متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان مزید مشکلات کا شکار ہو گئی ہے. بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سے لاتعلقی کے بعد پیدا ہونے اختلافات ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں
ایم کیو ایم پاکستان جو اس وقت بہادر آباد عارضی مرکز سے چلائی جا رہی ہے، عملی طور پر چار دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے
تاہم ترجمان ایم کیو ایم پاکستان احسن غوری ایم کیو ایم میں دھڑے بندی کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں ”ایم کیو ایم میں دھڑے بندی نہیں ہے. ایم کیو ایم پاکستان ایک جمہوری جماعت ہے اور جمہوریت میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ اسے دھڑے بندی کا نام دینا مناسب نہیں ہے“
انہوں نے کہا ”ایم کیو ایم پاکستان سندھ کے شہری علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرتی رہے گی۔ سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والے ایم کیو ایم سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں“
دوسری جانب رکن رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان کے مطابق ماضی میں اپنے مضبوط تنظیمی ڈھانچے اور مثالی نظم و ضبط کی وجہ سے پہچانے جانے والی تنظیم کو اب اپنے ورکرز اجلاس میں چند سو افراد جمع کرنے کے لیے بھی پارٹی میں رہنماؤں کی منتیں کرنی پڑتی ہیں
کراچی سے سیکٹر اور یونٹ کا نظام ختم کرنے کے بعد بنایا گیا ٹاؤن سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ جنرل ورکرز اجلاس اور دیگر تقریبات کے لیے لیبر ڈویژن اور اے پی ایم ایس او پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے
ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ رابطہ کمیٹی کے ایک اہم رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ’ایم کیو ایم پاکستان ان دنوں اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، آپسی اختلافات اور پسند ناپسند کی بنیاد سے شروع ہونے والا سلسلہ اب گروہ بندی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ماضی میں کئی ریاستی آپریشن کا سامنا کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ اب اقتدار میں ہونے اور گورنر شپ سمیت وفاقی وزارتیں ہونے کے باوجود بے بس ہے۔‘
رابطہ کمیٹی کے رکن نے کہا ’پارٹی میں اس وقت چار گروہ کام کر رہے ہیں، ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کی لابی مضبوط ہو اور وفاق اور صوبے سے معاملات ان کے ذریعے چلائے جائیں۔‘
انہوں نے بتایا ’کراچی کے ضمنی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کی مسلسل خراب کارکردگی ساتھ جڑے کارکنان کو بھی دور کر رہی ہے۔‘
کراچی میں کورنگی ایم کیو ایم کا مضبوط علاقہ تصور کیا جاتا ہے، وہاں این اے 240 کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار ابو بکر کامیاب ضرور ہوئے، لیکن وہ ایم کیو ایم کی تاریخ کی بدترین کامیابیوں میں سے ایک کامیابی کہلائی، جہاں چند ہزار ووٹ ہی ڈالے گئے
اس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز کے علاقے میں حلقہ این اے 245 میں ضمنی انتخاب ہوا۔ جہاں ایم کیو ایم کو پی ٹی آئی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور اب کورنگی اور ملیر میں ناصرف ہار ملی ہے بلکہ ایم کیو ایم کی کارکردگی بدترین رہی ہے۔ ماضی میں نمایاں پوزیشن رکھنے والی ایم کیو ایم کو بہت کم ووٹ ملے ہیں
یاد رہے کہ ایم کیوایم پاکستان کے درمیان 2018 میں پہلی بار اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آئے تھے، جب سابق سربراہ ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار نے موجودہ گورنر کامران ٹیسوری کو سینٹ میں الیکشن کا ٹکٹ دیا تھا۔ اس سینٹ کے الیکشن میں ایم کیو ایم دو حصوں میں انتخابات کا حصہ بنی تھی اور انہیں پہلی بار الیکشن میں شکست کا سامنا ہوا تھا
ابتدائی طور پر ایم کیوایم کے دو گروپ سامنے آئے تھے، جن میں ایک بہاردر آباد اور دوسرا پی آئی بی کے نام سے پکارا گیا تھا۔
رکن رابطہ کمیٹی اور سابق وزیر نے کہا کہ ’اب سندھ میں گورنر کی تعیناتی پر ایم کیو ایم پاکستان تقسیم ہے اور ایک مضبوط گروہ کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ کامران ٹیسوری کو گورنر کے عہدے سے ہٹایا جائے۔‘
ایم کیو ایم کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی عمران احد خان کے مطابق ایم کیو ایم اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، معاملات اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ کئی رہنما ایک دوسرے سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتے
عمران احد نے کہا ’اس کے علاوہ ایم کیو ایم کی مسلسل ناکامیوں کی ایک وجہ سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی سے ایم کیو ایم کا اتحاد بھی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والوں کا ماننا ہے کہ ان کے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ پیپلز پارٹی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا پی پی سے اتحاد عوام میں پسند نہیں کیا جا رہا۔‘
کراچی کے سینیئر صحافی عبدالجبار ناصر کا کہنا ہے ’کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی اپنی کوئی پوزیشن نہیں ہے۔ ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین کے دور کی متحدہ قومی موومنٹ کی حیثیت کو اب تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ماضی میں سندھ کے شہری علاقوں کی مقبول جماعت اب اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔‘
’آپسی اختلافات اور عوامی مسائل میں غیرسنجیدگی اپنی جگہ لیکن الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد اسے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں جگہ نہیں مل سکی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم پاکستان کو سندھ کے کئی شہری علاقوں میں شکست سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ ماضی میں ایم کیو ایم کے مضبوط سمجھے جانے والے شہری علاقے بھی ایم کیو ایم کے ہاتھ سے چھن گئے ہیں
رکن رابطہ کمیٹی کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی ایم کیو ایم کو مشکلات کا سامنا ہے۔ 1988 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ ایم کیو ایم کے پاس شہر کے تمام علاقوں سے انتخابات کے لیے امیدوار بھی پورے نہیں ہوسکیں ہیں۔ کئی وارڈ اور یونین کونسل پر ایم کیو ایم نے اپنے نمائندے کھڑے نہیں کیے ہیں۔
’ایم کیو ایم پاکستان میں بلدیاتی نمائندوں کے حصے کو دیکھنے والے گروپ کی سربراہی وسیم اختر کے پاس ہے۔ این اے 245 میں شکست پر پارٹی میں سخت رویوں کے بعد وہ بھی تقریباً غیرفعال ہی ہیں۔ اس کے علاوہ عامر خان گروپ اپنی مضبوط تنظیمی پوزیشن کے ساتھ موجود ہے اور وفاقی حکومت کے معاملات پر فعال ہے۔‘
انہوں نے کہا ’حال ہی میں ایم کیو ایم پاکستان کا حصہ بننے والے رہنما ڈاکٹر صغیر، وسیم آفتاب، سلیم تاجک سمیت دیگر بھی پارٹی کی سرگرمیاں دیکھ رہے ہیں، لیکن ان کی واپسی سے اب تک کوئی خاص جگہ نہیں بن سکی ہے۔‘
’چوتھا اور آخری سسٹم عبدالوسیم اور دیگر کے پاس ہے جنہوں نے اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کی انتخابی مہم سمیت دیگر ذمہ داری نبھائی تھی۔ ان سب کے سربراہ کے طور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ہیں، لیکن پارٹی رہنماؤں میں ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی سربراہ بھی اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔‘
رکن رابطہ کمیٹی کا مزید کہنا تھا ’ایم کیو ایم پاکستان اس وقت بلدیاتی انتخابات کروانے کے حق میں نہیں ہے، اس وقت اگر بلدیاتی انتخابات ہوجاتے ہیں تو متحدہ کراچی کے کئی علاقوں سے سیٹیں نکالنے میں ناکام رہے گی۔‘