بھارتی ریاست اتر پردیش کے تین بار وزیر اعلیٰ رہنے والے سماج وادی پارٹی کے سرپرست ملائم سنگھ یادو کا انتقال ہو گیا۔ انہیں ملک میں حزب اختلاف کی سیاست اور اس کی سیکولر شبیہ کی ایک اہم علامت سمجھا جاتا تھا
وہ بھارت کی سیاست کے ایک قد آور رہنما تھے، جنہیں پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے یاد رکھا جائے گا
بھارت کے سابق وزیر دفاع اور آبادی کے لحاظ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو کی گزشتہ کئی روز سے صحت اچھی نہیں تھی، اسی لیے ہسپتال میں ان کا علاج چل رہا تھا۔ 10 اکتوبر پیر کی صبح ان کا ہسپتال میں ہی انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر 82 برس تھی
گزشتہ کچھ ہفتوں سے وہ دہلی کے مضافات میں واقع ایک ہسپتال میں داخل تھے اور کئی روز سے ان کی حالت کافی نازک تھی۔ پارٹی کے سربراہ اور ملائم سنگھ یادو کے بیٹے اکھلیش یادو نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ان کے موت کی خبر کی تصدیق کی
انہوں نے پارٹی کے آفیشل ہینڈل سے ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا ’’میرے والد محترم اور سبھی کے نیتا جی نہیں رہے۔”
ان کی آخری رسومات منگل کے روز ان کے آبائی گاؤں ضلع اٹاوہ کے سیفائی میں ادا کی جائیں گی۔ پارٹی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’نیتا جی کی جسد خاکی کو سیفائی منتقل کیا جا رہا ہے۔ 11 اکتوبر کو تقریباً 3 بجے ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی“
سیاسی سفر
خرابی صحت کی وجہ سے گزشتہ کچھ برسوں سے ملائم سنگھ یادو قومی سیاست کے اسٹیج پر کم ہی نظر آئے، تاہم نشیب و فراز پر مبنی ان کا سیاسی سفر کافی دلچسپ اور ہنگامہ خیز رہا۔ سماج وادی پارٹی کے حامیوں اور جماعت کے رہنماؤں میں وہ ’نیتا جی‘ کے نام سے معروف تھے
ملائم سنگھ یادو 22 نومبر 1939ع کو یو پی کے اٹاوا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے تین بار وزیر اعلیٰ رہے۔ ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے بھی وہ کئی بار رکن منتخب ہوئے اور پارلیمان میں وہ ریاست کے ضلع اعظم گڑھ کے حلقے کی نمائندگی کیا کرتے تھے
سابق پہلوان سن 1980 کی دہائی کے اواخر اور سن 1990 کی دہائی کے اوائل میں یو پی کی سیاست میں سرخیوں میں اس وقت آئے، جب بھارت میں سماجی یا تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کی شناخت کے لیے قائم کیے گئے منڈل کمیشن کے خلاف احتجاج اور مظاہرے اپنے عروج پر تھے
وہ ابتدا سے ہی سوشلسٹ سیاسی نظریات سے متاثر تھے اور سب سے پہلے سن 1967ء میں رام منوہر لوہیا کی سنیوکت سوشلسٹ پارٹی سے اتر پردیش کی اسمبلی میں داخل ہوئے۔ سن 1977ء میں پہلی بار ریاستی وزیر کے عہدے پر فائز ہوئے
اس وقت اتنی کم عمری میں رکن اسمبلی منتخب ہونے والے وہ پہلے شخص تھے۔ رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ایم اے کی تعلیم مکمل کی اور 38 برس کی عمر میں وہ پہلی بار ریاست کے وزیر بنے۔ 1989 میں وہ پہلی بار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بنے۔ وہ تین بار ریاست کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں
تاہم سیاست میں ان کا ستارہ اس وقت چمکنا شروع ہوا، جب انہوں نے جنتادل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 1989ء میں سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کے ساتھ مل کر اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے خلاف سیاسی مہم کا آغاز کیا
اسی سیاسی تحریک کی بنیا پر وہ سن 1989 اور 91 کے دوران پہلی بار ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلی بنے۔ پھر وی پی سنگھ سے سیاسی اختلاف کی بنا پر انہوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت ‘سماجوادی پارٹی’ کی بنا ڈالی
بابری مسجد کے خلاف تحریک کا عروج
یہ وہ دور تھا، جب بھارت کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے خلاف شرانگیز مہم زوروں پر تھی۔ ملائم سنگھ یادو کی حکومت کے دور میں بھی انتہا پسند ہندو کارسیوکوں نے مسجد کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی تھی، تاہم انہوں نے سختی برتی اور اس کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے
اس دوران بعض افراد ہلاک ہوئے اور اس کارروائی کے لیے ان پر شدید نکتہ چینی بھی ہوئی، تاہم مسجد محفوظ رہی۔ اس وقت انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’’مسجد پر حملہ میری لاش کے اوپر سے ہی ممکن ہے۔‘‘
اس واقعے کے تقریباً ایک برس بعد ہی سن 1992ع میں جب ریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ تھے، بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا
اگلے ہی برس، سن 1993 میں وہ ریاست کے دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور پانچ برس تک حکومت کی۔ پھر 2003 ء میں ایک بار پھر وہ کامیاب ہوئے اور تیسری بار ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے۔ اس کے بعد وہ کئی بار پارلیمان کے لیے منتخب ہوتے رہے
1989 میں جب وہ وزیر اعلیٰ بنے تھے، تو اس وقت تک ریاست میں بی جے پی کا اثر و رسوخ بہت کم تھا لیکن وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب ہندو تنظیموں کی مدد سے بی جے پی کے رہنما لال کرشن اڈوانی نے ایودھیا کی بابری مسجد کے خلاف رام جنم بھومی کی تحریک چلا رکھی تھی
نومبر 1990 میں جب ہندو کارسیوکوں نے بابری مسجد پر یلغار کی کال دی تو اس وقت ملائم سنگھ یادو کا یہ فقرہ بہت مقبول ہوا تھا کہ ’بابری مسجد پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکے گا۔‘ ان کے غیر مبہم موقف نے انہیں اتر پردیش ہی نہیں پورے ملک کے مسلمانوں میں بہت مقبول بنا دیا تھا
جب وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور بی جے پی کے ہزاروں انتہاپسند ہندو بلوائیوں نے بابری مسجد کی طرف مارچ کرنا شروع کیا تو پہلے تو انہیں لاٹھی چارج سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن جب وہ قابو میں نہیں آئے تو ان پر گولیاں چلانے کا حکم دیا گیا۔ اس کاروائی میں کم ازکم گیارہ کارسیوک مارے گئے تھے
اس وقت کے انتہائی کشیدہ ماحول میں یہ ایک بہت مشکل فیصلہ تھا لیکن ملائم سنگھ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کو اپنی ذمےداری ادا کرنی ہونی ہوگی
کارسیوکوں کی ہلاکت کے لیے انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ بابری مسجد پر یلغار کی کوشش اقتدار اعلیٰ پر حملے کے مترادف تھی اور اس کا تحفظ ان کا آئینی فریضہ تھا، جو انہوں نے نبھایا
اس موقف سے وہ اپنی آخری سانس تک منحرف نہیں ہوئے۔ کارسیوکوں کی ہلاکت کے بعد بی جے پی نے ملائم سنگھ یادو کو ہندو دشمن قرار دیا اور ان کے خلاف ایک طویل مہم چلائی۔ انہیں ’مولانا ملائم‘ یعنی مسلمانوں کا ہمدرد ہونے کا لقب دیا گیا
یہ وہ وقت تھا جب بی جے پی تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی تھی
ملائم سنگھ یادو کو جب محسوس ہوا کہ وہ تنہا بی جے پی کے بڑھتے ہوئے اثر کو روک نہیں پائیں گے تو انہوں نے ریاست کی دلت حامی جماعت مایاوتی سے اتحاد کیا لیکن وہ اتحاد چل نہیں سکا اور بی جے پی ریاست میں بی ایس پی کی مدد سے اقتدار میں آ گئی
ملائم سنگھ یادو کی بیشتر سیاست 80، 90 اور سنہ 2000 کے ان عشروں پر مشتمل ہے جب شمالی انڈیا بالخصوص ملک کی دو سب سے بڑی ریاستوں اتر پردیش اور بہار کی سیاست پر اعلیٰ ذات کا مکمل غلبہ تھا
ملائم سنگھ کا تعلق یادو برادری سے تھا، جو ہندوؤں کی ایک پسماندہ ذات ہے۔ پسماندہ ذاتوں کی نمائندگی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم تھی
پسماندہ ذاتوں کا تناسب آبادی میں 50 فی صد سے زیادہ ہے لیکن یہ تعلیم اور ملازمت میں بہت پیچھے تھے اور بیشتر غربت کی لکیر پر رہتے تھے
بہار میں لالو پرساد یادو اور نتیش کمار ابھر کر سامنے آئے تھے اور وہ بھی پسماندہ ذاتوں کو اوپر لانے کے لیے کام کر رہے تھے۔ ملائم نے اپنی سیاست کا محور پسماندہ ذاتوں اور مسلمانوں کو بنایا
ان سیاست دانوں نے ریاست میں کانگریس اور بی جے پی کی اعلیٰ ذات کی سیاست کے غلبے کا شیرازہ بکھیر دیا۔ 1989 میں جب مرکز میں وی پی سنگھ کی حکومت بنی تو ملائم سنگھ نے ان کی حمایت کر دی
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی اور ہندو نطریاتی جماعت آر ایس ایس کی اعلی قیادت اور اہم عہدے برہمنوں اور دوسری اعلی ذاتوں کے پاس رہتے تھے
وی پی سنگھ نے ملائم سنگھ اور لالو یادو کی مدد سے دلتوں کے طرز پر ملک کی پسماندہ ذاتوں کے لیے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں 27 فی صد نشستیں مختص کر دیں
یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے ملک کی پسماندہ ذاتوں کو نہ صرف اوپر اٹھایا بلکہ انھیں سماجی برابری کا احساس دلایا اور ان میں ایک نئی خود اعتمادی پیدا کی
گزشتہ تین عشرے میں انڈیا میں پسماندہ ذاتوں کے لوگ بہت آگے بڑھے ہیں اور اس میں ملائم سنگھ یادو کا کردار ناقابل فراموش ہے
بی جے پی کے عروج اور لالو یادو کے زوال اور ملائم سنگھ کے جانے سے پسماندہ تحریک کو یقینا نقصان پہنچا ہے لیکن ذات پات میں لپٹی ہوئی بھارتی سیاست اور سماج میں پسماندہ طبقوں کو اوپر لانے میں ملائم سنگھ کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
انہوں نے ملک کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا اور آخری سانس تک اپنے نظریے پر قائم رہے جس کے سبب وہ بہت سے لوگوں کی نفرت کا محور بھی رہے۔