ابراہیم حیدری کا ایوب ملاح: شادیوں پر مووی بنانے سے دستاویزی فلموں تک کا سفر۔۔۔

ویب ڈیسک

سمندر کے کناروں کے بھی اپنے درد ہیں، لہریں اور کنارے ہزاروں، لاکھوں صدیوں سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں پر کبھی مل نہیں پاتے۔ لہریں جانے کتنی دور سے کنارے تک پہنچنے کے لیے اپنا سفر شروع کرتی ہیں مگر یہ نصیبوں کا کھیل ہے کہ کنارے پر کون سی لہر پہنچتی ہے۔ اور یہ پہنچنا بھی کیا کہ یا کنارے پر وجود کھو دیا یا واپس لوٹ چلیں۔۔ سمندر کے کناروں کے نصیبوں میں لہروں کا سکھ لکھا ہی نہیں، بلکہ ویرانی تحریر کردی گئی ہے۔ بہت کم ایسے کنارے ہیں، جن کے نصیبوں میں بستیوں کی دوستیاں لکھی ہیں

کراچی کے مغرب اور جنوب میں سمندر کے کنارے بستے ہیں۔ اگر جنوب کی طرف چلا جائے تو کورنگی کریک کے کنارے ماہی گیروں کی ایک قدیم بستی ‹ابراہیم حیدری‘ ملے گی

ابراہیم حیدری کی گلیاں کبھی نہیں سوتیں، نہ گرمیوں میں، نہ سردیوں میں، نہ دن میں نہ رات میں۔ آپ رات کے کسی بھی وقت اس بستی کے بازار میں جائیں، آپ کو لوگ جیٹیوں کی طرف جاتے ہوئے ملیں گے، اور وہاں سے آتے ہوئے ملیں گے۔ یہاں کے ہوٹل، بیکریاں اور مٹھائی کی دکانیں ساری رات کھلی ہوتی ہیں۔ یہ ایک جاگتی بستی ہے


یہ خبر بھی پڑھیں:  لیاری میں قائم پروڈکشن ہاؤس کے زیرِ نگرانی کراچی کے پسماندہ علاقوں کی 12 فلمیں


سادگی اب بھی ابراہیم حیدری کی گلیوں میں ایسے بستی ہے، جیسے ساون بھادوں کی بارش البتہ صفائی، پانی کا نیلا رنگ، سفید ریت کے کنارے اب ماضی کے دنوں میں کہیں گم ہوگئے ہیں۔ اب ہزاروں آبادی والا وہ ابراہیم حیدری نہیں رہا، جب بجلی نہ ہونے کی وجہ سے شادیاں چاندنی راتوں میں رکھی جاتی تھیں

کچھ خاندانوں کی آبادی سے آغاز کرنے والی یہ بستی، جس کی ابتدائی دنوں میں آبادی ہزاروں میں تھی، اب ایک لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ اب ’علو ناکھؤ‘ کا ہوٹل نہ جانے کب کا ویران ہو چکا، جو ماضی کے دنوں میں یہاں کے لوگوں کے فیصلوں اور ہنسی مذاق کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ سمندر کے خوبصورت کناروں پر اب جیٹیاں بن گئی ہیں اور سفید ریت نام کی اب یہاں کوئی نشانی نہیں بچی۔ بس کالی کیچڑ والی سیاہ مٹی اور گند کچرہ ہے۔ سمندر کا نیلا پانی بھی اب ماضی کے ان دنوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے، جن کو یہاں کے لوگ اب یاد کرتے ہیں

کراچی میں ماہی گیروں کی اس سب سے بڑی بستی ابراہیم حیدری میں مقامی ماہی گیر کئی مسائل سے دوچار ہیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں ان مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہیں

اسی بستی میں یہاں کے ایک مقامی فلمساز ایوب ملاح بھی رہتے ہیں۔ وہ ماہی گیروں کے ان گوناگوں مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی دستاویزی فلموں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان دستاویزی فلموں کو وہ یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں

ایوب ملاح پچھلے پچیس سالوں سے فلم سازی کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے شروعات اپنے محلے کی شادیوں میں وڈیوز بنانے سے کی تھی۔ مگر فلمیں بنانے کا شوق انہیں دستاویزی فلموں کی جانب لے آیا۔ وہ ان کے ذریعے اپنے پسماندہ علاقے کے مسائل اجاگر کرتے ہیں، جہاں زیادہ مچھیرا کمیونٹی آباد ہے۔ ایوب سادہ سا شلوار قمیض زیب تن کیے، اپنا کپڑے کا بیگ لٹکائے اکثر ابراہیم حیدری کی ایک جیٹی کمیونٹی سے دوسری کے مسائل عکس بند کرتے اور ان کا حل تلاش کرتے نظر آتے ہیں

ویسے تو ایوب نے دستاویزی فلمیں بنانے کا آغاز 2014ع میں کیا تھا، لیکن کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے انہیں پینتیس سال کا طویل عرصہ ہو چکا ہے

ایوب کہتے ہیں ”مجھے بچپن سے ہی کیمرا آپریٹ کرنے کا شوق تھا اور جب محلے کی شادیوں میں مووی میکر وڈیو بناتے تھے تو مجھے بھی شوق ہوتا تھا کہ میں بھی ان کے ساتھ یہ کام کروں“

پھر ایک دن ایوب کو اپنے اس شوق کو پورا کرنے کا موقع مل ہی گیا۔ دوسرے مووی میکرز کے ساتھ کام کرتے ہوئے شروعات انہوں نے صرف لائٹ پکڑنے سے کی، لیکن پھر آہستہ آہستہ کام سیکھ کر انہوں نے اپنا ایک کیمرا خرید لیا

اس طرح شادیوں میں موویز بنانے سے شروع ہونے والا، ایوب ملاح کا یہ سفر آگے بڑھتے بڑھتے اپنے محلے کے دوستوں کے ساتھ ٹیلی فلمز بنانے تک پہنچا۔ ان کا زیادہ رجحان کامیڈی فلمیں بنانے کی طرف رہا

بعد ازاں انہوں نے ایک سندھی فلم بنائی، جس کا نام ’فیصلو تقدیر جو‘ (فیصلہ تقدیر کا) تھا

2015ع میں ایوب نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ڈاکیومنٹری بنائی، جس کا عنوان تھا ’داستان زینب۔‘ یہ دستاویزی فلم انہوں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کے مقابلے میں جمع کروائی اور اس فیسٹیول میں ان کی یہ ڈاکیومینٹری تیسرے نمبر پر آئی

اس کے بعد انہیں بہت عزت اور پذیرائی ملی اور انہیں مزید ڈاکیومینٹریز بنانے کا حوصلہ ملا

ایوب بتاتے ہیں ”کیمرے مہنگے ہونے کی وجہ سے میں اب اپنے موبائل سے ہی فلمیں بناتا ہوں اور اسی موبائل سے بنائی ہوئی ڈاکومینٹریز سے کئی مقابلے بھی جیت چکا ہوں“

انہوں نے کہا کہ ماہی گیروں کے مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا، نہ تو حکومت توجہ دیتی ہے اور نہ ہی متعلقہ محکمہ

ایوب کا ارادہ ہے کہ وہ اپنی دستاویزی فلموں کے ذریعے ان ماہی گیروں کے مسائل اجاگر کریں گے اور انہیں سوشل میڈیا پر چلائیں گے

وہ آج کل تمر کے جنگلات اور جھینگا مچھلی کے بارے میں دستاویزی فلمیں بنا رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close