پہلے انٹرنیٹ پھر پولیو کے قطرے۔۔ جنوبی وزیرستان میں پولیو مہم کے بائیکاٹ کا اعلان

ویب ڈیسک

خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کی تحصیل شکئی میں تھری جی اور فورجی سروس کی معطلی پر پولیو مہم کا بائیکاٹ کر دیا گیا ہے

واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں انسداد پولیو مہم 24 اکتوبر سے جاری ہے۔ چار روزہ مہم میں چوالیس لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جن میں سے 97 ہزار 708 بچے جنوبی وزیرستان سے ہیں

اس وقت پولیو مہم اٹھائیس اضلاع میں جاری ہے مگر جنوبی وزیرستان کی تحصیل شکئی میں شہریوں نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا ہے

شہریوں کے انکار کی وجہ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہے، جو یہاں گزشتہ چار مہینے سے معطل ہے

شکئی کے مشران نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ کی سہولت نہ ملنے تک اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائیں گے

علاقے کے مقامی نوجوان عبدالصمد وزیر کا کہنا ہے ’شکئی کے لوگ پیر سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور پولیو مہم کا بائیکاٹ بھی کیا ہوا ہے۔ انتظامیہ نے مذاکرات کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے‘

انہوں نے کہا ’انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کے ساتھ ساتھ کاروباری افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔ آجکل تو سب انٹرنیٹ سے چل رہا ہے پتہ نہیں شکئی میں نیٹ کیوں بند کیا جاتا ہے۔‘

مقامی صحافی زاہد وزیر کے مطابق جنوبی وزیرستان میں ’سکیورٹی وجوہات‘ کی وجہ سے انٹرنیٹ معطل کردیا گیا تھا، جو بعد ازاں بحال کر دیا گیا مگر شکئی کے لوگ تاحال انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں

انہوں نے بتایا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے یہاں جلسے میں انٹرنیٹ کی بحالی کا اعلان بھی کیا تھا، جس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا

دوسری جانب شکئی پولیس کے مطابق پولیو مہم کا بائیکاٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں کم از کم افراد کو گرفتار کر کے شکئی تھانے منتقل کر دیا گیا ہے

پولیس حکام نے بتایا ہے کہ یہ افراد اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے روک رہے تھے اور باقی لوگوں کو بھی تلقین کر رہے تھے

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان نیک محمد کا کہنا تھا ’مقامی مشران نے تین دن پہلے دھرنا دیا جن کے مطالبے پر تھری جی انٹرنیٹ بحال کر دیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’انسداد پولیو مہم جاری ہے اور کسی قسم کا بائیکاٹ نہیں ہے۔ جو مطالبہ تھا وہ مان لیا گیا تھا۔‘
واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان میں رواں سال پولیو کا ایک کیس رپورٹ ہوا ہے جبکہ شمالی وزیرستان سے سترہ کیس سامنے آ چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close