ایک محبت کے بارے میں (افسانہ)

انور سن رائے

ایک قدیم کہانی کو دہرانے کے درمیان مفروض حریف سے لڑتے ہوئے اداکار اس تلوار سے اچانک شدید زخمی ہو گیا، جو صرف اداکار، حریف اور تماشائیوں کے تصور میں تھی۔ اس پر حریف ہی نہیں، تماشائی بھی حیران تھے۔ پسلیوں کے درمیان راستہ بناتی ہوئی تلوار سیدھی اداکار کے سینے میں ایسے اتری تھی، جیسے ایک زمانے سے اس پر واجب الادا ہو۔

اسٹیج کے داہنی جانب بیٹھے تماشائیوں کو تلوار انتہائی واضح طور پر اداکار کی پشت سے باہر نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ انہوں نے حریف کے چہرے پر چند لمحوں کے لیے ابھرنے والی وہی بے یقینی دیکھی، جو ان تماشائیوں میں سے صرف چند ایک ہی کو دکھائی دی، جو بائیں جانب بیٹھے تھے۔ لیکن ان کے حصے میں وہ لمحہ بھی آیا تھا، جب تلوار نے سینے تک پہنچ کر اندر جانے کا راستہ بنایا تھا۔

اس سے پہلے کہ ان کی حیرت اور بے یقینی ختم ہوتی، خون کی کچھ بوندیں ان کے چہروں اور ان صاف ستھرے کپڑوں تک بھی پہنچ گئیں، جو وہ بطور خاص تماشا دیکھنے کے لیے پہن کر آئے تھے

خون کی ان بوندوں کی زد میں آنے والوں میں علاقے کی حسین ترین نادیہ بھی شامل تھی

وہ اسٹیج قرار دی گئی مخصوص جگہ سے قریب ترین پہلی قطار کے وسط میں بیٹھے خصوصی مہمان کے ساتھ آنے والے دو تماشائیوں کے بعد بیٹھی تھی اور کھیل میں ایک ایسی محبوبہ کا کردار ادا کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی، جس کے عاشقوں میں ہر عمر اور طبقے کے لوگ شامل ہوں۔

خون کی صرف پانچ بوندیں اس تک پہنچی تھیں۔۔

تین نے اس کے نمایاں اور پرکشش سینے کے ابھاروں پر، ایک نے اس کی حیران کن گردن اور سینے کے اتصال پر بننے والے گڑھے کے عین درمیان اور ایک نے اس کے بالائی ہونٹ پر ستواں ناک کے ٹھیک نیچے اس درمیانی ابھار پر جگہ بنائی تھی جسے کسی کوشش کے بغیر بھی محسوس کیا جا سکتا تھا۔

یوں تو اس تک پہنچنے والی ہر نظر اس کے سرتا پا طواف کو ایک ایسا فریضہ تصور کرتی تھی، جسے قضا نہ کیا جا سکتا ہو لیکن اس کا نچلا ہونٹ ان مقامات میں شامل تھا، جہاں توقف خود اپنی طاقت سے مقام بناتا تھا۔ ہمیشہ کچھ اس طرح سوجا ہوا سا کہ جیسے وہ دیر تک ہم بوسہ ہو کر آ رہی ہو۔

اداکار کے سینے میں تلوار داخل ہونے سے لمحہ بھر پہلے اگر اس نے انہماک اور بے خیالی میں نچلے ہونٹ کے درمیانی حصے کو اپنے دانتوں کے درمیان دبا نہ لیا ہوتا تو بالائی ہونٹ پر رکنے والی بوند یقیناً نچلے ہونٹ پر ہی جگہ بناتی۔

نادیہ تک پہنچنے والی ان بوندوں کو سب سے پہلے صرف خصوصی مہمان نے دیکھا۔ اس کی آنکھیں مسلسل اسٹیج اور نادیہ کے درمیان گردش کر رہی تھیں۔ شاید تماشے میں اس کی دلچسپی کم وبیش نہ ہونے کے برابر تھی۔

اس پر نظر رکھنے والا کوئی بھی آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ وہ یقیناً تماشے کے لیے نہیں آیا۔ ایسے تماشوں میں خصوصی مہمان بننے والوں کے سارے میں کوئی بات بھی پورے یقین سے نہیں کہی جا سکتی لیکن زیادہ مشکل اس کے مصاحبوں کو درپیش تھی۔ ان کی دلچسپی بٹی ہوئی تھی۔ وہ پوری کوشش کررہے تھے کہ خصوصی مہمان کے چہرے اور اسٹیج پر یکساں توجہ دے سکیں تا کہ اپنے چہروں پر وہاں وہاں خوشی اور پسندیدگی کے آثار پیدا کریں جہاں جہاں خصوصی مہمان کے چہرے پر پسندیدگی کو دیکھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے چہرے ایک بار بھی نادیہ کی سمت نہیں گھومے تھے۔

تماشے نے اچانک جو موڑ لیا تھا، اس کی کسی کو تو کیا خود نادیہ کو بھی توقع نہ تھی۔ اسے اچھی طرح علم تھا کہ اسٹیج پر موجود مرکزی کردار ادا کرنے والا اپنی تلوار سے مفروض حریف کو زخمی کرے گا اور جب تک حریف زخمی ہو کر اسٹیج سے نہیں اترتا، تب تک اسے اسٹیج پر نہیں جانا۔ اس کی غیر معمولی حیرت کی وجہ یہ بھی تھی کہ تماشے میں یہ منظر کہاں سے آگیا کہ حریف کی تلوار مرکزی کردار ادا کرنے والے کے سینے میں آرپار ہوجائے۔

سب کو پتا تھا کہ کھیل صرف ایک ایسی محبت کے بارے میں ہے جو کبھی کی ہی نہیں گئی۔ اسی لیے مصنف نے کہانی میں ایسے ممکنہ حالات اور واقعات کو جوڑا تھا جو حقیقی انسانی زندگیوں میں کی جانے والی محبتوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پیش آتے ہیں یا فرض کیے جا سکتے ہیں۔

شاید مصنف نے کوشش کی تھی کہ وہ کھیل کے ذریعے محبت کا ایک ایسا احساس پیدا کرے، جس کے ذریعے تماشائیوں کے دلوں میں محبت اور محبت سے محبت کا احترام پیدا کیا جا سکے تا کہ محبت کے بارے میں لوگوں کا وہ رویہ کچھ تبدیل ہو جائے جوعام طور پر دیکھنے میں آتا ہے۔

فی الوقت مصنف کی کم از کم بیس سے زائد ان محبتوں کے بارے میں سینہ بہ سینہ گردش کرے والی کہانیوں کا ذکر نہیں کیا جائے گا جو وہ لڑکپن سے ہی کرتا آرہا ہے۔ ناپسندیدگی اورشاید حسد کے باوجود مرد اور عورتیں ان کہانیوں کو بے تکلف محفلوں میں نہ صرف دہراتے بلکہ ان میں کمی بیشی بھی کرتے رہتے تھے۔ ان کہانیوں میں ہر عمر اورہر رشتے کی ان عورتوں کا ذکر ہوتا جنہوں نے مصنف سے تعلق رکھا یا جن سے خود مصنف نے تعلق بنایا۔

لیکن اس کھیل میں مصنف نے ایسی کسی محبت یا تعلق کو استعمال نہیں کیا جسے لوگ لذت کوشی یا جنسی بے راہ روی قراردے سکتے ہوں۔ مصنف تو وہ تشدد بھی نہیں دکھانا چاہتا تھا جو ایسے تماشوں میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کے لیے لازمی خیال کیا جاتا ہے۔

مرکزی کرداروں کو لکڑی کی وہ تلواریں بھی نہیں دی گئی تھیں جو ایسے تماشوں میں بالعموم استعمال کی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود تماشے میں ہیرو بننے والا اداکار تلوار سے یو ں زخمی ہو چکا تھا کہ تماشائیوں میں سے کوئی بھی اپنے سامنے ہونے والے کھیل کو فرضی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

فرضی حریف کے کردار میں چھپا ہوا اداکار اپنے کردار کو یکسر بھول کرسکتے کے عالم میں ساتھی اداکار کو دیکھ رہاتھا۔ اگر وہ سب جو اسٹیج پر ہوا تھا نہ ہوا ہوتا تو اس حالت میں دیکھنے والے ضرور اسے ایک جیتے جاگتے انسان کی جگہ ایک ایسا مجسمہ ہی سمجھتے جسے ساحل پرریت سے بنایا گیا ہو اور بے خیالی میں لگنے والا معمولی سا دھکا بھی اسے ایک ڈھیر میں تبدیل کر سکتا ہو۔

یہ تو آپ جان ہی چکے ہوں گے کہ یہ خیالی تماشا نہ تو کسی بڑے اور روائتی ہال میں ہورہا ہے اور نہ ہی اسے دیکھنے والے زیادہ ہیں۔ اصل میں تماشا دیکھنے والے تمام لوگ خود بھی تماشے کا حصہ تھے اور اپنے اپنے کردار ادا کررہے تھے۔ جیسے خصوصی مہمان اوراس کے ساتھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ نادیہ بھی تماشائیوں ہی میں بیٹھی تھی۔ جیسے ہی جاری منظر فرضی حریف کاکردار ختم ہوتا وہ اپنی نشست سے اٹھ کر اسٹیج پر چلی جاتی اور فرضی حریف ا س کی چھوڑی ہوئی نشست پر آ بیٹھتا۔

مرکزی کردار کے زخمی ہونے کے باعث، فی الوقت مرکزی کردارکے بارے میں یقین سے یہی کہا جا سکتا ہے، تماشے میں اور بھی کئی کردار ہیں لیکن ان کا ذکر اتنا اضافی ہو چکا ہے اور ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں رہی۔ البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ تماشا اسی منظر پر ختم ہو گیا۔

بعد کے بیانات میں تماشائیوں کا کردار ادا کرنے والوں میں سے کچھ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ مرکزی کردار ادا کرے والا تو تماشے سے ایک رات پہلے ہی خودکشی کر چکا تھا۔ وہ اس چھوٹے سے شہر کے جنوبی سرے پر واقع واحد سرائے میں رہتا تھا۔ یہ سرائے بھی عجیب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے کبھی اس سرائے کے مالک اور چلانے والوں کو نہیں دیکھا تھا لیکن لوگ آتے تھے، رہتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ کسی تعریف اور شکایت کے بغیر۔ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتاتھا کہ تماشے میں مرکزی کردار ادا کرنے والا کون تھا لیکن کسی نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا۔

شاید بات کرنے والوں کی توجہ خود کشی پر زیادہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ خود کشی کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا جو سمورائی یا جاپانی سورماؤں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ زمین میں نصف گڑی ہوئی تلوار اس کے سینے میں دل کے نیچے پسلیوں کے عین درمیان جگہ بناتی ہوئی داخل ہوئی اور پا نکل گئی۔ اس کے جسم کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے خود کو تلوار پر سے ہٹانے کی کوشش کی ہوگی۔

تمام تر تحقیق کے باوجود یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس نے خودکشی کیوں کی، خودکشی کا یہ انداز کہاں سے سیکھا، مہارت کیسے حاصل کی اور وہ تلوار کہاں سے حاصل کی جو کئی سو سال پہلے علاقے پر حکومت کرنے والے بادشاہ کے اس بیٹے کی تھی جس نے اس لیے خودکشی کر لی تھی کہ اس کے اپنے محل کی ایک کنیز نے اس کی محبت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کہانی کو سنانے والے نے آخر میں کہا کہ شہزادے کی محبت کو ٹھکرانے والی کنیز کا نام بھی نادیہ تھا اور وہ تماشے میں مذکور نادیہ کی ہم جسم اور ہم شکل تھی۔ جب کہ حریف بڑی حد تک خودکشی کرنے والے شہزادے جیسا لگتا تھا۔

اس نے کہانی ختم کر کے ایک لمبا سانس لیا اور کہا کہ اگر ایک اور موقعہ ملا تو نادیہ کی محبت اس طرح بھی حاصل نہیں کروں گا، لیکن اس کے یہ الفاظ کہانی ختم ہونے پر اٹھ کر جانے والوں میں سے کسی نے بھی نہیں سنے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close