مسولینی کے بعد پہلی بار اٹلی میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت کا امکان، مہاجرین کے لیے خطرہ؟

ویب ڈیسک

اٹلی میں عام انتخابات میں برتری حاصل کرنے کے بعد انتہائی دائیں بازو کی رہنما جورجیا میلونی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کے قریب ہیں، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اٹلی میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی رہنمائی کریں گی

عالمی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتوار کے عام انتخابات میں تقریباً دو تہائی پولنگ اسٹیشنوں سے ووٹوں کی گنتی کی بنیاد پر لگائے گئے اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ میلونی کی پارٹی ’برادرز آف اٹلی‘ 25.7 فیصد ووٹ کی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی

جبکہ ان کے حریف سابق وزیر اعظم اینریکو لیٹا کی مرکزی بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی کو 19.3 فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جورجیا میلونی کی کامیابی اٹلی میں ’ڈرامائی تبدیلی‘ کی عکاسی کرتی ہے، جو یورپی یونین کے بانی ممالک میں سے ہے اور یورو زون کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے

اگرچہ نئی حکومت کی تشکیل کے عمل میں ہفتوں لگ سکتے ہیں لیکن توقع ہے کہ ’خدا، ملک اور خاندان‘ کے نعرے پر مہم چلانے والی جورجیا میلونی اٹلی کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن جائیں گی

بڑھتی ہوئی افراط زر، توانائی کے بحران اور یوکرین میں جنگ کے وقت، پینتالیس سالہ جورجیا میلونی نے اپنے تجربے کی کمی اور بنیاد پرست ماضی کے بارے میں فکر مند لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے

تخمینوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میلونی کی قیادت والا دائیں بازو کا اتحاد پارلیمان کے ایوان زیریں کی 400 نشستوں میں سے 227 سے 257 تک جبکہ سینیٹ کی 200 نشستوں میں سے 111 سے 131 کے درمیان سیٹیں حاصل کر سکتا ہے

ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت میں سینٹر لیفٹ اتحاد کو ایوان زیریں میں 88 اور سینیٹ میں 42 نشستیں حاصل کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے

جورجیا میلونی نے فتح کے بعد پیر کی صبح اپنے خطاب میں کہا کہ اطالوی عوام نے ان کے اتحاد کی حمایت میں واضح پیغام دے دیا ہے

ان کا کہنا تھا ”اگر ہم اس قوم پر حکومت کرنے کے لیے آئے تو ہم یہ تمام اطالویوں کے لیے کریں گے۔ ہم یہ کام لوگوں کو متحد کرنے کے مقصد سے کریں گے، ان میں تقسیم کی بجائے اتحاد کو بڑھانے کے مقصد سے۔۔“

ان کا یہ بیان مرکزی بائیں بازو کے خیالات پر مبنی ‘ڈیموکریٹک پارٹی’ کے شکست تسلیم کرنے کے فوراً بعد آیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک سینیئر قانون ساز ڈیبورا سیراشیانی کا کہنا تھا ”ملک کے لیے یہ ایک افسوسناک شام ہے۔ (دائیں بازو) کو پارلیمنٹ میں تو اکثریت حاصل ہے، لیکن ملک میں نہیں ہے“

واضح رہے کہ ان کے اتحادی میٹیو سالوینی کی انتہائی دائیں بازو کی لیگ اور سابق وزیر اعظم سلویو برلسکونی کی فورزا اطالیہ انتخابات میں ان سے پیچھے رہ گئی ہیں۔ جبکہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ یہ مجموعی طور پر تقریباً 43 فیصد ووٹ لیں گی، جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے

اگرچہ مکمل نتائج پیر کو متوقع ہیں، لیکن اس اتحاد کی اہم حریف بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ’افسوسناک‘ دن ہے

جورجیا میلونی ماضی میں یورو زون کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں، مگر اب وہ نہیں چاہتیں کہ اٹلی یورو زون سے نکل جائے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ روم کو اپنے مفادات پر زیادہ زور دینا چاہیے اور اس کے پاس ایسی پالیسیاں ہوں، جو عوامی اخراجات کے قوانین سے لے کر بڑے پیمانے پر نقل مکانی تک ہر چیز پر برسلز کو چیلنج کریں

جولائی میں قومی اتحاد کی حکومت کے خاتمے کے بعد وزیر اعظم ماریو ڈریگی کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیے جانے کے بعد سے ہی جورجیا میلونی پولز میں سب سے آگے تھیں

اطالوی سیاست انتہائی غیر مستحکم ہے، 1946 کے بعد سے تقریباً 70 حکومتیں آئی ہیں، اور میلونی، سالوینی اور برلسکونی ہمیشہ متفق نہیں رہے

برادرز آف اٹلی کی جڑیں پوسٹ فاشسٹ تحریک میں ہیں، جس کی بنیاد بینیتو مسولینی کے حامیوں نے رکھی تھی، اور جورجیا میلونی خود اپنی جوانی میں آمر کی تعریف کر چکی ہیں۔ تاہم اس کے بعد سے انہوں نے اس ماضی سے خود کو دور کرنے کی کوششیں کی ہیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018ع کے عام انتخابات میں انہیں محض چار فیصد ووٹ ہی مل سکے تھے، لیکن اس کے بعد سے انہوں نے خود کو ایک سیاسی طاقت میں ڈھالا ہے اور اتوار کے نتائج اس کا ثبوت ہیں

ان کے اتحاد نے کم ٹیکسوں، ماس امیگریشن کے خاتمے اور کیتھولک خاندانی اقدار کی بنیاد پر مہم چلائی، جس کے بارے میں ناقدین کو خدشہ ہے کہ اسقاطِ حمل جیسے مشکل سے حاصل کردہ حقوق واپس لیے جا سکتے ہیں

یہ اتحاد وبائی امراض کے بعد یورپی یونین کے بحالی کے فنڈ پر بھی دوبارہ بات چیت کرنا چاہتا ہے، کیونکہ وہ اٹلی کو ملنے والے دو سو ارب یورو میں موجودہ توانائی بحران کو مدنظر رکھوانا چاہتا ہے

لیکن فنڈز کی فراہمی اصلاحات کے ایک سلسلے سے مشروط ہے، جو اٹلی کے وزیر اعظم ماریو ڈریگی نے شروع کیا ہے، اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جورجیا میلونی کے پاس سازباز کی گنجائش بہت کم ہے

یورپی یونین پر اپنی تنقید کے باوجود، جورجیا میلونی نے یوکرین پر روس کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کی سختی سے حمایت کی ہے

جورجیا میلونی، ایک ذاتی برانڈ!

اے ایف پی کے مطابق یورپی یونین، بڑے پیمانے پر امیگریشن اور ’ایل جی بی ٹی لابیوں‘ کی مخالف اور اکثر شدید لڑاکا ظاہر ہونے والی، پینتالیس سالہ جورجیا میلونی نے ناخوش ووٹروں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے اپنا ایک طاقتور ’ذاتی برانڈ‘ بنایا ہے

انہوں نے روم میں 2019ع کی ایک ریلی میں اعلان کیا تھا ”میں جورجیا ہوں، میں ایک عورت ہوں، میں ایک ماں ہوں، میں اطالوی ہوں، میں مسیحی ہوں“

ان کے یہ الفاظ اور بھی زیادہ مشہور تب ہوئے، جب ایک گانے میں ان کا ریمکس کیا گیا، جو وائرل ہو گیا

15 جنوری 1977 کو روم میں پیدا ہونے والی جورجیا میلونی کے والد کے چلے جانے کے بعد ان کی پرورش والدہ نے گرباٹیلا کے محنت کش طبقے کے علاقے میں کی

وہ طویل عرصے سے سیاست سے وابستہ ہیں۔ 2012ع میں 31 سال کی عمر میں جنگ کے بعد اطالوی تاریخ میں سب سے کم عمر وزیر اور برادرز آف اٹلی کی شریک بانی بنیں

میلونی اطالوی سوشل موومنٹ (ایم ایس آئی) کے یوتھ ونگ کے ساتھ ایک نوعمر کارکن تھیں، جس کو دوسری عالمی جنگ کے بعد فاشسٹ آمر بینیتو مسولینی کے حامیوں نے تشکیل دیا تھا

انیس سال کی عمر میں انتہائی دائیں بازو کے نیشنل الائنس کے لیے مہم چلاتے ہوئے انہوں نے فرانسیسی ٹیلی ویژن کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا تھا ”مسولینی ایک اچھے سیاستدان تھے، انہوں نے جو کچھ بھی کیا، اٹلی کے لیے کیا“

2006ع میں نیشنل الائنس کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اپنا لہجہ تبدیل کرتے ہوئے کہا ”آمر نے ’غلطیاں‘ کیں، خاص طور پر نسلی قوانین، اپنی مطلق العنانیت اور ایڈولف ہٹلر کے نازی جرمنی کی طرف سے دوسری عالمی جنگ میں شریک ہوکر۔۔“

ان کی پارٹی کا نام اٹلی کے قومی ترانے کی پہلی سطر سے لیا گیا ہے اور لوگو بھی ملک کے پرچم کے سبز ، سفید اور سرخ رنگ سے بنا ہوا وہی شعلہ ہے، جو ایم ایس آئی استعمال کرتی ہے

وہ لوگو تبدیل کرنے کا مطالبے مسترد کر چکی ہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ”اس شعلے کا ’فاشزم سے کوئی تعلق نہیں ہے“

انہوں نے گذشتہ ماہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو بھیجے گئے ایک سہ زبانی ویڈیو پیغام میں کہا ”اطالوی دائیں بازو نے کئی دہائیوں سے فسطائیت کو تاریخ کے حوالے کر دیا ہے“

واضح رہے کہ اٹلی میں ان انتخابات کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم ماریو ڈریگی کے کمزور اتحاد کے ٹوٹنے کے وجہ سے ان کی حکومت گر گئی تھی۔ جولائی میں فائیو اسٹار موومنٹ نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی تھی اور ڈریگی نے اپنا استعفیٰ دے دیا تھا

اٹلی ميں مہاجرين کی مشکلات ميں اضافے کا امکان

انتہائی دائيں بازو کی جماعت ‘برادرز آف اٹلی‘، ‘دا ليگ‘ اور ‘فورسا اٹاليا‘ پر مشتمل قدامت پسند اتحاد نے کہہ رکھا تھا کہ اليکشن جيتنے کی صورت ميں وسيع پيمانے پر اميگريشن کو روکا جائے گا۔ دائيں بازو کی مہاجرين مخالف قوتوں کے حکومت ميں آنے کے بعد ايسی پاليسياں متعارف کرائی جا سکتی ہيں، جن سے مہاجرين کو دريش مسائل بڑھيں گے

اٹلی کے قومی دفتر شماریات کی سن 2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک ميں تقریباً 5.2 ملین غیر ملکی شہری آباد ہیں، جو اٹلی کی 59 ملین کی آبادی کا لگ بھگ نو فیصد بنتے ہيں۔ يہ اعداد و شمار صرف رجسٹرڈ غير ملکيوں کے ہيں۔ مائیگريشن اسٹڈی فاؤنڈيشن (آئی ايس ايم يو) کے چار برس قبل کے اندازوں کے مطابق تب لگ بھگ پانچ لاکھ ايسے غیر ملکی بھی اٹلی ميں رہائش پذير تھے، جن کا کہيں اندارج نہيں ہوا تھا

دائیں بازو کی جماعت ‘برادرز آف اٹلی‘ کی سربراہ جارجیا میلونی ممکنہ طور پر اٹلی کی نئی وزير اعظم اميگريشن کے معاملے میں کافی سخت موقف رکھتی ہيں اور يہ کہہ چکی ہيں کہ وہ چاہتی ہیں کہ اطالوی بحريہ مہاجرين کی کشتيوں کو ملکی ساحلوں تک پہنچنے سے قبل بحيرہ روم ہی سے واپس کر دے۔ قوی امکانات ہيں کہ مہاجرين سے متعلق امور پر ميلونی اور يورپی يونين کے مابين سخت کلامی بھی ہو اور اختلافات مزید بڑھيں

میلونی کی جانب سے ملکی بحريہ کی مدد سے غیر ملکیوں کو افریقہ کی طرف واپس بھيجنے کی مجوزہ حکمت عملی کے سبب اٹلی کی تارکین وطن کو ریسکیو کرنے والے بحری امدادی جہازوں سے متعلق پاليسی مزيد سخت ہو جائے گی۔ اس سے سمندر میں انسانی ہلاکتوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے

مہاجرين کو معلومات فراہم کرنے والی ويب سائٹ ‘انفو مائیگرنٹس‘ سے بات کرتے ہوئے جرمن امدادی تنظيم ‘سی آئی‘ کے ایگزیکٹیو بورڈ کے رکن گورڈن اسلر نے خبردار کیا کہ اٹلی ميں دائيں بازو کا اتحاد سابقہ کونٹے حکومت کی پالیسیوں اور نظریات کی پیروی کرے گا بلکہ يہ بھی ممکن ہے کہ اور زيادہ انتہائی نوعیت کی پاليسياں اپنائے۔ یاد رہے کہ اٹلی ميں سابق وزير اعظم يوزيپے کونٹے کی حکومت جون سن 2018 سے ستمبر 2019ء تک اقتدار میں رہی تھی، جس دوران بہت سخت مہاجرين مخالف پاليسیاں اپنائی گئی تھيں

گورڈن اسلر کے مطابق اس طرح کی حکومت تحفظ کے خواہاں لوگوں کی پسپائی اور انہيں روکے جانے کے عمل کو ناقابل تصور حد تک بڑھا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دائیں بازو کی حکومت ووٹروں سے اپنا وعدہ پورا کرنے کی غرض سے پناہ گزينوں کی اٹلی آمد روکنے کے لیے سب کچھ کرے گی

يہاں يہ امر بھی اہم ہے کہ اٹلی تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی انسانوں کو یورپی یونین کی سرحدوں تک پہنچنے سے روکنے والا واحد ملک نہيں ہوگا، تاہم جغرافیائی لحاظ سے اٹلی کے ايسے حکومتی اقدامات کے انسانی حوالے سے کافی منفی نتائج سامنے آ سکتے ہيں

دوسری جانب اٹلی میں مہاجرين کے خلاف تشدد ميں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رواں ماہ کے دوران اٹلی میں تارکین وطن کے خلاف کئی پر تشدد حملے ہوئے۔ جولائی کے اواخر ميں 39 سالہ نائجیرین مہاجر ایلیکا اوگورچکو کو سیویتانووا مارچے کے مرکز میں مار پیٹ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سینکڑوں شہریوں نے مارچ کیا اور مہاجرين کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا

تارکین وطن کے خلاف تشدد اس يورپی رياست میں حالیہ برسوں میں ایک بڑھتے ہوئے رجحان کا حصہ ہے۔ دیہی علاقوں میں عوامی عدم اطمینان نوجوانوں کے لیے روزگار اور معاشی مواقع تلاش کرنے کے لیے بڑے شہروں یا دیگر یورپی ممالک میں جانے کا سبب بن رہا ہے۔ يہ صورتحال بھی مقامی باشندوں ميں مہاجرين کے خلاف منفی جذبات کی وجہ بن رہی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے ديہی علاقوں ميں سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے ليے اسی موضوع کو استعمال کيا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close