پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اپنے سینیئر رہنما اعتزاز احسن کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ سینئر رہنما عمران خان کے جمہوریت مخالف ایجنڈے کا حصہ بن چکے ہیں
پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کے بیان کو ’جمہوریت کے لیے خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”وہ عمران خان کی سازش کا مکمل حصہ بن چکے ہیں“
دوسری جانب اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ جمہوریت شریف خاندان سے جڑی ہوئی نہیں ہے، میں اپنے بیان پر قائم ہوں
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن آج کل پھر خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ ان کا حال ہی میں دیا جانے والا بیان ہے، جس میں انہوں نے مریم نواز کے بری ہونے پر سسٹم کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا
اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو بری کرنے کا فیصلہ ایک مذاق ہے
منگل کے روز بیرسٹر اعتزاز احسن نے لاہور ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے شریف خاندان کی ان کے خلاف چل رہے کرپشن کے عدالتی مقدمات سے بری ہونے میں مدد کی
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے ایک واضح حوالہ دیتے ہوئے سینئر وکیل کا کہنا تھا ”باجوہ صاحب نے انہیں (شریف خاندان) کو مقدمات میں سزا سے بچایا ہے اور انہوں نے بڑا جرم کیا ہے۔“
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کے خلاف مقدمات ایسے ہیں، جیسے تلی پر لکھے ہوئے ہوں اور ان کی سزا واضح ہے
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو پاکستان میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا
دوسری جانب آرمی چیف کے حوالے سے اسی طرح کی ایک ٹویٹ کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما سینیٹر اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا ہے
اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا ’باجوہ صاحب، آپ کو اور آپ کے کچھ لوگوں کو مبارکباد، آپ کا منصوبہ واقعی کام کر رہا ہے اور ملک کی قیمت پر تمام مجرم آزاد ہو رہے ہیں، ان ٹھگوں کی آزادی سے، آپ نے کرپشن کو جائز قرار دے دیا، اب آپ اس ملک کے مستقبل کی کیا پیش گوئی کرتے ہیں؟‘
اپنی گفتگو میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے لانگ مارچ کے امکان کے بارے میں ایک سوال پر اعتزاز احسن نے کہا کہ پاکستان میں ماضی کے علاوہ کوئی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چند ماہ قبل کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی اور نواز شریف ملک پر حکومت کریں گے، پاکستان میں کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی
انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری واحد سیاستدان ہیں جو ملک میں اصولوں اور شرافت کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں
ان کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی ملی، خاص طور پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس بیان کو بہت زیادہ شیئر کیا۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی چوہدری اعتزاز احسن کے بیان سے نالاں نظر آتی ہے۔ پارٹی کی جانب سے ان کے اس بیان کو جمہوریت کے لیے خطرہ بھی قرار دیا ہے
اپنے اس بیان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا ہے ”جہاں تک سیاست کا تعلق ہے، میں پیپلز پارٹی سے ہوں پیپلز پارٹی میں ہی رہوں گا۔ جب پارٹی مجھے سے جواب مانگے گی تو جواب دے دوں گا۔ میں اپنے بیان پر قائم ہوں اور یہ میرے دل کی آواز ہے“
اعتزاز کے بیان پر پیپلز پارٹی کا ردعمل
پی پی پی پنجاب کے قائم مقام صدر رانا فاروق سعید نے اعتزاز احسن کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے 1970 کی دہائی سے اب تک اعتزاز احسن کی جانب سے پارٹی کے خلاف کیے گئے اقدامات کی فہرست دی
پی پی پی پنجاب کے قائم مقام صدر رانا فاروق سعید نے بدھ کو پریس کانفرنس میں کہا کہ اعتزاز احسن یہ کہہ کر ملک میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی عمران خان کی سازش کا مکمل حصہ بن چکے ہیں کہ ’آرمی چیف نے شریف خاندان کو مقدمات میں سزا سے بچایا ہے‘
رانا فاروق سعید نے ایک دن پہلے میڈیا سے گفتگو میں اعتزاز احسن کی طرف سے لگائے گئے الزام کا جواب دیتے ہوئے جنرل باجوہ کا نام نہیں لیا
پریس کانفرنس کے لیے میڈیا کو دی گئی دعوت میں تاہم یہ ذکر کیا گیا تھا کہ یہ جنرل باجوہ اور قومی احتساب بیورو کے بارے میں اعتزاز احسن کے بیان کے بارے میں ہوگی
رانا فاروق سعید نے کہا کہ پی پی پی کے سابق سینیٹر ایک طویل عرصے سے عمران خان کی پُرفریب سیاست کا دفاع کر رہے ہیں، جبکہ پی پی پی کی قیادت اور پالیسیوں کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ جب نیب نے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو گرفتار کیا اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے خلاف ‘جھوٹے’ مقدمات درج کرائے تو اعتزاز احسن نے خاموش رہ کر عمران خان کی سیاسی انجینئرنگ کی حمایت کی
انہوں نے الزام عائد کیا کہ اعتزاز احسن کا ماضی ثابت کرتا ہے کہ وہ ہر دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی انجینئرنگ کا حصہ رہے اور انہوں نے سیاست کو صرف پیسہ کمانے اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا
پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنما رانا فاروق سعید نے کہا کہ 1977ع میں جب ذوالفقار علی بھٹو اور پی پی پی مشکل میں تھے، تو انہوں نے پارٹی کو چھوڑ دیا اور اس کی سیاسی حریف تحریک استقلال میں شامل ہوگئے جبکہ 08-2007 میں وہ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے
رانا فاروق سعید نے کہا کہ عمران خان کی حمایت میں اعتزاز احسن کے مسلسل بیانات پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ناراض کر رہے ہیں، وہ انہیں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے ہٹانے اور پارٹی رکنیت بھی منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے میں صوبے بھر کے کارکنوں کی امنگوں اور مطالبات کی ترجمانی کر رہا ہوں، ہم بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اعتزاز احسن کو سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے نکالا جائے اور ان کی بنیادی رکنیت معطل کی جائے
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کارکنان عمران خان کی حمایت کرنے پر بطور احتجاج اعتزاز احسن کی زمان پارک رہائش گاہ کا محاصرہ کرنا چاہتے تھے اور اس مطالبے پر صوبائی قیادت کو فیصلہ کرنا چاہیے
پیپلز پارٹی کا رد عمل اپنی جگہ لیکن چوہدری اعتزاز احسن کا شمار ان چند چوٹی کے رہنماؤں میں ہوتا ہے، جو بیک وقت وکیل، سیاستدان، ادیب اور شاعر بھی ہیں
انہوں نے شروع سے ہی پیپلزپارٹی کی سیاست کی اور پارٹی ان پر یہ الزام عائد کرتی ہے کہ ’1977 میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلی اور پیپلز پارٹی مشکل میں آئی تو اعتزاز احسن پیپلز پارٹی چھوڑ کر اصغر خان کی تحریک استقلال میں چلے گئے اور پارٹی کے خلاف کئی برس کام کیا۔‘
پیپلز پارٹی اور چوہدری اعتزاز کے درمیان دوسری مرتبہ دوری 2007ع میں اس وقت ہوئی، جب وہ وکلا تحریک کے سرخیل تھے اور اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کروانے کی مہم میں پیش پیش تھے
تب انہوں نے نواز شریف کے ساتھ مل کر پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف 2008 میں لانگ مارچ کیا اور نواز شریف کے وکیل کی حیثیت سے بھی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے
اس دوران وہ پیپلز پارٹی سے دور ہو گئے لیکن بعد ازاں دوبارہ صلح ہوئی اور وہ اس وقت بھی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا حصہ ہیں
دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن کا گھر لاہور میں زمان پارک میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے پڑوس میں واقع ہے
سیاسی مبصرین کے مطابق اعتزاز احسن نے ہمیشہ اپنی مرضی کی سیاست کی ہے اور وہ ایسے سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں، جو پارٹی میں رہتے ہوئے الگ شناخت قائم رکھتے ہیں۔ اس طرح کی دوسری مثال جاوید ہاشمی ہیں۔
آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ پر پی ٹی آئی سینیٹر اعظم خان سواتی گرفتار
دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا گیا
سابق وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کو آج رات ایف آئی اے سائبر کرائم سیل نے ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا
ایف آئی اے کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کو آرمی چیف سمیت ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور دھمکی آمیز ٹوئٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا
سینیٹر اعظم سواتی کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ میں آرمی چیف کا نام لیا گیا جب کہ یہ ٹوئٹ گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے منی لانڈرنگ کیس میں بری ہونے کے بعد کی گئی تھی
ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ’باجوہ صاحب، آپ کو اور آپ کے کچھ لوگوں کو مبارکباد، آپ کا منصوبہ واقعی کام کر رہا ہے اور ملک کی قیمت پر تمام مجرم آزاد ہو رہے ہیں، ان ٹھگوں کی آزادی سے، آپ نے کرپشن کو جائز قرار دے دیا، اب آپ اس ملک کے مستقبل کی کیا پیش گوئی کرتے ہیں؟‘
سینیٹر اعظم سواتی کو اسلام آباد ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ کے سینئر سول جج شبیر بھٹی کی عدالت میں پیش کیا گیا
اعظم سواتی کی جانب سے بابر اعوان، سردار مصروف خان اور قیصر جدون عدالت میں پیش ہوئے
سابق وفاقی وزیر کے وکلا نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ صرف سیاسی بنیادوں پر اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا ہے، اعظم سواتی پر رات گئے بدترین تشدد کیا گیا
دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ اعظم سواتی کو گزشتہ رات ایف آئی اے سائبر کرائم سیل نے گرفتار کیا، ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی
عدالت نے اپنا محفوظ فیصلہ سنایا جس کے مطابق اعظم سواتی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا
اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ
پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے، مقدمہ ایف آئی اے کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ کی مدعیت میں انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ 216 کی دفعات کے تحت 13 اکتوبر کی رات ایک بجے درج کیا گیا
سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20، 131، 500، 505، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109 کے تحت درج کیا گیا ہے
مقدمے کے متن کے مطابق اعظم سواتی نے بدنیتی پر مبنی اور غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے انتہائی تضحیک آمیز ٹوئٹ کیا، اعظم سواتی نے ریاست پاکستان، ریاستی اداروں اور چیف آف آرمی اسٹاف کو براہ راست نشانہ بنایا
مقدمے کے مطابق ایف آئی اے کے مقدمے میں اعظم سواتی کے متنازع ٹوئٹ کا متن بھی شامل کیا گیا ہے، متن کے مطابق اعظم سواتی کا ٹوئٹر بیان افواج پاکستان میں تقسیم پھیلانے کی گھناؤنی سازش ہے
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ملکی عدالتوں کو نشانہ بنایا، اعظم سواتی نے غلط معلومات پھیلا کر عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی، ان کے ٹوئٹ سے عوام میں خوف اور دہشت کی فضا پیدا ہوئی
مجھے ایک ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا، اعظم سواتی
عدالت میں پیشی کے دوران غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ انہوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، انسانی حقوق اور آئین کی خلاف ورزی نہیں کی
انہوں نے کہا کہ مجھے ایف آئی اے نے گرفتار کیا، کپڑے پھاڑے گئے ہیں پارلیمنٹیرین کے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے ایک ٹوئٹ کرنے اور ایک نام لینے پر گرفتار کیا گیا، مجھ پر تشدد کیا گیا
قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سینئر رہنما بابر اعوان نے سابق وفاقی وزیر اعظم سواتی کو گرفتار کیے جانے کی تصدیق کی
بابر اعوان کے مطابق اعظم سواتی کو رات 3 بجے ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا، انہوں نے بتایا کہ گھر پر چھاپہ مارنے والے لوگوں نے خود کو ایف آئی اے کا اہلکار ظاہر کیا
ان کا کہنا تھا کہ میں قوم اور پی ٹی آئی کی جانب سے اس گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں، اعظم سواتی پی ٹی آئی سے ہی تعلق رکھنے والے دوسرے سینیٹر ہیں جنہیں اٹھایا گیا ہے، اس سے قبل سینیٹر سیف اللہ نیازی کو بھی اسمبلی کے احاطے سے حراست میں لیا گیا تھا
بابر اعوان نے کہا کہ جب سیف اللہ نیازی کو حراست میں لیا گیا تو اس پر بھی پارلیمنٹ غیر مؤثر رہی، اس پر کوئی کردار ادا نہیں کیا گیا، ہم نے بطور اپوزیشن اپنا کردار ادا کیا
انہوں نے کہا کہ ایک سینیٹر کے اغوا، اٹھائے جانے اور غیر قانونی حراست پر کچھ نہیں ہوا، دوسرے سینیٹر کے اغوا، اٹھائے جانے اور غیر قانونی حراست پر بھی کچھ نہیں ہوا تو کہیں کسی دن ایسا نہ ہو کہ پتا چلے کہ چیئرمین سینیٹ بھی گمشدہ افراد کی فہرست میں چلے گئے ہیں
بابر اعوان نے کہا کہ سینیٹ ہاؤس آف فیڈریشن ہے، اس میں تمام صوبوں کی مساوی اکثریت ہے، جتنے سینیٹرز زیادہ آبادی والے صوبے کے ہیں اتنے ہی سینیٹرز کم آبادی والے صوبے کے بھی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں اس وقت پاکستان کی سرزمین بے آئین ہے اور جو آدھی رات کے گیدڑ ہیں وہ وقت آنے پر بھاگ جاتے ہیں، پھر ان کو معافی ملتی ہے، پھر ان کو این آر او ملتا ہے اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی نہ کسی چیز پر چڑھ کر آئیں گے، بے شک وہ سرکاری جہاز ہی کیوں نہ ہو
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان سمیت دگیر سینئر رہنماؤں نے سینیٹر اعظم سواتی کی گرفتاری پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے
اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے موقع پر عمران خان سے اعظم سواتی کی گرفتاری سے متعلق سوال کیا گیا جس پر عمران خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’بنانا ری پبلک بنادیا ہے، شرم آنی چاہیے‘
صحافی نے سابق وزیر اعظم سے سوال کیا کہ اعظم سواتی صاحب نے کہا ہے کہ ان کے کپڑے اتارے گئے، ان پر تشدد کیا گیا ، اس پر آپ کیا کہیں گے جس پر عمران خان نے کہا کہ اس سے بڑی شرم کی اور کیا بات ہوگی، یہ کوئی بنانا ریپلک ہے ، شرم آنی چاہیے ایسا کرنے والوں کو‘
سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ ’سینیٹر اعظم سواتی کی گرفتاری اور پھر انہیں ننگا کر کے مارنا، وہ ایک بزرگ ہیں، نانا اور دادا ہیں، ایک لمحے کو سوچیں ان کی فیملی پر کیا گزر رہی ہوگی؟‘
انہوں نے کہا ’ہمیں پتا ہے ہم آپ سے کمزور ہیں کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے آپ سے استدعا ہے کہ مجھ سمیت پارٹی کے کسی جوان کو پکڑ لیں لیکن بزرگ کو ننگا نہ کریں‘
پی ٹی آئی حکومت میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اعظم سواتی کی ایک وڈیو شیئر کی، جس میں ان کی جانب سے خود پر تشدد کا الزام لگایا گیا
اپنے ٹوئٹ میں شیری مزاری نے لکھا کہ بہادر آدمی سینیٹر اعظم سواتی کی گرفتاری اور ان پر تشدد شرمناک ہے۔