سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط22)

شہزاد احمد حمید

ہم اسکردو پہنچے ہیں۔ اس کی اہمیت کے ٹو چوٹی کو سر کرنے کی خواہش لئے دنیا بھر سے آنے والے کوہ پیماؤں یا دلکش جنت نظیر شنگریلا جھیل کی بدولت ہے۔ اسے تبت خورد بھی کہتے ہیں۔ پہاڑوں کے بیچ پیالہ نما جگہ، ماضی کی یہ اہم بستی بلتستان کا صدر مقام اور آج کا بڑا شہر ہے، جو سیاحتی جنکشن بن چکا ہے۔ میں سیدھا اس فوجی ڈاک بنگلہ پہنچا ہوں جہاں میرے نین، نین سے ملنے، اسے گلے لگانے کو بے چین ہیں۔ اسے دیکھتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکلا؛ ”میں آج ایک ماہ بعد خود سے مل رہا ہوں“ اور اسے گلے لگا لیا ہے۔ بہت زور سے بہت محبت سے۔۔ ہم تب تک یونہی گلے لگے رہے، جب باس کی آواز نہ آئی؛ ”میاں! بہت ہو گیا۔“ اس سے مل کر میرے جسم و جان میں خوشی چمک اور دمک کی لہر اتر آئی ہے۔ اس کا معصوم چہرہ، کھلتا ہوا گورا رنگ، کندھوں سے نیچے لٹکتی سنہری ناگن زلفیں، بل کھاتی کمر، چمک دار مگر دیکھنے والے کو خیرہ کر دینے والی آنکھیں۔ حسن اور شائستگی کا امتزاج۔ کبھی سنجیدہ اور رنجیدہ تھیں، اب چلبلی ہیں۔ پہاڑوں پر جانا، بارش میں بدن بھگونا، اچھی خوشبو لگانا، عمدہ لباس پہننا اسے پسند ہے۔ زندگی سے بھر پور بھی مگر زندگی سے دور بھی۔کبھی نین نے زندگی کسی کے سپرد کی تھی، آج زندگی خود اس کی محتاج ہے۔

میں اپنے دوست سندھو کی آواز پر پھر سے متوجہ ہوا ہوں۔ ”جان یار! کچھ سکردو کے بارے سنو۔ سکردو بھی کمال جگہ ہے۔ سطح سمندر سے ساڑھے سات ہزار (7500) فٹ یا دوہزار دو سو چھبیس،(2226) میٹر بلند 20 میل لمبی اور 8 میل چوڑی وادی، گرمیوں میں سخت گرم، سردیوں میں شدید سرد۔ آسمان سے باتیں کرتے سترہ، اٹھارہ ہزار فٹ اونچے پہاڑ اسے گھیرے ہیں۔ اس کے قرب و جوار میں دنیا کی خوبصورت ترین جھیلیں ہیں جن میں دنیا کی جنت ’شنگریلا‘، پہاڑوں کا آئینہ ’سد پارہ‘ جس کے شفاف پانی میں پہاڑ اپنی چوٹی پر گری برف کا عکس دیکھ کر اپنی خوبصورتی پہ ناز کرتے ہیں۔ سد پارہ گاؤں سے ہی جیپ ایبل سڑک برفیلے پہاڑوں میں گھرے سطح سمندر سے اوسطاً 13سے 14 ہزار فٹ بلند دیو سائی (دیو جیسا بڑا) میدان کو جاتی ہے۔ آٹھ سو بیالیس (842) کلو میٹر پر پھیلے دیوسائی نیشنل پارک کا قیام چیف کمشنر گلگت بلتستان محترم شکیل درانی (بعد میں چیئرمین واپڈا بھی رہے) کے دور میں عمل میں آیا۔ جولائی اگست کے مہینوں میں اس میدان کی خوبصورتی جوبن پر ہوتی ہے، جب اس میدان کے سبزے میں کئی رنگ کے پھول کھل اٹھتے ہیں۔ ٹھنڈی مہکتی پون برفیلی چوٹیوں سے ٹکراتی ماحول کو درخشندہ کر دیتی ہے۔ ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے حصے کی خوبصورتی کیمروں میں محفوظ کر کے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہاں کا موسم، جھیلوں کی خوبصورتی، مچلتے ندی نالوں کا جل ترنگ ان کے دل و دماغ میں سمو جاتا ہے۔ سیٹی بجاتی ہوا کو شاید یہاں آئے سیاح کبھی بھلا پائیں۔ البتہ اس میدان میں سفر کرنا آسان نہیں۔ ٹیڑا میڑا پتھریلا راستہ انسانی ہمت اور جیپ کا کڑا امتحان ہے۔ کہتے ہیں سابق وزیر اعظم عمران خاں کا بھی کبھی یہ پسندیدہ مقام رہا ہے۔ اس میدان کے نباتات اور حیوانات اس کی خوبصورتی میں کئی گنا اضافہ کرتے ہیں

”دیو سائی کے چھوٹے اور بڑے پانی سے دو دریا دریائے شنگو اور دریائے شی گر پھوٹتے ہیں۔ شی گر شنگو میں مل کر بھارت میں داخل ہوتا ہے وہاں یہ سورو ریور کہلاتا ہے۔ کارگل کے گاؤں خاکسار کے قریب دریائے دراس سندھو میں ملتا ہے دریائے دراس زولوجی پاس کے پہاڑوں سے نکلتا ہندوستان کا چکر لگا کر اولڈنگ کے قریب پاکستان میں داخل ہو تا ہے۔ پاکستان میں داخل ہو کر یہ شنگو ہی کہلاتا ہے اور مرول ٹاپ پر مجھ میں گرتا ہے۔ کیا تمہارے علم میں ہے کہ اس خطے میں کئی دریا ہیں جو پاکستان میں جنم لے کر بھارت داخل ہوتے ہیں، وہاں کی ندیوں، نالوں دریاؤں کا پانی خود میں شامل کر کے گھوم کر دوبارہ کسی اور مقام سے پاکستان میں داخل ہو کر سندھو میں ہی گرتے ہیں۔ ان میں شنگو اور شیوک قابل ذکر ہیں۔“

وہ داستان سناتا چلا جا رہا ہے اور اس خطے کے راز کھولتا جا رہا ہے؛ ”میں سکردو شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا پرسکون انداز میں بہتا ہوں۔ سکردو بلتستان کا مصروف شہر ہے اور مجھ (سندھو) سے تقریباً سو (100) فٹ کی بلندی پر آباد ہے۔ وادی میں میرے کنارے کے ساتھ ساتھ تا حد نظر کہیں ریت بچھی ہے تو کہیں سر سبز کھیت اور کہیں درختوں کے بیلے ہیں۔ مجھ پر بنے سسپنشن برج (جھومتے پل) کے قریب وسیع مصنوعی جنگل بھی اگایا گیا ہے۔ اب پرانے جھومتے پل کی جگہ جدید پل تعمیر کر دیا گیا ہے، جس سے دو طرفہ ٹریفک گزرتی ہے۔ دکھ کی بات ہے پرانے پل کی کوئی یاد بھی نہیں چھوڑی ہے۔ میں ریتلے کناروں کے بیچ سے سردیوں میں سبز اور گرمیوں میں دھندلاتی ہوئی چاندی جیسے مٹیالے رنگ میں سانپ کی طرح بل کھاتا لہروں کی طرح بکھری ریت میں بہتا اس تنہا اداس کھڑی چٹان کو چھوتا ہوں، جس کی چوٹی پر کھرپوچوئے (بادشاہ کا قدیم محل) اکیلا ہی کھڑا ہے جبکہ دور میرا شمالی کنارا آسمان میں دھنسے خشک پہاڑوں سے ٹکراتا ہے۔ جنوبی کنارے پر پاکستان ائیر فورس کا صدیقی ائیر بیس اور گمبا ائیر پورٹ ہے۔ گمبا کے ایک حصے سے دن میں کئی بار ہیلی کاپٹر فضا میں بلند ہوتے فوجیوں اور ساز و سامان دنیا کے سب سے اونچے محاذ سیاچن لاتے لے جاتے ہیں۔ اسی گمبا بیس کی بیرونی دیوار کو چھوتی جدید زمانے کی جدیدسڑک قدیم ترین سکردوکو مہذب دنیا سے ملاتی ہے۔ ان ہیبت ناک پہاڑوں کو دیکھ کر یہ کہنا ممکن نہیں کہ کوئی دریا ان میں سے راستہ بھی بنا سکتا ہے۔۔

”ایک اور بات سنو دوست! گلگت بلتستان میں قبل از اسلام کی دعائیہ رسم ’شاپ‘ بھی بحال ہو گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس رسم کو ختم کر دیا گیا تھا لیکن یہاں کی ثقافتی تنظیمیں اس رسم کی بحالی کے لئے کوشاں تھیں اور اپنی اس کوشش میں کامیاب ٹھہری ہیں۔ یہ رسم اس علاقے کی محبت اور بھائی چارے کی عکاس ہے۔ سردیوں کے آغاز میں منعقد ہونے والی اس رسم میں نوجوان ٹولیوں کی صورت گھر گھر جاتے ہیں اور اہل خانہ سے مل کر خیر و برکت کی دعا مانگتے ہیں۔ یہ رسم دراصل دعائیہ کلمات ہیں کہ سردی کا موسم خیریت سے گزرے۔ میزبان تفریح فراہم کرنے والوں کے لئے موسیقی اور روایتی رقص کا اہتمام کرتے ہیں اور شاپ ادا کرنے والوں کو اپنی حیثیت کے مطابق نقدی بھی دیتے ہیں۔ یہ آپس میں ان لوگوں کے پیار محبت کا اظہار ہے

”یونانی تاریخ دان ٹالمی سے لے کر ہیروڈوس تک نے میرا (سندھو) کا ذکر کیا ہے۔ فارس کی تاریخ بھی میرے تذکرے سے غافل نہیں رہی۔ اشوک اعظم سے لے کر مغل اعظم تک کے ادوار بھی اس خطے سے چشم پوشی نہ کر سکے۔یہاں بسنے والے لوگ مختلف خطوں سے آئے لیکن بلتی اکثریت میں ہیں۔ درمیانہ قد، چھوٹی آنکھیں، لمبوترا چہرہ، رخساروں کی ابھری ہڈیاں، چہرے پر داڑھی۔ بلتستان واسی جفاکش، محنتی، سادہ، معصوم اور کھرے لوگ ہیں۔ یہاں کے کوزہ گر عمدہ کوزہ گری کرتے ہیں۔ خواتین عمدہ پٹو تیار کرتی ہیں۔ مرد شکار کرنے، پولو کھیلنے اور دیکھنے کے شوقین ہیں۔ ہیبت ناک چٹیل پہاڑوں اور سنگلاخ سر زمین میں کئی اقسام کے خوش ذائقہ سیب، خوبانیاں، چیری، میوے اور قیمتی پتھر پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ نے ان پہاڑوں کو کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے، آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔ اس شہر میں قدیم دور کی روایات جدید انداز میں ڈھلنے لگی ہیں۔ جن راستوں پر کبھی گھوڑے اور خچر چلتے تھے، اب وہاں شور مچاتی جاپانی گاڑیاں، پاکستانی موٹر سائیکل اور چینی چنگ چی رکشے دوڑتے ہیں۔ شہر کاسکون ان گاڑیوں کے شور اور ماحول ان کے دھوئیں سے آلودہ ہو گیا ہے۔ اسکردو بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ 2009ء میں گلگت بلتستان پر مشتمل خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دیا گیا۔ اب یہاں کی اپنی اسمبلی ہے، اپنی منتخب حکومت اور اپنی ہائی کورٹ ہے۔ اسکردو کی روایات میں قدیم رسومات اور جدید پولو شامل ہیں۔ قدیم رسومات میں جدید زمانے کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔ کیبل اور ڈش انٹینا یہاں کی خالص ثقافت، معصومیت، سادگی اور خلوص کو اپنے رنگ میں رنگنے لگے ہیں۔ کبھی یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا تھا۔ کھرمنگ بھی ریاست تھی، اسکردو بھی، شگر بھی، خپلو، ہنزہ بھی، نگر بھی اور کریس بھی۔ ان ریاستوں میں بعض کے راجے اور ان کی اولادیں آج بھی زندہ ہیں لیکن گزری عظمت کی مٹتی نشانیوں کی طرح۔۔ سدا بادشاہی صرف اللہ کی ہے۔ ان کے محلات میں آغا خاں فاؤنڈیشن نے سیاحوں کے لئے ہوٹل بنا دئیے ہیں۔ پیسے نے روایات کو خرید لیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت، پیسہ۔۔ بلتستان کا خطہ اپنی روایات کی نگہبانی کرتے کرتے بڑا ہو گیا ہے۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close