ساتھ کھیلیں گے”
ایک تیز ہوا کے جھونکے نے عناب کے درخت کو ذرا سا جھنجوڑا ، جس پر عناب کا درخت مسکرایا اور کہنے لگا "سچ کہتے ہو۔ یہ گھاس ، یہ بوٹے، یہ چھوٹے اور بڑے پتھر، چڑیوں کی چہچہاہٹ، تیتروں کی آواز ، یہ سب اپنی مثال آپ ہیں ، یہ سب اس سرزمین کی خوبصورتی کے لیے اللہ تعالی نے پیدا کیے ہیں”
عناب کا درخت اپنی بات پوری بھی نہ کر پایا تھا کہ بُلبُل نے موسیقی بھری آواز میں دوبارہ کہنا شروع کیا :
"ھاں! میری ماں ھمیشہ یہ دعا کرتی تھی کہ یہ عناب ، یہ کلیر کے درخت ہمیشہ آباد رہیں ، بُلبل اور فاختے بولتے رہیں ۔ مجھے اپنی ماں کی باتیں اچھی طرح یاد ہیں ، وہ کہا کرتی تھی کہ یہ کوہستان تمہاری جنت ہے۔ تم سب یہیں ہمیشہ آباد رہو اور یہیں تمہاری نسلیں پروان چڑھیں”۔
عناب کا درخت خوشی سے جھوم اٹھا اور وہ بلبل کو اپنی ٹہنیوں پر جھولا جھلانے لگا۔ لیکن اسے محسوس ہوا کہ آج بلبل کچھ اداس ہے ۔ اس نے بلبل کو کبھی اداس نہیں دیکھا تھا۔ ”تم آج اُداس اُداس دکھائی دیتے ہوں؟” عناب کے درخت نے پوچھا۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بُلبل ابھی روپڑے گا ۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنی چونچ کو کچھ کہنے کے لیے تیار کرتے ہوئے کہا ”تین دن سے گوریچ (شمالی ہوا) چلنا شروع ہوئی ہے۔ کئی پرندے جنوب کی طرف ہجرت کرگئے ہیں اور کچھ پرندے آج یا کل ہجرت کرنے والے ہیں ، مجھے بھی مجبوراً اسی طرف جانا ہوگا۔لیکن……..لیکن” بُلبل نے اپنی بات روک دی اور پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد بولا ”لیکن مجھے تمہارے بنا کہیں چین نہیں آتا”
عناب نے بُلبل کی بات کاٹتے ہوئے کہا "تمہاری ماں، تمہاری  دادی سب اس موسم میں چلی جاتیں تھیں، لیکن وہ واپس لوٹتی تھیں۔ تمہیں بھی جانا ہوگا ۔ تم بھی جاکر واپس آجاﺅ۔ یہ تم لوگوں کی ایک روایت ہے ، اپنی روایت پر قائم رہنا”
"ہاں ! میں جاﺅں گا لیکن جلد لوٹ آﺅں گا۔ میرے آنے تک قہر مچاتی سردی بھی ختم ہوچکی ہوگی۔ تجھ پر نئے پتّے آئیں گے اور کونپلیں پھوٹیں گی۔ پھر کبوتر اور کپوت (مٹیالی فاختہ)، شانتل (سرخ فاختہ) یہاں گائیں گے۔ شیرمُرگ ، سیہ گور اور تیتر سب بولیں گے۔ تمہارے گرے ہوئے پھل سے گیدڑ بھی اپنا پیٹ بھریں گے۔ سُست کانگشک (ایک پرندہ) بھی کیڑے مکوڑے سے اپنا پیٹ بھرے گا“ بُلبل کہتا جارہا تھا اور عناب سنتا جارہا تھا۔”پھر آسمان پر بادل چھائیں گے، گھٹائیں اٹھیں گیں، گرج گرجے گا اور بجلی چمکے گی۔ آسمان سے چاندی نما پانی کے قطرے زمین پر پڑیں گے اور زمین جی اٹھے گی۔ کہیر کا درخت نئی شاخیں نکالے گا۔ کلیر کا درخت اپنے پھل کان کے جھمکوں کی مانند سجائیں گے جس کے کھانے کے لیے مینا کی شکل کے گونشان (ویّا) پرندے غول کے غول آئیں گے۔ تمہارے پھولوں پر شہد کی مکھیاں بھنبھنائیں گیں اور تتلیاں اپنے پروں سے تالیاں بجائیں گی۔ پیکلک، چڑیا، کبوتر، کپوت، شانتل سب کے سب نئے گھونسلے بنائیں گے ، میں بھی گھونسلا بناﺅں گا اور میرے بچے تمہاری ٹہنیوں پر جھولا جھولیں گے”

بلبل کی باتیں سن کر عناب اداس ہو گیا اور اس کے دو پتے ٹہنیوں سے زمین پر آکر گرے۔ عناب نے سمٹ کر بُلبُل کو نیک دعائیں دیتے ہوئے کہا "جاﺅ! اللہ تعالی تمہیں اور ہم سب کو انسان کی سفاکیت سے محفوظ رکھے” عناب نے اپنی ٹہنیوں سے بُلبل کو بغل گیر کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی "انسان ظالم ہو چکا ہے ۔ آجکل وہ بڑی تعداد میں یہاں آتے جاتے ہیں ۔ یہاں آکر وہ سفید لکیریں کھینچتے رہتے ہیں ، اللہ تعالی رحم فرمائے اور انسان کی سفاکیت سے محفوظ رکھے“

بُلبل نے اپنے پر پھیلا دیے اور الوداع کرتے ہوئے کہا "تم سب سلامت رہو ، یہ سرزمین سلامت رہے، میں بہت جلد واپس آﺅں گا”۔
بُلبل نے محبت سے اپنی چونچ عناب کے درخت کے ٹہنیوں سے لگائی اور پھر وہ جنوب کی سمت میں لمبے سفر پر روانہ ہو گیا..

(چھ ماہ بعد)
بُلبل کے دل میں ھزاروں ارمان مچل رہے تھے۔ وہ اپنے وطن کے نزدیک پہنچ چکا تھا۔ عناب کی یاد اسے بے قرار کئے جارہی تھی۔ بلبل نے اپنی پرواز مزید تیز کی تاکہ وہ جلد از جلد اپنے علاقے میں پہنچ جائے۔
ذرا دیر بعد بُلبل نے خوشی سے اپنے پر سمیٹنا شروع کئے تاکہ وہ اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھ سکے۔ لیکن اس کے ہوش اڑ گئے، جیسے کسی سانپ نے اسے ڈس لیا ہو
"یہ بلند عمارتیں کہاں سے آئیں ، ممکن ہے میرے ہوش و حواس ٹھکانے نہ ہوں۔ مجھے پیکلُک پرندوں کا غول بھی دکھائی نہیں دے رہا، مجھے تو چڑیاں بھی چہچہاتے ہوئے نظر نہیں آرہی ہیں ۔ فاختائوں کی سریلی آواز بھی غائب ہے ، تیتروں کی صدا بھی سنائی نہیں دے رہی ہے۔ یہاں تو گاڑیوں کا شور اور دھویں کے سوا کچھ بھی نہیں…”

اسے کلیر کے درخت کا خیال آیا۔ اس نے دیکھا کہ کلیر کا درخت جڑ سے اکھڑا ہوا ہے اور اس کی ٹہنیاں مٹی میں بکھری ہوئی ہیں ۔ بلبل اڑتے ہوئے عناب کی درخت کی طرف گیا ، اس نے دیکھا کہ عناب کے درخت کا نام و نشان تک نہیں، وہاں ایک مسجد تعمیر ہے۔ اس کے پروں کی توانائی جواب دے گئی ، وہ مسجد کے مینار پر بیٹھ گیا۔ اس نے چاہا کہ وہ خدا سے التجا کرے لیکن اسے خیال آیا کہ عناب کی جگہ تو خدا کا گھر بنا ہوا ۔اس نے اپنی چونچ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا
"میں اپنی التجا کس کے پاس پہنچاﺅں..“ اتنا کہتے ہی اس کی زندگی نے ساتھ چھوڑ دیا اور وہ مینار سے سیدھا نیچے آگرا۔
ٹُپّ کے آواز سے مسجد کے متولی نے گھوم کر دیکھا تو اس کی نظریں بلبل کی لاش پر پڑیں.. وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھا ، ایک طرف سے جاروب (جھاڑو) اٹھا کراس نے بلبل کی لاش کو اس سے دھکیلتے ہوئے کہا
"کوّوں نے تنگ کر رکھا ہے ، باہر کے پرندوں کی لاشیں لاکر یہاں پھینک دیتے ہیں..”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close