روز مرہ کا ایک عام سا واقعہ، جو زندگی بدل سکتا ہے۔۔ ایسا ہی کچھ برازیل کی سات سالہ یاسمین گارسیا کے ساتھ بھی ہوا
یہ کہانی اسکول میں رسہ کشی کے کھیل سے شروع ہوئی، جس میں چند گھنٹوں میں یاسمین کو ایمرجنسی سرجری کے لیے پانچ سو کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑا
یاسمین کی قوت بینائی مستقل طور پر ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا لیکن ایک سوئی کی مدد سے ہونے والی معمولی سی سرجری سے یاسمین کو کسی بڑے نقصان سے بچا لیا گیا
تاہم اس کہانی کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے پانچ سال پیچھے جانا ہوگا
پہلی علامات
ایک ماں کی طرح یاسمین کی پرورش کرنے والی ان کی دادی کہتی ہیں ”دو سال کی عمر میں یہ محسوس ہونا شروع ہوا کہ بچی کی دائیں آنکھ میں کوئی مسئلہ تھا“
اس وقت یہ خاندان جنوبی برازیل میں ارجنٹائن کی سرحد کے قریب ایک شہر میں رہتا تھا
دادی بتاتی ہیں ”ایک دن یاسمین سو کر اٹھی تو اس کی آنکھ سوجی ہوئی تھی اور ہمیں لگا کہ یہ سوزش ہے۔ جیسے جیسے دن گزرتا گیا، ہم نے نوٹس کیا کہ آنکھ کا ڈھیلا زیادہ سوجتا جا رہا ہے“
اگلی صبح وہ یاسمین کو لے کر مقامی ہسپتال میں ٹیسٹ کروانے گئے، جہاں ڈاکٹروں کو لگا کہ یہ ’لمفوما‘ ہے۔ لمفوما سرطان کی ایک قسم ہوتی ہے، جس میں لمفیٹک سسٹم، یا غدود کا جسمانی نظام متاثر ہوتا ہے
لیکن ٹیسٹ کے بعد نتائج نے ایک اور مسئلے کی نشان دہی کی۔ یاسمین کو ’لمفینجیوما‘ تھا، یعنی ایک ایسی بیماری، جس میں جسم کے مخصوص حصے میں موجود غدود اور خون کی نالیاں پھول کر سوزش کا باعث بنتی ہیں اور مائع اکھٹا ہو جاتا ہے
یہ ایک نادر بیماری ہے جو دس ہزار میں سے ایک فرد کو متاثر کرتی ہے۔ لیکن یاسمین کا معاملہ اور بھی غیر معمولی تھا۔ عام طور پر یہ بیماری سر یا گردن کے حصے میں ہوتی ہے لیکن اس کیس میں بیماری کا مقام آنکھ کے بلکل پیچھے تھا
اس کی وجہ سے اندرونی سوزش ان کی آنکھ کے ڈھیلے کو باہر کی جانب دھکیل رہی تھی۔ یہ اتنی نادر بیماری تھی کہ اس کے کیسز کی تعداد کے بارے میں بھی کسی کو علم نہیں
اس پہلی پریشانی کے بعد یاسمین کی آنکھ سے مائع نکالا گیا، جس کے بعد ان کی زندگی میں سکون آ گیا
دادی بتاتی ہیں ”اس کے بعد جب بھی ہمیں ذرا سی بھی سوزش دکھائی دیتی تو ہم برف کے ذریعے اسے کم کر دیتے۔۔ ہم نے اسکول والوں سے بھی بات کی کہ یاسمین سے زیادہ جسمانی کام نہ کروائیں کیوں کہ اس سے مسئلہ بڑھ سکتا تھا“
ورزش دل پر اثر کرتی ہے جس سے خون کا دباو بدلتا ہے اور خون کی نالیاں پھیلتی ہیں۔ اس سے یاسمین کے متاثرہ حصے میں مائع کے اکھٹا ہونے کا عمل تیز رفتار ہو سکتا تھا
ایسے میں ان کا خاندان کیسکیول نامی شہر منتقل ہوا اور یہیں وہ واقعہ پیش آیا، جس میں یاسمین نے اسکول میں رسہ کشی کے مقابلے میں حصہ لیا اور چند گھنٹوں میں ان کی حالت ابتر ہو گئی
اس واقعے کے بعد ان کی آنکھ پر جامنی رنگ کا نشان پڑا، جو دیکھتے ہی دیکھتے اتنا پھیل گیا کہ پوری آنکھ باہر کی جانب آ گئی
ان کی دادی بتاتی ہیں ”ہم نے سوزش کو گھر پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی، ڈاکٹروں کو بھی دکھایا لیکن کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔ سوزش بڑھتی گئی اور ایک وقت آیا کہ پوری آنکھ ہی باہر نکل آئی۔ وہ شدید درد میں تھی، کچھ کھا نہیں پا رہی تھی اور الٹیاں بھی کر رہی تھی“
انہوں نے پانچ سو کلومیٹر دور پیکوینو ہسپتال فون کیا، جنہوں نے ان سے یاسمین کو فوری طور پر لانے کو کہا
یاسمین کے ایکسرے کیے گئے، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی ہوئی
ڈاکٹر رافائیلا ویگنر کو اب بھی یاد ہے کہ انھوں نے یاسمین کا علاج کیسے کیا تھا
جب انہوں نے پہلی بار یاسمین کو دیکھا تو اس کی آنکھ بند ہی نہیں ہو رہی تھی
ڈاکٹر رافائیلا ویگنر بتاتی ہیں ”بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایک ایسے حساس حصے پر دباؤ بڑھ رہا تھا، جہاں سے آپٹک نرو گزرتی ہے“
واضح رہے کہ آپٹک نرو ایک ایسی نس ہوتی ہے، جو آنکھ اور دماغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے انسانی آنکھ جو دیکھتی ہے، وہ دماغ تک پہنچتا ہے
یاسمین کے علاج کے پہلے مرحلے میں ان کی علامات کو سنبھالا گیا، درد میں کمی لائی گئی اور انفیکشن کو ادویات کی مدد سے پھیلنے سے روکا گیا۔۔ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ ان کی آنکھ کو اس کی اصل جگہ پر واپس کیسے لایا جائے؟
اس مرحلے پر ان کی بیماری کی وجہ سے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز نے مل کر صورت حال کا جائزہ لیا
آخر میں انٹروینشنل ریڈیالوجی کے ماہرین کے ذمے یہ کام سونپا گیا، جو ایک نیا شعبہ ہے جس میں ایکسرے کے ذریعے کسی سرجری کے دوران جسم کے اہم حصوں کا مسلسل معائنہ کیا جاتا ہے
ڈاکٹر پیڈرو سینٹینی اور ہیلڈر گروئین ولڈ کامپوس نے چند ٹیسٹوں کی مدد سے پوری منصوبہ بندی کی، جس کے بعد سرجری کا آغاز کیا گیا
اس سرجری میں ایک سوئی کو ناک اور آنکھ کے درمیانی حصے میں گھسایا گیا، جس کے دوران ایک مشین کی مدد سے وہ اس مقام کو مسلسل دیکھ رہے تھے
کامپوس نے بتایا کہ پہلا قدم وہاں سے مائع کا اخراج تھا۔ انہوں نے گہرے لال رنگ کا تقریباً بارہ ملی میٹر مائع باہر نکالا۔ ”سننے میں شاید یہ زیادہ مقدار نہیں لگتی، لیکن اگر آنکھ کے پیچھے اتنی مقدار اکھٹی ہو جائے تو بہت نقصان ہو سکتا ہے“
اگلے مرحلے میں ان کو کیموتھریپی کی دوا دی گئی، جو لمفینجیوما خلیوں کو ختم کرتی ہے
سرجری کے بعد جب یاسمین کی دادی نے اُن کو دیکھا تو اُن کو یقین نہیں آیا ”مجھے بہت پریشانی تھی کیونکہ یہ آپریشن بہت حساس حصے کا ہوا تھا۔ لیکن دیکھ کر بلکل پتہ نہیں چلا کہ انہوں نے کچھ بھی کیا تھا“
تاہم ڈاکٹر پیڈرو سینٹینی اور ہیلڈر گروئین ولڈ کامپوس یاسمین کی دادی کی اس حیرانی پر بلکل بھی حیران نہیں ہوئے، کیونکہ یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی
انہوں نے بتایا ”ہم بڑے چیرے نہیں لگاتے۔ سب کچھ ایک سوئی کی مدد سے کیا جاتا ہے جو جلد میں چھوٹا سا سوراخ ہی کرتی ہے۔۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ مریض زخموں اور پٹیوں کے ساتھ باہر آئے گا جبکہ کئی کیسز میں تو سوئی سے ہونے والا سوراخ بھی نظر نہیں آتا“
تاہم ڈاکٹر ویگنر کے لیے بھی یہ نتیجہ حیران کن اور کسی جادو سے کم نہیں تھا
”اس کی خوبصورتی اسی میں ہے۔ یاسمین کو پہلے اور بعد میں دیکھنا بہت فائدہ مند تھا“
ایک پریشان کن لمحے کے بعد اب یاسمین کے ڈاکٹرز اُن کے آئندہ علاج پر غور کر رہے ہیں
وہ ہر بارہ گھنٹے بعد ایک گولی کھاتی ہیں تاکہ سوزش قابو میں رہے
ان کا آپریشن مکمل طور پر کامیاب رہا تھا اور ایک مہینے بعد بھی آنکھ کے پیچھے مائع اکھٹا نہیں ہوا
ویگنر کا کہنا ہے کہ اب بچی کھیل کود سکتی ہے۔ یاسمین کی دادی کے لیے یہ ایک خوش خبری ہے
وہ سمجھتی ہیں کہ یاسمین کی کہانی سنانے سے ایسے والدین کو مدد ملے گی، جن کے بچوں کو ایسے ہی مسئلے کا سامنا ہے لیکن اب تک تشخیص نہیں ہو سکی اور ان کو علاج نہیں مل سکا
وہ کہتی ہیں ”یاسمین کو خوش اور معیاری زندگی گزارتے دیکھ کر جو احساس ہوتا ہے وہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتیں“