بازاری کلچر

ڈاکٹر مبارک علی

بازاری کلچر کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہاں جو زبان بولی جاتی تھی، وہ اشرافیہ کی زبان سے مختلف تھی۔ اشرافیہ کی عام بول چال میں شائستگی اور شگفتگی ہوتی تھی

اشرافیہ کے پاس چونکہ مال ودولت اثرورسوخ اور ذرائع ہوتے ہیں، جن کی مدد سے وہ ادب، آرٹ، موسیقی، دعوتوں اور محفلوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ان کی حویلیاں، ان کے لباس، ان کے جلوس اور ان کی شان و شوکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس لیے اشرافیہ اپنے کلچر کے سحر میں گم ہو کر معاشرے کے دوسرے کلچرز کو حقارت سے دیکھتے ہیں

اس کے مقابلے میں بازاری کلچر وہ لوگ پیدا کرتے ہیں، جن کے پاس نہ تو ذرائع ہوتے ہیں اور نہ دولت۔۔ وہ اپنے ذاتی لیاقت اور اوصاف کے ذریعے بازاری کلچر میں اپنے لیے جگہ بناتے ہیں

ایک زمانہ تھا کہ جب امراء کا طبقہ خریداری کے لیے بازار نہیں جاتا تھا بلکہ تاجر اپنا تجارتی مال ان کی حویلیوں میں جاکر انہیں اور ان کی خواتین کو فروخت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امراء کا طبقہ اپنے کلچر کو اعلیٰ و عرفہ سمجھتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ وہ عام لوگوں کے کلچر میں مل کر اپنی امتیازی خصوصیت کو ختم کر دیں

بازاری کلچر کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہاں جو زبان بولی جاتی تھی، وہ اشرافیہ کی زبان سے مختلف تھی۔ اشرافیہ کی عام بول چال میں شائستگی اور شگفتگی ہوتی تھی وہ اپنی زبان کو خالص رکھنے کے لیے شعر و شاعری اور ادب کا سہارا لیتے تھے۔ اس کے برعکس بازار کی زبان خالص نہیں تھی، کیونکہ یہاں گاؤں اور دیہات کے لوگ آتے تھے جس کی وجہ سے شہری اور دیہاتی زبان کا آپس میں ملاپ ہو جاتا تھا۔ غیر ملکی تاجر بھی اپنے کلچر اور زبان کے ساتھ آتے تھے اس لیے بازاری زبان کو اعلیٰ اور معیاری نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مثلاً دہلی کے karkhandar کی زبان کو دہلی کی اشرافیہ کم تر سمجھتی تھی

اشرافیہ کی تفریح کے لیے تو بے شمار ذرائع تھے، لیکن عوام کے لیے بازار نہ صرف کاروبار کی جگہ تھی بلکہ یہاں ان کی تفریح کے لیے بھی اسباب تھے۔ مثلاً ایک جگہ مجمعہ لگائے ہوئے نیم حکیم ہر بیماری کی دواء فروخت کر رہے ہوتے تھے۔ ان کی تقریر میں اس قدر مٹھاس اور خوبصورتی ہوتی تھی کہ لوگ ان کی دوائیں لے کر خود کو صحت مند سمجھنے لگتے تھے۔ جب ذرا آگے بڑھیں تو ایک ٹیبل پر نکلے ہوئے دانت رکھے ہوتے تھے اور دندان ساز یا تو کسی کا دانت نکال رہا ہوتا تھا یا اس انتظار میں ہوتا تھا کہ کوئی آئے اور وہ اس کو اپنی پوری مہارت دکھائے۔ بازار میں آگے چلیں تو ایک مجمع اور نظر آئے گا. اس مجمعے میں تقریر کرنے والا ایک استاد ہوتا تھا اور ایک اس کا شاگرد ہوتا تھا۔ استاد فن تقریر میں ماہر ہوتا تھا،۔ جب کافی مجمع اکٹھا ہو جاتا تھا تو وہ اپنے شاگرد کو جسے وہ ”جمہورا‘‘ کہہ کر خطاب کرتا تھا۔ اسے زمین پر لٹا کر اوپر سے چادر ڈال دیتا تھا اور پھر مجمعے سے کہتا تھا کہ جمہورے سے سوالات کریں۔ لوگ ہر قسم کے سوالات کرتے تھے اور جمہورا ان کے جوابات دیتا تھا جسے لوگ مطمئن بھی ہو جاتے تھے۔ جب سوالات کا سلسلہ ختم ہو جاتا تھا تو وہ ٹوپی لے کر مجمعے کا ایک چکر لگاتا تھا تاکہ لوگ اس کی محنت کا معاوضہ دیں

اس کے علاوہ بازار میں لوگوں کی تفریح کے لیے کئی کھیل تماشے ہوتے تھے۔ کہیں کٹھ پتلیوں کے ذریعے کہانیاں بیان کی جاتی تھیں اور کہیں ریچھ اور بندر قلابازیاں کھا کر لوگوں کو ہنساتے تھے۔ اس کے علاوہ بازاری کلچر کی اور بھی خصوصیات تھیں۔ کہیں جوگی دھونی دے کر دوکانوں کے کاروبار میں اضافہ کرنا چاہتا تھا تو کہیں فقیر گانے اور غزلیں گا کر اپنی جانب لوگوں کو متوجہ کرتے تھے

لیکن وقت کے ساتھ بازار کا یہ کلچر بدلتا گیا۔ لوگوں کی تفریح کے لیے تھیٹر، موسیقی کے ادارے، سرکس، داستان گوئی اور دوسرے کھیل تماشوں نے بازار سے علیحدہ ہو کر اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنا شروع کیا

پھر بازار کی شکل اس وقت بدلنا شروع ہوئی جب معاشرے میں سرمایہ دار طبقہ پیدا ہوا۔ لہٰذا انہوں نے بازار کے پرانے کلچر کو بدل کر نئے کلچر کی ابتداء کی جس میں ان کی شمولیت بھی تھی۔ بڑے بڑے شوپنگ سنٹر کھولے گئے جہاں مقامی اور غیر ملکی اشیاء کی بہتات ہوتی ہے۔ عام آدمی یہاں جا تو سکتا ہے مگر Window Shopping کے علاوہ اس میں خریداری کی استطاعت نہیں ہوتی ہے۔ بازار جو کسی زمانے میں عام لوگوں کی تفریح کا مرکز ہوا کرتے تھے، وہ سلسلہ ختم ہوا۔ لیکن سوسائٹی اب بھی اشرافیہ اور بازاری کلچر کے درمیان بٹی ہوئی ہے

بازاری کلچر ختم ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سستی تفریح مل جاتی تھی اس کے مواقع اب نہیں رہے۔ اب بازاری کلچر بھی دن بہ دن پسماندہ ہوتا چلا جارہا ہے کیونکہ اب نہ یہاں مجمعہ لگانے والے نہ لچھے دار تقریر کرنے والے اور نہ ہی لوگوں کو متاثر کرنے والے۔ اب بازار کی زبان بھی وقت کے ساتھ بدل گئی ہے۔ بازار جو کبھی ایک کلچر سنٹر تھا اب وہ خالص تجارت گاہ بن گیا ہے

وقت کے ساتھ نہ صرف انسان کی عادتیں بدلتی ہیں بلکہ اس کے رویے اور رحجانات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close