آج اگر ہماری نئی نسل کو کچھ دہائیاں قبل کی کسی کی شادی کی وڈیو ہوم سسٹم یعنی ’وی ایچ ایس‘ ہاتھ لگ جائے، تو وہ اس کا بالکل ایسے ہی تجزیہ یا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں، جیسے آثار قدیمہ سے کسی کو قدیم نوادارت مل جائیں
ظاہر سی بات ہے کہ اب ’ڈی وی ڈی‘ ’یو ایس بی‘ ’اسمارٹ فون‘ یو ٹیوب‘ اور نیٹ فیلکس کے دور کے اِن بچوں کو کیا پتا کہ یہ کسی زمانے میں کیا ’شاہکار‘ ہوتا تھا۔ جسے وڈیو کیسٹ ریکارڈر یعنی ’وی سی آر‘ میں سمو کر ماضی میں اپنی جوانی کی عمر میں کتنوں نے دلیپ کمار، امیتابھ بچن، منداکنی، میناکشی، مادھوری، دھرمیندر، ونود کھنہ، ریکھا، رشی کپور، سری دیوی اور زینت امان کی ہوشربا حشر سامانیاں دیکھی تھیں
یہ 80 کی دہائی کی بات ہے، جب وی سی آر چپکے چپکے سے گھروں کے ڈرائنگ روم میں در آیا۔ جسے بڑی شان و شوکت سے کسی دلہن کی طرح سجا کر ٹی وی ٹرالی میں رکھا جاتا
جو ’صاحبِ وی سی آر‘ ہوتے، ان کی الگ اور منفرد عزت و تکریم ہوتی۔ گھر آئے مہمان کو چائے سموسے سے زیادہ اس بات میں دلچسپی ہوتی کہ ان کے میزبان انہیں آج کون سی فلم کا دیدار کروائیں گے
تب فلم دیکھنے کا بھی بڑا اہتمام ہوتا۔ کہیں صبح سویرے تو کہیں دن کے ایک پہر یہ ’میٹنی شو‘ لگتا تو کہیں رات گئے کسی بھی نئی فلم کا پریمیر ہوتا بالخصوص ’ویک اینڈ‘ پر تو اس ’لیٹ نائٹ شو‘ کا دورانیہ بسا اوقات موذن کی فجر کی اذان تک جا پہنچتا
اس وقت نہ صرف وی سی آر پر فلمیں دیکھنے کا رواج تھا بلکہ تقریبات کی ریکارڈنگ بھی وی سی آر پر چلنے والی انہی کیسٹس میں کی جاتی تھی۔ شادی ہو یا سالگرہ، کھیلوں کے مقابلے ہوں یا کوئی بھی گھریلو تقریب، تمام ریکارڈنگز انہی کیسٹس میں کی جاتی تھی
پھر اسی دوران وی سی آر کے سوتیلے بھائی ’وی سی پی‘ کی آمد ہوئی‘ جو بڑے بھیا کے مقابلے کے مقابلے میں کم قیمت اور آسان طریقہ استعمال سے مالا مال تو تھا لیکن ریکارڈنگ کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا
شہرت اور مقبولیت رفتہ رفتہ زوال پذیر ہونے لگی اور اب گھبرانے کی باری وی سی آر کی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت نے کروٹ بدلی۔ڈش سیٹلائٹ ٹی وی اور پھر کیبل کی آمد کے بعد وی سی ڈی، سی ڈی، ڈی وی ڈی، لیپ ٹاپ، سمارٹ فون، آئی پیڈ اور اسمارٹ ٹی وی نے لے لی، اور وی سی آر اور وی سی پی کے چڑھتے سورج کو ہمیشہ کے لیے غروب ہونے پر مجبور کر دیا
تب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے کاروباری مرکز صدر میں واقع رینبو سینٹر 1980 اور 1990 کی دہائی سے ہی وڈیو کیسٹس کی ایک معروف مارکیٹ رہی، لیکن اب یہاں ان ویڈیو کیسٹس کو ڈجیٹل کرنے کا کام بھی کیا جا رہا ہے
کراچی کے شہریوں کے لیے دو تین دہائیاں قبل اتوار والے دن رینبو سینٹر سے کیسٹس اور وی سی آر لا کر چھٹی والے دن فلمیں دیکھنا ایک عام بات رہی ہے
لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ وڈیو چلانے اور ریکارڈ کرنے کے طریقوں میں بھی جدت آتی گئی اور اب ڈجیٹل ریکارڈنگز کے لیے پہلے کمپیکٹ ڈسک اور پھر ڈی وی ڈی اور اب یو ایس بی فلیش ڈرائیو، میمری کارڈ اور ایس ایس ڈی ڈرائیو تک مارکیٹ میں آ چکی ہیں
مگر اس دور میں ریکارڈ کی گئی کیسٹس میں موجود لوگوں کی یادیں ایسی ہیں کہ ان کو ڈجیٹل میں تبدیل کرنا ہر ایک کی خواہش بن چکی ہے
لوگ اپنی ان یادوں کو ڈیجیٹل میں منتقل کر کے نہ صرف واٹس ایپ گروپس اور فیس بک پر شیئر کرتے ہیں بلکہ انہیں یوٹیوب اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی شیئر کرتے ہیں
وی سی آر میں چلنے والی بڑے حجم کی کیسٹس کو ڈجیٹل کرنے کے بعد اب ان وڈیوز کو موبائل فون کے ذریعے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھیج کر ماضی کی یادوں کو تازہ کیا جا سکتا ہے
کسی دور میں وی سی آر، کیسٹس، ریکارڈنگ اور ڈبنگ کے لیے ایک اہم مقام سمجھی جانے وال یایمپریس مارکیٹ کے قریب واقع رینبو سینٹر کی مارکیٹ میں سب چند ہی ایسی دکانیں بچی ہیں، جہاں پرانی کیسٹس کو ڈجیٹل میں تبدیل کیا جاتا ہے
ایسی ہی ایک دکان کے مالک محمد زاہد بتاتے ہیں ”ان کے پاس لوگوں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے جو ان پرانی کیسٹس کو ڈجیٹل میں تبدیل کروانے کی خواہش رکھتی ہے“
انہوں نے بتایا ”یہ کیسٹس بہت پرانی ہوتی ہیں۔ جب کوئی کیسٹ آتی ہے تو مٹی سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ اس کو اچھی طرح صاف کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد جتنے دورانیہ کی وہ کیسٹ ہے، اتنے وقت کے لیے اس کیسٹ کو چلانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد اس فلم کا اسکرین گریب لیا جاتا ہے۔ جس کے بعد اس کی ڈی وی ڈی اور بعد میں یو ایس بی ورژن بنایا جاتا ہے۔ بہت محنت طلب کام ہے۔ یہ کام چند ہی دکانوں پر کیا جاتا ہے“
نوشہروفیروز کے رہائشی محمد سچل پہنور 1993ع میں ہونے والی اپنے بڑے بھائی کی شادی کی تقریب کی وی ایچ ایس کیسٹ کو ڈیجیٹلائیزڈ کرانے کے لیے محمد زاہد کی دکان پر آئے ہوئے تھے
محمد سچل پہنور نے بتایا ”یہ یادگار شادی کی تقریب ضلع نوشہروفیروز کی تحصیل بھریا کے گاؤں نہال خان پہنور میں ہوئی تھی۔ جس میں استاد وحید علی خان نے زبردست کلام گائے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کو وہ تقریب آج بھی یاد ہے۔ اس کیسٹ میں خواب ہیں۔۔ یادیں ہیں“
وہ کہتے ہیں ”اس کیسٹ میں بیٹھے ہوئے ہمارے خاندان اور گاؤں کے رہائشی کئی افراد اب فوت ہو چکے ہیں۔ میں اپنی نئی نسل اور بچوں کو اپنے بزرگ دکھانا چاہتا تھا مگر اب کسی کے پاس وی سی آر نہیں ہے، اس لیے اس کیسٹ کو ڈجیٹل کرانے کے لیے آیا ہوں“
سچل پنہور کے مطابق ”اب یہ کیسٹ ڈجیٹل ہوگئی ہے تو اس کو خاندان کے واٹس ایپ گروپ اور فیسبک پر پوسٹ کروں گا تاکہ گاؤں کے لوگ اس شاندار تقریب کا لطف لے سکیں“
صالح محمد گوٹھ ملیر کے رہائشی ارشد صالح آرکیٹیکٹ انجنیئر ہیں، لیکن وہ بھی ملیر کے مختلف گوٹھوں میں ہونے والی شادی کی تقریبات کی وڈیو کیسٹس کو ڈجیٹلائزڈ کرنے کے بعد ان کو اپنے یوٹیوب چینل ”بلوچ ویڈنگ ڈائریز“ پر پوسٹ کر رہے ہیں
ارشد صالح کا کہنا ہے ”میرا مقصد ماضی کی خوبصورت یادوں کو محفوظ کرنا ہے۔ میں نہ صرف اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات اور ان سے جڑی یادیں اپنے ہم عصروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں، بلکہ نئی نسل کو بھی ان لمحات میں شریک کرنا چاہتا ہوں“
ارشد صالح کہتے ہیں ”یہ ہمارے ثقافتی علامات سے بھرپور ماضی سے جڑے رہنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ میرا چینل ’بلوچ ویڈنگ ڈائریز‘ ایک ڈجیٹل ڈائری ہے، جس میں مَیں یادوں کو جیتے جاگتے لمحات کی صورت میں قلمبند اور محفوظ کر رہا ہوں۔“