بالآخر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی دو دھڑوں میں بٹ گئی، خوشحال کاکڑ باغی دھڑے کے سربراہ

ویب ڈیسک

طویل عرصے سے چلتے اختلافات بالآخر پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دو دھڑوں میں بٹنے پر منتج ہو گئے اور محمود خان اچکزئی کے مد مقابل باغی گروپ نے اٹھائیس سالہ خوشحال خان کاکڑ کو پارٹی کا نیا سربراہ منتخب کر لیا ہے، جو پارٹی کے مرحوم رہنماء سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کے بیٹے ہیں

ان کے علاوہ پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری مختیار خان یوسفزئی کو پارٹی کا شریک چیئرمین، سابق سینیٹر رضا محمد رضا سینیئر ڈپٹی چیئرمین اور خورشید کاکا جی سیکریٹری جنرل جبکہ رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے پارٹی کے نئے صوبائی صدر اور فقیر خوشحال صوبائی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ہیں

واضح رہے کہ متذکرہ باغی رہنماؤں کو محمود خان اچکزئی نے اختلافات کے بعد نومبر میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں بغاوت پیدا کرنے کے الزام میں جماعت سے نکالنے کا اعلان کیا تھا

جبکہ پچھلے ہفتے ہی کوئٹہ میں پارٹی کے انتخاب ساز ادارے ’کانگریس‘ کا اجلاس بلا کر محمود خان اچکزئی ایک بار پھر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے

تاہم باغی گروپ نے نئے انتخابات اور محمود خان اچکزئی کو پارٹی کا سربراہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے منگل کو اپنا الگ کانگریس اجلاس طلب کر کے نئے چیئرمین اور عہدے داروں کا انتخاب کر دیا اور اس طرح پارٹی واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی

باغی گروپ کے نومنتخب سینیئر ڈپٹی چیئرمین رضا محمد رضا کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں ہونے والے ’کانگریس‘ کے اجلاس میں صوبے اور ملک بھر سے بارہ ہزار مندوبین اور دو ہزار سے زائد مبصرین نے شرکت کی، جس میں پارٹی کے عہدے داروں کا انتخاب کیا گیا

انہوں نے بتایا ”خوشحال خان کاکڑ کو پارٹی کا مرکزی چیئرمین منتخب کرلیا گیا ہے۔ چونکہ وہ نوجوان ہیں اور زیادہ تجربہ کار نہیں اس لیے ان کے ساتھ پارٹی کے سب سے تجربہ کار رہنماء سابق سیکریٹری جنرل رہنے والے مختیار خان یوسفزئی کو شریک چیئرمین بنایا گیا ہے اور سارے فیصلے دونوں مل کر باہمی مشاورت سے کریں گے“

رضا محمد رضا کا کہنا تھا ”محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں 19 اور 20 دسمبر کو کوئٹہ میں ہونے والا کانگریس کا اجلاس غیر آئینی تھا، محمود خان اچکزئی پارٹی کے اب سربراہ نہیں رہے۔ ہم نے ان کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی درخواست دائر کی ہے“

انہوں نے کہا ”پارٹی دس سالوں سے تنظیمی اور نظریاتی بحران سے دوچار تھی۔ محمود خان اچکزئی پارٹی کے بنیادی قومی اہداف اور افغان دشمن قوتوں کے خلاف پارٹی کے تاریخی بیانیے سے منحرف ہو گئے۔ ایسے حالات میں پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور پارٹی کے اداروں نے کانگریس کا اجلاس بلا کر جمہوری طریقے سے انتخاب لانے کا فیصلہ کیا“

رضا محمد رضا نے کہا کہ ایوب اسٹیڈیم میں جاری کانگریس کا اجلاس آئینی ہے کیونکہ اس کی منظوری پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے گزشتہ ماہ کچلاک میں ہونے والے اجلاس میں دی تھی

باغی گروپ نے پہلی بار خواتین کا باقاعدہ الگ ونگ بھی قائم کیا ہے۔ کانگریس میں پہلی بار خواتین کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ صاحبہ بڑیچ کو پارٹی کی مرکزی سیکریٹری سابق رکن بلوچستان اسمبلی عارفہ صدیق کو مرکزی کمیٹی کی رکن منتخب کیا ہے۔ عثمان خان کاکڑ کی ضعیف والدہ بھی اس اجلاس میں شریک تھیں

خوشحال خان کاکڑ کون ہیں؟

پشتونخوا معپ کے باغی دھڑے کے سربراہ منتخب ہونے والے خوشحال خان کاکڑ نوجوان اور سیاست میں نو آموز ہیں۔ وہ پشتونخوا معپ کے سابق صوبائی صدر سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کے بڑے بیٹے ہیں

انہوں نے جون 2021ع میں اپنے والد کی وفات کے بعد باقاعدہ طور پر سیاسی میدان میں قدم رکھا تھا۔ اس سے پہلے وہ پشتونخوا معپ کے طلباء ونگ پشتون اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ تھے

اٹھائیس سالہ خوشحال خان کاکڑ نے لاہور کے معروف تعلیمی ادارے فارمین کرسچن کالج سے بی ایس اکنامکس پڑھا ہے اور پھر اسلام آباد سے ایکسٹرنل لاء میں ڈگری حاصل کی

خوشحال خان کے والد عثمان خان کاکڑ نے بھی اپنی سیاست کا آغاز پشتونخوا معپ کی طلبہ تنظیم سے کیا تھا اور اپنی وفات تک اسی جماعت سے وابستہ رہے۔ جون 2021ع میں عثمان کاکڑ اپنے گھر میں پراسرار طور پر زخمی پائے گئے تھے اور بعد ازاں دوران علاج چل بسے۔
خوشحال کاکڑ نے والد کی موت غیر طبعی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ’انہیں گھر میں گُھس کر قتل کیا گیا۔‘

خوشحال خان کاکڑ کو والد کی میت کراچی کے ہسپتال سے کوئٹہ اور پھر آبائی علاقے مسلم باغ تک لے جانے والے قافلے کی قیادت کرتے ہوئے زبردست پذیرائی ملی تھی۔ جس کے بعد محمود خان اچکزئی نے انہیں پشتونخوا معپ کا صوبائی سیکریٹری اطلاعات مقرر کیا تھا

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر ایک نظر

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پہلے ’پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی‘ کے نام سے جانی جاتی تھی، جس کی بنیاد 1970ع میں خان عبدالصمد خان اچکزئی نے رکھی۔ عبدالصمد خان اچکزئی 1973ع میں کوئٹہ میں اپنے گھر میں ایک دستی بم حملے میں قتل ہوئے تو ان کے بیٹے محمود خان اچکزئی کو پارٹی کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا

1989ع میں شیر علی باچا کی مزدور کسان پارٹی کے انضمام کے بعد پارٹی کا نام پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی سے تبدیل کرکے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی رکھا گیا

پشتونخوا معپ جماعت بلوچستان کے پشتونوں کے لئے الگ صوبے، پشتونوں کو پاکستان میں بسنے والی دیگر اقوام کے ’مساوی حقوق‘ ، قوموں کے درمیان وسائل کی برابر تقسیم، صوبائی خود مختاری اور افغانستان میں عدم مداخلت جیسے نعروں پر سیاست کرتی ہے

پارٹی میں تقسیم کی وجہ بننے والے اختلافات کیسے پیدا ہوئے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق تقریباً پانچ دہائی پرانی اس جماعت میں تنظیمی، قبائلی اور نظریاتی سطح پر اختلافات گزشتہ ایک عشرے سے موجود تھے، تاہم اس میں شدت 2013ع کے انتخابات کے بعد اُس وقت دیکھی گئی، جب پارٹی کے عہدوں، ٹکٹوں، وزارتوں اور گورنر سمیت دیگر حکومتی عہدوں کی چیئرمین محمود خان اچکزئی کے عزیز و اقارب میں تقسیم پر بعض سینیئر رہنماؤں نے ناراضگی کا اظہار کیا

حالیہ برسوں میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں مذہبی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور افغان طالبان کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی جیسے معاملات پر بھی محمود خان اچکزئی کو پارٹی کے اندر سے تنقید کا سامنا تھا

باغی دھڑے نے محمود خان اچکزئی پر شخصیت پرستی اور پارٹی کو آمرانہ طرز سے چلانے کا بھی الزام لگایا

یہ اختلافات رواں سال نومبر میں اس وقت کھل کر سامنے آئے، جب محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے دو مرکزی سینئر رہنماؤں سیکریٹری اطلاعات سابق سینیٹر رضا محمد رضا اور دو بار صوبائی وزیر رہنے والے عبیداللہ بابت کو پارٹی سے نکال دیا اور انہیں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی اور دھڑے بندی پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا

خیبر پشتونخوا سے تعلق رکھنے والے مرکزی سیکریٹری جنرل مختیار خان یوسفزئی نے محمود خان اچکزئی کے اس عمل کی مخالفت کی اور کہا کہ چیئرمین مرکزی کمیٹی کی منظوری کے بغیر مرکزی عہدے داروں کو پارٹی سے نہیں نکال سکتے

اس کے بعد کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلا کر ان کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔ جس پر محمود خان اچکزئی نے مختیار خان یوسفزئی، خیبر پشتونخوا کی تقریباً پوری پارٹی قیادت، رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے اور درجن سے زائد سینیئر رہنماؤں کو بھی پارٹی سے نکال دیا

پارٹی میں تقسیم کے ممکنہ اثرات

تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ”پشتونخوا معپ کی تقسیم سے پشتون قوم پرست سیاست کو دھچکا لگے گا اور محمود خان اچکزئی کی جماعت کو آئندہ چند ماہ میں ہونے والے انتخابات میں بھی نقصان پہنچے گا جبکہ اس کا فائدہ ان کی مخالف عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان عوامی پارٹی جیسی جماعتوں کو ہوگا“

تجزیہ کار جلال نورزئی کا خیال ہے کہ پشتونخوا معپ کے اندر پہلی بار اس حد تک تقسیم دیکھی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں ”اس سے محمود خان کی جماعت کو سیاسی اور انتخابی میدان میں وقتی نقصان تو ہوگا لیکن مستقبل میں اس پریشانی سے نکل آئے گی“

جلال نورزئی کے بقول ماضی میں جمعیت علماء اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور وفاق کی سطح پر دیکھیں تو پیپلز پارٹی کے اندر اس نوعیت کی تقسیم دکھائی دی تاہم یہ تقسیم اور دھڑے بندی دیرپا ثابت نہیں ہوئی

ان کے بقول: الگ ہونے والے زیادہ تر ایسے دھڑے چند سالوں بعد ہی کمزور ہو گئے، اس لیے سیاسی جماعتوں کے اندر اختلافات، دھڑا بندی اور اکھاڑ پچھاڑ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ نئے دھڑے کے لیے مستقل طور پر خود کو فعال رکھنا بڑا چیلنج ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close