سندھ میں چوڑے پہننے کی دم توڑتی روایت۔۔ وجہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

سندھ ہمیشہ سے قدیم روایات اور ثقافتوں کا امین رہا ہے۔ یہاں آج بھی پرانے وقتوں کی روایات کسی نہ کسی طور پر زندہ ہیں

اس کی ایک مثال موئن جو دڑو کے آثار قدیمہ سے ملنے والے ایک عورت کے مجسمے کے بازوؤں میں پہنے ہوئے منفرد چوڑے ہیں

یہ چوڑے آج بھی صوبے خاص طور پر صحرائے تھر کے کچھ علاقوں میں خواتین پہنے نظر آتی ہیں

ماضی قریب میں تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی کرشنا کولہی جب سینیٹر کا حلف اٹھانے کی تقریب میں شریک ہوئیں تو انہوں نے خاص طور پر تَھری لباس، کلائی اور بازوؤں میں یہی ثقافتی چوڑے پہن رکھے تھے، جنہوں نے نہ صرف میڈیا کی توجہ حاصل کی بلکہ مختلف حلقوں کی جانب سے انہیں سراہا بھی گیا

لیکن بدقسمتی سے تیزی سے بدلتے اس دور میں دیگر روایات کی طرح، چوڑے پہننے کی یہ روایت بھی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے

عمرکوٹ اور تھرپارکر کا شمار سندھ کے قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں چند ایک مسلمان قبیلوں جبکہ زیادہ تر ہندو مذہب کی خواتین اب بھی قدیم زمانے کی ثقافت میں شمار ہونے والی تھری چوڑیاں استعمال کرتی ہیں، جنہیں چوڑا کہا جاتا ہے۔ جو یہ چوڑا بنانے والے کاریگروں کے روزگار کا بھی سبب ہے۔ یہ چوڑے کلائی سے لے کر بازو تک پہنے جاتے ہیں

گذشتہ پچاس سال سے چوڑے بنانے کا کام کرنے والے بھیم راج کھتری بتاتے ہیں ”لوگوں میں جس طرح شعور آیا ہے اور تعلیم عام ہوئی ہے، ان چوڑوں کے استعمال میں کمی ہوئی ہے“

بھیم راج کا کہنا ہے “جب لوہے کے آلات نہیں تھے تو یہ (چوڑے) درخت سے بننے والے مخصوص جز (لات) سے بنائے جاتے تھے۔ اس کے بعد مہاراجوں اور مغلیہ دور میں یہ ہاتھی کے دانتوں سے بننے لگے“

انہوں نے بتایا ”ہاتھی کے دانت جنوبی افریقہ سے لائے جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہاتھی کے دانت آنا بند ہوئے تو یہ پلاسٹک سے بننے لگے“

انہوں نے بتایا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں ان چوڑوں کی طلب مزید بڑھی اور ان کا خام مال جرمنی سے لائے گئے مخصوص پائپ بنے

’ٹی وی آنے کے بعد ان کا فیشن ہوا اور ان میں نئی جدت آئی۔ یہی چوڑے مختلف رنگوں میں بننے لگے اور ان پر چمکیلی پٹیاں لگائی گئیں۔‘

بھیم راج کھتری کے مطابق نئے دور میں تعلیم عام ہوئی تو یہ پرانی روایت بھی دم توڑنے لگی

چوڑے خریدنے والے لاکھو بھیل کا کہنا ہے ”یہ مخصوص چوڑے ان کی برادری کی ثقافتی پہچان ہیں. یہ شادی وغیرہ کی تقاریب میں استعمال ہوتے ہیں۔ جب دولہا دولہن کو لینے آتا ہے تو چوڑے بھی ساتھ لاتا ہے، جسے دلہن ساری عمر پہنے رکھتی ہے“

انہوں نے مزید بتایا ”خاوند کے گُزر جانے کے بعد عورت کے چوڑے اتار دیے جاتے ہیں۔ یہ چوڑے علاقے کی ہندو اور مسلم برادری دونوں کے زیر استعمال تھے، لیکن اب یہ صرف عمرکوٹ، کھپرو، سانگھڑ اور سلام کوٹ مٹھی میں بھیل، کولہی، اوڈ اور لوہار برادری تک محدود ہو چکے ہیں“

واضح رہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ’موئن جو دڑو‘ سے ملنے والے مجسمے کے بازوؤں پر بھی ایسے ہی چوڑے نظر آتے ہیں، جو کسی زمانے میں عاج یا جانوروں کی ہڈیوں سے بنائے جاتے تھے لیکن اب یہ فائبر گلاس اور دیگر دھاتوں سے بنتے ہیں

عمر کوٹ تھر کے رسم و رواج کے مطابق جو شادی شدہ خاتون ہوتی ہے وہ اپنے دونوں ہاتھوں اور بازوؤں پر یہ تھری چوڑے پہنتی ہے، اور کنواری غیر شادی شدہ لڑکی صرف اپنے ہاتھوں کے اوپر کلائیوں پر یہ چوڑے پہنتی ہے

مسلمانوں میں بیوہ اور ہندو مذہب میں ودواہ خاتون کے ہاتھ خالی رہتے ہیں، وہ یہ چوڑا (چوڑیاں) نہیں پہنتیں۔ تھر چوڑے عید تہوار اور مختلف خوشی یا شادی بیاہ کے موقع پر خصوصی طور پر پہننے جاتے ہیں

تھر میں چوڑے کی تاریخ بہت قدیم ہے، مغلیہ عہد کے حکمرانوں اور راجہ مہاراجہ کے ادوار میں یہ چوڑے ابتداء میں ہاتھی کے دانتوں سے تیار کیے جاتے تھے بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ اس کام میں بھی تبدیلی آتی گئی

اب یہ تھری چوڑے پلاسٹک سے تیار کیے جاتے ہیں۔ پہلے یہ صرف سفید رنگ میں ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ سفید کے علاوہ لال، ہرے، پیلے، سرخ اور بینگنی رنگوں میں بھی بنایا جاتا ہے اور اس کے بعد مختلف ڈیزائن کے خوبصورت چوڑے تیار کیے جاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close