ملک میں جعلی پے آرڈر کے بڑھتے فراڈ سے کیسے آخر بچا جائے؟

ویب ڈیسک

اسلام آباد کے رہائشی ڈاکٹر عمران اللہ خان ایک مقامی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ایک آن لائن ویب سائٹ پر اپنی نئی ان رجسٹرڈ گاڑی ہونڈا سٹی ایسپائر کی فروخت کا اشتہار دیا اور ایک پارٹی کے ساتھ پینتالیس لاکھ اسی ہزار میں فروخت کی ڈیل طے ہو گئی

اس کے بعد خریدار نے ڈاکٹر عمران کے گھر آ کر گاڑی کی فروخت کا معاہدہ طے کیا۔ اسٹامپ پیپرز پر فریقین کے دستخط ہوئے. انہیں مقامی بینک کا پے دیا اور گاڑی لے کر روانہ ہو گئے

ڈاکٹر عمران اگلے دن پے آرڈر لے کر بینک پہنچے تو یہ جان کر ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ پے آرڈر جعلی تو ہے۔

اس طرح ڈاکٹر عمران کے ساتھ فراڈ ہو گیا تھا اور اب وہ اپنی درخواست لے کر پولیس تھانوں میں جا رہے ہیں تاکہ ان کی جمع پونجی واپس مل سکے

اسلام آباد پولیس کے مطابق ”ملزم نے شہری سے آن لائن اشتہار کے ذریعے رابطہ کیا اور ایک جعلی بینک ڈرافٹ کے ذریعے مدعی کے گھر آ کر معاملہ کرکے گاڑی خریدی اور مدعی نے خود گاڑی ملزم کے حوالے کی۔ بعد ازاں ملزم غائب ہوگیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرلیا ہے اور ملزم کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں“

ڈاکٹر عمران اس فراڈ کے شکار اکیلے فرد نہیں بلکہ اسلام آباد کے سہیل اختر کے ساتھ گزشتہ سال اپریل میں بالکل ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا

سہیل اختر بتاتے ہیں ”ایک آن لائن ویب سائٹ پر جب میں نے اپنی ان رجسٹرڈ گاڑی ہونڈا ویزل کا اشتہار دیا تو اگلے دن مجھ سے فون پر رابطے کے بعد ایک ادھیڑ عمر شخص حاجی احسان کے نام سے ملا، جو خود کو این ڈی یو سے منسلک پروفیسر بتاتا تھا“

اپنا نام حاجی احسان بتانے والا اپنے ساتھ ایک اور شخص کو بھی لایا تھا، جس کا تعارف انہوں نے بطور کلرک کروایا۔ سہیل اختر کے مطابق وہ شخص حلیے سے کسی کھاتے پیتے گھر کا لگتا تھا اور بہت اچھا پرفیوم بھی لگا رکھا تھا اور ٹیوٹا کرولا گاڑی میں آیا اور گاڑی دیکھ کر چلا گیا

اس نے سہیل کو بتایا کہ دن کو یونیورسٹی میں فون باہر رکھنا پڑتا ہے، اس لیے بند ہوگا، شام کو آپ سے ملاقات ہوگی

اگلے دن وہ پھر شام کو ملنے آیا لیکن کہا کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد میں اس کا پلاٹ بکا ہے، مگر اس کا پے آرڈر بینک میں جمع ہونے میں ایک دو دن لگ جائیں گے

سہیل کا کہنا ہے ”وہ گاڑی پسند کر کے چلا گیا مگر بیعانہ دینے کے مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں ٹیکس معاملات کی وجہ سے یکشمت ادائیگی ہی کرنا ہے“

دو تین دن بعد پھر شام کو ساڑھے چار بجے کے بعد وہ گاڑی خریدنے آیا اور اپنے ساتھ راجہ نامی ایک اور شخص بھی لایا جو بعد میں پتا چلا کہ ماسٹر مائنڈ تھا

بلیو ایریا میں تمام لوگ اسٹامپ فروش کے پاس گئے، جہاں شام چھ بجے کے قریب معاملات ختم ہوئے اور اسے سینتالیس لاکھ کا پے آرڈر دیا

سہیل کے مطابق اس کو تھوڑا تامل ہوا کہ پے آرڈر کیش ہونے تک اپنے کاغذات انہیں نہ دے، لیکن ملزمان نے اسے مطمئن کیا کہ پے آرڈر تو کیش ہی ہوتا ہے۔۔ آپ کو پریشانی کس بات کی ہے؟

مگر انہوں نے یقینی بنایا کہ سودا اس وقت ہو، جب بینک بند ہو چکے ہوں۔ اگلے دن سہیل بینک پہنچے تو انہیں پتا چلا کہ ان کے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے

ملزمان اتنے ماہر تھے کہ انہوں نے سلک بینک کا کچھ ماہ پرانا اصلی پے آرڈر نمبر استعمال کیا تھا اور پے آرڈر کا ڈیزائن بھی ہوبہو اصلی جیسا تھا

بعد میں سہیل نے نادرا کے ذریعے پتا کروایا تو ان کے تمام شناختی کارڈرز جعلی نکلے

پولیس نے اڑتالیس گھنٹے تک ایف آئی آر درج نثہ کی جبکہ سہیل کے بینک نے پورا عمل مکمل ہونے تک فراڈ کی رپورٹ دینے سے معذرت کر دی۔ یوں سہیل کا قیمتی وقت ہاتھ سے نکل گیا

سہیل نے حساس اداروں کی مدد سے باآلاخر ملزمان کو گرفتار کروا دیا تو معلوم ہوا کہ ان کا راجہ نامی ماسٹر مائنڈ اسلام آباد اور راولپنڈی کا کئی مقدمات میں اشتہاری ہے اور اس کے گینک میں راجہ نامی ایک بااثر وکیل بھی شامل تھا

سہیل اختر کا کہنا ہے ”اب میں سوچتا ہوں کہ دیگر صارفین کو نصیحت کروں گا کہ کبھی کسی پے آرڈر پر یقین نہ کریں، جب تک کہ بینک میں آپ کے سامنے بنوا کر دیا جائے۔ دوسرا جب تک پے آرڈر کیش نہ ہو جائے، کاغذات وغیرہ انہیں نہ دئیے جائیں“

سہیل نے بتایا کہ ان کے کیس کے دوران معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں اس طرح کے گینگز درجن بھر سے زائد لوگوں کو جعلی پے آرڈر کے ذریعے لوٹ چکے ہیں

اس طرح کا فراڈ زیادہ تر گاڑیوں کی فروخت میں ہوتا ہے، کیونکہ زمین کی فروخت میں فراڈ کی صورت میں مجرم کو پکڑنا آسان ہو جاتا ہے

اس فراڈ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

پے آرڈرز اور بینک انسٹرومنٹس کے ذریعے کیے گئے زیادہ تر فراڈ شام کے وقت یا چھٹی کے دن ہوتے ہیں تاکہ بینک سے فوری چیک نہ کیا جا سکے

دوسری مشکل یہ ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے بینک سے فون پر کسی پے آرڈر وغیرہ کا چیک کرنا مشکل ہے، کیونکہ یہ کسٹمر پرائیویسی کے زمرے میں آتا ہے اور بینکس عموماً اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کی معلومات دوسروں سے شیئر نہیں کرتے

تجربہ کار بینکر راشد مسعود عالم کا بھی یہی خیال ہے کہ اس طرح کے فراڈ کا پتا لگانا عام آدمی کے لیے بہت مشکل ہے

راشد مسعود نے مثال دیتے ہوئے کہا ”سب سے پیچیدہ سکیورٹی کا نظام کرنسی کا ہوتا ہے، جس میں کئی سطح کے فیچرز شامل کیے جاتے ہیں اور عام صارفین کا واسطہ روزانہ کرنسی نوٹس سے پڑتا ہے مگر اس کے باوجود دنیا بھر میں جعلی کرنسی پھر بھی چلتی ہے تو پھر ایسے میں کسی اور بینک انسٹرومنٹ جیسے کہ چیکس، پے آرڈر اور بینک ڈرافٹس کو جانچنا ایک عام آدمی کے لیے انتہائی مشکل کام ہے“

وہ کہتے ہیں ”اس طرح کی دستاویزات کی تصدیق جب تک جاری کرنے والے بینکوں سے نہ کی جائے، ان کی کوئی حثییت نہیں ہوتی۔ چونکہ بینک خود کسی شخص سے اپنے صارف کا ڈیٹا شیئر نہیں کرتے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ عام آدمی کو فون پر کسی چیک یا پے آرڈر کی تصدیق ہو سکے۔
اس کا ایک طریقہ یہ رہ جاتا ہے کہ جو شخص پے آرڈر دے رہا ہے، وہ خود بینک سے تصدیق کروا کر دے یا پھر خریدار خود ساتھ بینک جائے اور تصدیق کرلے“

دوسرا حل یہ ہے کہ پے آرڈر وغیرہ کیش ہونے تک خریدار کو گاڑی وغیرہ کے کاغذات نہ دیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا ”اس طرح کے فراڈز کراچی میں کم ہیں مگر اسلام آباد اور پنجاب سے شکایات زیادہ ہیں“

اسٹیٹ بینک کیا کہتا ہے؟

اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے اس طرح کی شکایات آ رہی ہیں تاہم اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کا کردار تب آتا ہے، جب بینک اس میں ملوث نکلیں

ان کا کہنا تھا کہ فراڈ کے زیادہ تر کیسز میں جعلی پے آرڈر، بینک ڈرافٹس یا چیک استعمال کیے جاتے ہیں، اس لیے اس میں اسٹیٹ بینک کے ایکشن کے بجائے پولیس کیس بنتا ہے

عابد قمر کے مطابق اسٹیٹ بینک پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں کو بہرحال گائیڈ لائنز جاری کرتا رہتا ہے تاکہ صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close