نیوزی لینڈ نے ملک میں موجود تین کروڑ ساٹھ لاکھ گائیوں اور بھیڑوں کے جسمانی افعال کے نتیجے میں خارج ہونے والی ان گیسوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے، جو آلودگی کا سبب بن رہی ہیں
اس طرح منگل کو اعلان کردہ یہ پالیسی دنیا کی پہلی پالیسی ہوگی، جس کے تحت گائے کے ڈکار اور بھیڑ کے پیشاب پر ٹیکس لگایا جائے گا
دوسری جانب نیوزی لینڈ کے طاقتور فارمنگ کے شعبے نے فوری طور پر اس تجویز کی مذمت کی ہے
زرعی صنعت کے مرکزی لابی گروپ فیڈریٹڈ فارمرز سے وابستہ کاشت کاروں نے متنبہ کیا کہ اس تجویز سے اندرون ملک خوراک کی پیداوار کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے
کاشت کاروں کا کہنا ہے ”اس منصوبے سے نیوزی لینڈ جیسے چھوٹے ملک کو بری طرح نقصان پہنچے گا اور مویشیوں کے باڑوں کی جگہ درخت لے لیں گے
فیڈریٹڈ فارمرز کے صدر اینڈریو ہوگارڈ کا کہنا تھا کہ مویشی پالنے والے دو سال سے زیادہ عرصے سے حکومت کے ساتھ مل کر گیسوں کے اخراج میں کمی کے ایسے منصوبے پر حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت ’مویشی پالنے والے اپنا کام جاری رکھیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ مجوزہ ٹیکس کی وجہ سے مویشی پانے والے ’اتنی تیزی سے اپنے فارم فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آپ چلتی ہوئی گاڑی کے عقب میں بھونکتے ہوئے کتوں کی آواز تک نہیں سنیں گے۔‘
اس حوالے سے حزب اختلاف کے سیاستدانوں کا استدلال ہے کہ اس طرح کا ٹیکس لگانے کا منصوبہ، فارمز کی کم خوراک پیدا کرنے والے ملکوں میں منتقلی کی وجہ سے گیسوں کے زیادہ اخراج کا سبب بنے گا
لیکن وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا ہے کہ ٹیکس لگانے سے نیوزی لینڈ کے زرعی شعبے کو تقویت ملے گی، کیونکہ تمام رقم نئی ٹیکنالوجی، صنعتی شعبے میں تحقیق اور کسانوں کو ترغیبی ادائیگیوں پر خرچ کی جائے گی
جیسنڈا آرڈرن نے کہا ”نیوزی لینڈ کے کاشتکار زرعی شعبے میں گیسوں کے اخراج میں کمی اور ہماری سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ کو ایسے مسابقتی فائدے کے لیے ترتیب دینے میں پہل کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ایسی دنیا متعارف کرواتا ہے، جس سے خوراک کے ماخذ کے بارے میں ادراک میں اضافہ ہو رہا ہے“
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی فارمنگ کی صنعت ملکی معیشت میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ صنعت ملک کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں سے تقریباً نصف کی وجہ بھی ہے
اس ملک کی آبادی صرف پچاس لاکھ ہے، لیکن یہاں بڑے گوشت اور ڈیری مصنوعات کے لیے ایک کروڑ کے لگ بھگ مویشی اور دو کروڑ ساٹھ لاکھ بھیڑیں پائی جاتی ہیں
اسی تناظر میں نیوزی لینڈ کی حکومت نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو صفر کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس منصوبے کے تحت یہ عزم بھی شامل ہے کہ باڑوں میں پالے جانے والے مویشیوں کے میتھین گیس کے اخراج میں 2030ع تک دس فی صد اور 2050ع تک سینتالیس فی صد کمی لائی جائے گی۔