اسکرپٹ (افسانہ)

رشید امجد

کھیل انتہائی جذباتی دور میں داخل ہو گیا تھا۔ تماشائی دَم سادھے اپنی اپنی نشستوں پر جمے ہوئے تھے کہ اچانک ایک اداکار اپنی جگہ سے ہٹ کر درمیان میں آ گیا اور ہیجانی کیفیت میں لرزتی آواز میں چیخا:
”میں اپنی مرضی سے کھیل چلاؤں گا اور اپنی پسند کے مکالمے بولوں گا۔“

اسٹیج کے دائیں کونے میں پردے کے پیچھے بیٹھا ڈائریکٹر کھڑا ہوگیا۔۔۔ ”یہ کیا کر رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے!“

لیکن اسی لمحے تماشائیوں نے، جو اسے بھی کھیل کا حصہ سمجھ رہے تھے، مسلسل تالیاں بجا کر اداکار کو خراجِ تحسین پیش کیا

ڈائریکٹر اپنی نشست پر بیٹھ گیا اور اپنے نائب سے کہنے لگا: ”اسکرپٹ میں تو یہ نہیں مگر تماشائیوں نے اسے پسند کیا ہے، اس لیے اسے اسکرپٹ میں شامل کر لو۔“

اسٹیج پر ایک اور بات ہوئی۔ ایک اداکار اپنی جگہ سے اٹھ کر سامنے آیا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے لگا: ”اگر یہ اپنی مرضی کے مکالمے بولے گا تو میں اس کھیل سے علیحدہ ہوتا ہوں۔“

پھر وہ اسٹیج سے اترا اور درمیانی راستے پر دوڑتا ہوا ہال سے نکل گیا۔ تماشائی اسے بھی کھیل کا حصہ سمجھے۔ یہ مکالمہ اور عمل انھیں کچھ زیادہ ہی پسند آئے۔ دیر تک تالیاں بجتی رہیں

ڈائریکٹر جو پھر اپنی نشست سے اٹھ بیٹھا تھا، بیٹھ گیا اور اپنے نائب سے کہنے لگا: ”اسے بھی اسکرپٹ میں شامل کرلو۔“

اب اسٹیج پوری طرح ڈائریکٹر کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔ اداکار اپنے اپنے مکالمے بول رہے تھے۔ تماشائیوں کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ کھیل کی کیا صورت بن رہی ہے۔ تماشائیوں میں دفعتاً ایک شخص اٹھا اور اسٹیج پر چڑھ گیا۔ اس نے اسٹیج پر موجود اداکاروں کو، جو اپنے مکالمے بھول کر یا جان بوجھ کر دوسری باتیں کر رہے تھے، ہاتھ کے اشارے سے ایک طرف ہٹا دیا۔ اداکار اسٹیج کے ایک کونے میں سمٹ گئے۔ اسے بھی کھیل کا حصہ سمجھا گیا۔ تالیاں بجیں۔ تالیوں کے شور میں نئے شخص نے اعلان کیا: ”کھیل وہیں سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے گڑبڑ ہوئی تھی۔“

اسٹیج کے پیچھے ڈائریکٹر نے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا، نائب نے پوچھا: ”سر اسے بھی اسکرپٹ میں شامل کر لوں؟“

اسٹیج پر اب یہ بحث شروع ہوگئی کہ گڑ بڑ کہاں سے ہوئی تھی، نو وارد نے جسے اب اداکار تسلیم کرلیا گیا تھا، پوچھا: ”سب سے پہلے کس نے اسکرپٹ سے بے وفائی کی۔“

متعدد آوازیں، متعدد اشارے۔۔
بحث شروع ہو گئی۔ تماشائی تالیاں بجاتے رہے، ایک اداکار جھنجلا کر بولا: ”یہ کیسے تماشائی ہیں، جنہیں پتا ہی نہیں چل رہا کہ کھیل اسکرپٹ سے باہر ہو گیا ہے۔“

اسٹیج پر اب باقاعدہ جھگڑے کی صورت پیدا ہو گئی تھی۔ آدھے اِدھر کہ کھیل اسکرپٹ کے اندر ہے اور آدھے اُدھر کہ کھیل اسکرپٹ سے نکل گیا ہے۔۔

ایک ادھیڑ عمر کا اداکار بولا: ”جو بھی ہے، کھیل تو ہو رہا ہے اور تماشائی اسے پسند بھی کر رہے ہیں۔“

ایک نوجوان اداکار نے غصے سے سر ہلایا، ”مسئلہ کھیل کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں، اسکرپٹ کا ہے۔۔۔ اسکرپٹ ہے کہاں۔“

”ڈائریکٹر کے پاس“ ایک دوسری اداکارہ بولی

ڈائریکٹر جو ماتھے پر ہاتھ رکھے اپنے آپ میں گم تھا، بار بار اپنا نام سن کر چونکا۔

”اسکرپٹ لاؤ۔۔۔ اسکرپٹ لاؤ۔“ چھوٹے بڑے سب اداکار چیخ رہے تھے۔

”اسکرپٹ کیا لاؤں“ ڈائرکٹر کا نائب بولا، ”اس میں اتنی تبدیلیاں ہوچکی ہیں کہ۔۔۔ “

تماشائیوں نے اس پر بھی خوب تالیاں بجائیں۔

”جب ان کو اسکرپٹ کی اہمیت ہی نہیں معلوم“ ایک اداکار نے دوسرے سے کہا، ”تو اسکرپٹ کے بغیر ہی چلو۔“

”لیکن کب تک“ دوسرے نے تشویش سے پوچھا

”جب تک چلے“ پہلے نے جواب دیا۔

کھیل شروع ہو گیا ہے۔ تماشائی ہر تبدیلی پر تالیاں بجاتے، خوش ہو رہے ہیں۔ کھیل چلانے والے مطمئن ہو کر کھیل چلا رہے ہیں۔ ڈائریکٹر اپنی جگہ سے اٹھ کر تماشائیوں میں آ بیٹھا ہے۔ کھیل چل رہا ہے۔۔۔ جب تک چلے۔

رشید امجد کے افسانوں کے مجموعے ’گملے میں اگا ہوا شہر‘ سے ماخوذ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close