سیلاب متاثرین بحالی خواب بن کر رہ گئی، لاکھوں پاکستانی بچوں کی زندگی خطرے میں: یونیسیف

ویب ڈیسک

بانسوں پر پرانے کپڑے کی چادریں اور پٹ سن کی بوریوں کی مدد سے بنایا گیا جھگی نما کمرا ہی پینتیس سالہ بخشل سولنگی کا گھر ہے

اس جھگی میں بستر اور کپڑے رکھنے کے لیے لکڑی کے چار صندوق اور پانی جمع کرنے کے لیے پلاسٹک کے نیلے رنگ کے چار بڑے ڈرم رکھے ہوئے ہیں

بخشل سولنگی کا یہ جھگی نما گھر پاکستان کے معاشی حب اور سندھ کے دارالحکومت کراچی کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے والی شاہراہ سابق سپر ہائی وے اور اب ایم نائن موٹروے پر بکرا منڈی سے متصل ’سندھ آباد‘ میں واقع ہے

2010ع میں آنے والے شدید سیلاب سے بے گھر ہونے لوگوں نے سندھ آباد کو آباد کیا تھا، تاہم بارہ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باجود بھی یہ سیلاب متاثرین مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے

سندھ آباد کالونی تقریباً ایک ہزار جھگی نما گھروں پر مشتمل ہے، جہاں تقریباً چھ سے آٹھ ہزار لوگ آباد ہیں

اس کالونی کی کچی گلیوں میں بچے ننگے پاؤں بغیر کھلونوں والے کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔ کالونی میں نکاسی آب کا نظام نہیں، اس لیے یہاں کے مکین رفع حاجت کے لیے کالونی کے برابر جھاڑیوں میں جاتے ہیں

کالونی میں پینے کا پانی موجود نہیں، لہٰذا چنگچی رکشوں اور گدھا گاڑی پر فروخت ہونے والا پانی خریدنے کے لیے مزدوری کی آدھی رقم دینی ہوتی ہے، اس لیے بچے اور خواتین ملک کی مصروف شاہراہ سپرہائی وے کو کراس کر کے کئی کلومیٹر پیدل چل کر پانی لاتے ہیں، جس کی وجہ سے سپر ہائی وی پر کئی حادثات بھی ہو چکے ہیں

شمالی سندھ کے ضلع شکارپور سے تعلق رکھنے والے بخشل سولنگی بتاتے ہیں ”2010 سے پہلے شکارپور میں کھیتی باڑی کرکے گزارا کرتے تھے۔ 2010 کے سیلاب سے نہ صرف ہمارا گاؤں مکمل طور زیر آب آگیا، بلکہ آس پاس کا بہت بڑا رقبہ مکمل طور پر ڈوب گیا۔ پہلے چند روز تو گاؤں کے نزدیک اونچی جگہ پر سڑک کنارے بیٹھے رہے، مگر ہمیں لگا کہ پانی سوکھنے میں کئی مہینے لگ جائیں گے، تو ہم عارضی طور پر کراچی چلے آئے۔ یہ جگہ خالی تھی تو سب سیلاب متاثرین نے جھگیاں بناکر یہاں رہنا شروع کردیا“

وہ کہتے ہیں ”ہم نے سوچا تھا کہ چند مہینوں بعد واپس چلے جائیں گے۔ گھر سیلاب برد ہوگیا تھا۔ دوبارہ گھر کی تعمیر کے پیسے نہیں تھے۔ کئی سال کھیت بوائی کے قابل نہیں رہے تو ادھر ہی رک گئے۔ اب تو اتنی مہنگائی ہے کہ اب ناممکن ہے کہ دوبارہ واپس جاسکیں“

بچپن میں پولیو وائرس کے باعث بخشل سولنگی کا بایاں ہاتھ کمزور ہو گیا ہے، اس لیے اب وہ مزدوری بھی ایک ہی ہاتھ سے کرتے ہیں۔ انہیں بھاری کام کے لیے کوئی اجرت پر نہیں رکھتا، اس لیے دیگر مزدوروں کے مقابلے میں انہیں کم اجرت ملتی ہے

بخشل نے بتاتے ہیں ”2010 کے سیلاب کے بعد حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ سیلاب متاثرین کو گھر بنوا کر دیے جائیں گے اور انہیں مکمل طور پر بحال کیا جائے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ہم لوگ تو روزمرہ کا کھانا نہیں کھا سکتے تو گھر کیسے بنا سکتے ہیں۔ حکومت سے اپیل ہے کہ ہمیں گھر بنا کر دیے جائیں“

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس یعنی 2022 میں آنے والے سیلاب سے پاکستان میں تین کروڑ افراد متاثر ہوئے، سیلاب کے دوران 1730 افراد ہلاک اور 80 لاکھ بے گھر بھی ہوئے

حالیہ دنوں جینیوا میں منعقدہ ڈونرز کانفرنس میں عالمی برادری کی جانب سے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے دس ارب ڈالر کی منظوری دی گئی

ڈونر کانفرنس میں خطیر رقم ملنے کے بعد سیلاب متاثرین کی بحالی کی امید کے حوالے سے سوال پر بخشل سولنگی نے کہا ”ہم لوگ بارہ سالوں سے بیٹھے ہیں۔ ہمارا کچھ نہیں ہوا۔۔ جب 2010ع کے سیلاب متاثرین بحال نہیں ہوئے تو 2022 کے سیلاب متاثرین کیسے بحال ہو سکتے ہیں؟“

◼️حالیہ سیلاب سے متاثر لاکھوں بچوں کی زندگیاں داؤ پر

اقوامِ متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں آلودہ اور ٹھہرے ہوئے پانی کے قریب رہنے والے تقریباً چالیس لاکھ بچے زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں

یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سولہ لاکھ بچے پہلے سے ہی شدید غذائی قلت کا شکار تھے، جبکہ گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب سے پہلے ہی ساٹھ لاکھ بچے کم نشونما کا شکار چلے آرہے تھے

پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فادل کے مطابق حالیہ سیلاب کے بعد صورتِ حال مزید خراب ہوئی ہے، جہاں شدید سرد موسم میں چالیس لاکھ بچے گرمی اور گرم حفاظتی لباس کے بغیر رہ رہے ہیں، جس سے بہت سے بچوں کی موت کا خطرہ ہے

انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان اب بھی سخت سردی میں پلاسٹک کی عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ متاثرہ علاقوں میں بچوں کو ملیریا اور ہیضہ جیسی مہلک بیماریوں کا بھی خطرہ ہے

عبداللہ فادل نے بتایا ”ہمیں ابتدائی طور پر اندیشہ تھا کہ پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے موت کی سب سے بڑی وجہ ملیریا ہوگا، ہمیں لگا کہ ہم مچھردانیاں اور ملیریا کی ادویات فراہم کرنے کے قابل تھے اور بحران ٹل گیا“

یونیسیف کے نمائندے کے بقول ادارے نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی اور زندگیاں بچانے والی ادویات فراہم کرکے ہیضے کی وبا کو روکنے میں بھی مدد کی ہے

فنڈ کے نمائندے کے مطابق پاکستان میں صحت کے علاوہ تعلیم بچوں کے لیے ایک اہم شعبہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب سے چوبیس ہزار اسکول بہہ گئے ہیں

فادل کے بقول ”ہم نے تقریباً ایک ہزار عارضی تعلیمی مراکز قائم کیے ہیں، جہاں تقریباً نوے ہزار بچے زیرِ تعلیم ہیں، جن میں سے ایک تہائی پہلی بار پڑھنے والے طالب علم ہیں“

ان کے مطابق ”پاکستان میں تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ بچے ہیں، جو پہلے ہی اسکول نہیں جاتے۔ سیلاب کے باعث بیس لاکھ مزید بچے اسکول چھوڑ چکے ہوں گے یا اسکول سے باہر ہو گئے ہوں گے“

پاکستان میں سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے جاری رہنے کے باوجود فادل کے مطابق ابھی تک یونیسیف کو 173 ملین ڈالر کی نصف سے بھی کم رقم موصول ہوئی ہے، جو لاکھوں بچوں کی اس موسمیاتی تباہی سے صحتیاب ہونے میں مدد کے لیے درکار ہے

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں غیر محفوظ برادریوں کو صحت کی دیکھ بھال، غذائیت، تعلیم، تحفظ اور دیگر ضروری خدمات تک قابلِ اعتماد رسائی کی ضروریات درپیش ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close