جیسے جیسے قطر میں نومبر کا ورلڈ کپ قریب آرہا ہے، ان تارکین وطن مزدوروں کے ساتھ سلوک کی طرف زیادہ توجہ مبذول کرنے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، جنہوں نے ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے والے اسٹیڈیم اور انفراسٹرکچر کی تعمیر جاری رکھی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انسانی حقوق کی وکالت کرنے والی تنظیموں نے گزشتہ ہفتے ورلڈ کپ کے اسپانسرز پر زور دیا کہ وہ فیفا، فٹبال کی عالمی گورننگ باڈی اور قطری حکومت پر زور دیں کہ وہ ان کارکنوں کو معاوضہ ادا کریں، جن میں سے ہزاروں کو ’جبری مشقت ‘ جیسے حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا ہے
قطر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر احتجاج کے لیے ڈنمارک نے اس معاملے پر اپنا الگ موقف اختیار کیا ہے
ڈنمارک کی اسپورٹس ویئر کمپنی ہمل نے فٹبال ورلڈ کپ میں ڈنمارک کی ٹیم کے لیے ایک سیاہ جرسی بھی تیار کی ہے۔ جبکہ قطر نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کیا ہے
تفصیلات کے مطابق کھیلوں کے لیے خصوصی ملبوسات تیار کرنے والی ڈنمارک کی معروف کمپنی ھامل نے گزشتہ روز کہا کہ ڈنمارک کی قومی فٹبال ٹیم قطر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف بطور احتجاج، رواں برس کے ورلڈ کپ کے دوران، ’ٹونڈ ڈاؤن‘ یعنی پھیکے رنگ کی جرسی بھی پہنے گی
ھامل نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر دو تصاویر پوسٹ کی ہیں۔ ان میں سب سے پہلے ڈنمارک کے روایتی سرخ رنگ کی سادہ جرسی شامل ہے، جس میں کمپنی اور ڈینش فیڈریشن کا لوگو بھی بمشکل ہی نظر آتا ہے۔ اس پروڈکٹ بنانے والی کمپنی کا اپنا مخصوص نشان بھی کم ہی دکھائی دے رہا ہے
کمپنی نے کہا ”ہم نے ڈنمارک کی نئی ورلڈ کپ جرسیوں کے لیے تمام تفصیلات کو کم کر دیا ہے، بشمول ہمارے لوگو اور مشہور شیوران، ہم ایسے ٹورنامنٹ کے دوران نظر نہیں آنا چاہتے جس نے ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع کی ہوں“
ساتھ ہی کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے ڈنمارک کی ٹیم کے لیے سیاہ رنگ کی ایک تیسری جرسی بھی متعارف کی ہے، جسے ’سوگ کا رنگ‘ کہا جاتا ہے
ھامل نے اس حوالے سے انسٹا گرام پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا ”سیاہ ماتمی رنگ، رواں برس کے ورلڈ کپ کے لیے ڈنمارک کی تیسری شرٹ کا بہترین رنگ ہے۔ ہم ڈنمارک کی قومی ٹیم کو ہر طرح سے سپورٹ کرتے ہیں، تاہم اس کا مطلب اس ٹورنامنٹ کی حمایت بھی نہیں ہے، جس کے لیے ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی ہوں“
اس کا مزید کہنا تھا ”ہم قطر کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور ان مہاجر کارکنان کے ساتھ اس کے سلوک کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، جنہوں نے ملک میں ورلڈ کپ کے لیے اسٹیڈیم تعمیر کیے ہیں“
ہمل کے مطابق ڈنمارک کے نئے یونیفارم کا مقصد بیداری بڑھانے کے علاوہ خراج عقیدت پیش کرنا ہے
ہمل نے کہا کہ وہ ڈنمارک کی 1992 کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے، جس نے ملک کی پہلی بین الاقوامی ٹرافی حاصل کرنے کے لیے یورپی چیمپئن شپ جیتی۔ لیکن ڈیزائن، جس میں تمام سفید اور سرخ رنگ کے جوڑ شامل ہیں، قطر اور اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے خلاف احتجاج کے طور پر بھی کام کرتے ہیں
◼️قطر کا سخت رد عمل
خلیجی ریاست قطر نے ہزاروں مہاجر مزدوروں کی ہلاکت کے دعوے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مہاجر کارکنان کے حوالے سے قطر کا جو عزم رہا ہے، کمپنی اسے چھوٹا کرنے کی کوشش کر رہی ہے
قطر ورلڈ کپ کی انتظامیہ سپریم کمیٹی فار ڈلیوری اینڈ لیگیسی (ایس سی ڈی ایل) نے اپنے بیان میں کہا ”ہم ھامل کے اس دعوے سے شدید اختلاف کرتے ہیں کہ اس ٹورنامنٹ کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔“
بیان میں کہا گیا ہے ”مزید یہ کہ ہم ایسے تیس ہزار کارکنوں کی صحت اور حفاظت سے متعلق اپنے حقیقی عزم اور وابستگی کو چھوٹا کرنے کی کوشش کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں، جنہوں نے فیفا ورلڈ کپ کے اسٹیڈیم اور ٹورنامنٹ کے دیگر پروجیکٹس تعمیر کیے ہیں“
قطر کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے لیے آٹھ اسٹیڈیمز کی تعمیر کے دوران کام سے متعلق حادثات میں صرف تین مزدور ہی ہلاک ہوئے
واضح رہے کہ قطر پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس پروجیکٹ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کو کم رپورٹ کیا گیا
ایس سی ڈی ایل نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ”قطر نے مہاجر مزدوروں سے متعلق بعض ایسی اصلاحات کی ہیں، جنہیں انسانی حقوق کے بعض بین الاقوامی اداروں نے بھی ایک ایسے ماڈل کے طور پر تسلیم کیا ہے، جن سے نہ صرف ترقی تیز ہوئی ہے بلکہ زندگی کے حالات بھی بہتر ہوئے ہیں“
اس نے یہ بھی کہا کہ ”اس حوالے سے ہماری ڈنمارک فٹبال فیڈریشن (ڈی بی یو) کے ساتھ پختہ اور شفاف بات چیت بھی ہوئی ہے۔ ہم ڈی بی یو پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے وسیع مواصلات کے نظام کو درست طریقے سے آگاہ کریں اور سپریم کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کریں۔ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ھامل میں ان کے شراکت داروں کو صحیح اور درست معلومات پہنچیں“
ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرنے کے بعد ڈی بی یو نے کہا تھا کہ وہ قطر میں حقوق کے مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے بھی اقدامات کرے گا اور اس سلسلے میں وہ تربیتی میچوں کے لیے تیار کی جانے والی جرسی پر ایسے پیغامات لکھے گا، جس سے انسانی حقوق کے مسائل اجاگر ہو سکیں
انگلینڈ کی فٹبال ایسوسی ایشن نے بھی قطر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ورلڈکپ سے متعلق انفراسٹرکچر کی تعمیر کے دوران ہلاک یا زخمی ہونے والے مہاجر مزدوروں کے اہل خانہ کو معاوضہ ادا کرے
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی گزشتہ ہفتے فیفا کے اسپانسرز پر زور دیا تھا کہ وہ فٹبال کی عالمی گورننگ باڈی اور قطر پر ایسا کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں
واضح رہے کہ 2010 میں قطر کو ٹورنامنٹ دینے کے بعد سے، فیفا کو انسانی حقوق کے ریکارڈ کے ساتھ ایک ملک کا انتخاب کرنے اور ایک ایسے خطے میں ٹورنامنٹ کا پتہ لگانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جہاں شدید گرمی پڑتی ہے
2020 میں، محکمہ انصاف نے قطر پر ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق کے حصول کے لیے اعلیٰ حکام کو رشوت دینے کا الزام لگایا، اس الزام کی فیفا حکام اور قطری منتظمین نے تردید کی ہے
مشرق وسطیٰ کے پہلے ورلڈکپ کی میزبانی کی تیاری میں، قطر نے اپنے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنایا ہے، اپنے مرکزی ہوائی اڈے اور عوامی نقل و حمل کے نظام کو وسعت دی ہے اور اسٹیڈیم اور ہوٹلوں کی تعمیر کی ہے۔ ان بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تعمیر کے لیے غیر ملکی کارکنان ملک میں آئے، لیکن انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا ہے
دی گارڈین نے گزشتہ سال رپورٹ کیا تھا کہ 2010 کے آخر سے 2020 تک ہندوستان، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 6,500 تارکین وطن مزدور قطر میں ہلاک ہوئے
ہمل کا یہ اعلان اس وقت سامنے آیا ہے جب انسانی حقوق کی تنظیمیں تارکین وطن کارکنوں کے معاوضے کی وکالت کرنے کے لیے کفیلوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ میں عالمی اقدامات کے ڈائریکٹر منکی ورڈن نے گزشتہ ہفتے رائٹرز کو بتایا کہ اسپانسرز کو فیفا اور قطر پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ کارکنوں کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں
ورڈن نے کہا، "برانڈز ورلڈ کپ کو اسپانسر کرنے کے حقوق خریدتے ہیں کیونکہ وہ خوشی، منصفانہ مقابلے اور میدان میں شاندار انسانی کامیابیوں کے ساتھ منسلک ہونا چاہتے ہیں – نہ کہ اجرتوں کی بے تحاشا چوری اور ورلڈ کپ کو ممکن بنانے والے کارکنوں کی موت،”