ایک جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو 200 سے نیچے لانے اور آئندہ چند دنوں میں اچھی خبروں کی امید دلا رہے ہیں، لیکن نئی حکومت آنے کے بعد زمینی حقائق گذشتہ چھ ماہ میں عام کے لیے زمین تنگ کیے جانے کی گواہی دے رہے ہیں
مہنگائی سے پریشان عوام اب بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ تقریباً چھ ماہ قبل اقتدار میں آنے سے قبل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت نے جو وعدے کیے تھے، وہ کب پورے ہوں گے
رواں برس دس اپریل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے دستبردار ہونا پڑا اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف وزیراعظم بنے
عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد کامیاب ہونے سے قبل حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے ٹف ٹائم دیا گیا اور ایک ہی مہینے میں دو لانگ مارچ ہوئے، جس میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا، جس کی قیادت بلاول بھٹو زرداری نے کی اور دوسرا ’مہنگائی مکاؤ مارچ‘ مسلم لیگ ن کی جانب سے کیا گیا، جس کی قیادت مریم نواز اور حمزہ شہباز نے کی
دونوں جماعتیں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مہنگائی بڑھانے کے معاملے پر شدید تنقید کر رہی تھیں
موجودہ حکومتی اتحاد کے تحت بننے والی کابینہ نے 19 اپریل 2022 کو حلف لیا اور اب اس کے چھ ماہ مکمل ہو چکے ہیں
کابینہ ڈویژن کے مطابق موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں اس وقت 34 وفاقی وزرا، سات وزیر مملکت، چار مشیران اور 29 معاون خصوصی شامل ہیں
تحریک انصاف کی حکومت دس اپریل کو ختم ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے دوران مارچ 2022 میں ادارہ شماریات کے مطابق افراط زر کی شرح 9.1 فیصد تھی، تاہم ستمبر 2022 میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں اس کی شرح میں اضافہ ہوا اور یہ 23.2 فیصد ہو چکی ہے
موجودہ حکومت کے چھ ماہ کے دوران ہی اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.3 فیصد تک آن پہنچی، جو 1975 کے بعد بلند ترین شرح تھی
اگر اشیائے خوردونوش کے نرخوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کرہ نرخوں کے مطابق اسلام آباد شہر میں فروخت ہونے والی اشیا کے نرخ مارچ 2022 اور ستمبر 2022 میں کچھ یوں تھے:
آٹے کا 20 کلو کا تھیلہ مارچ میں 1100 روپے میں فروخت ہو رہا تھا جبکہ ستمبر میں اس کی قیمت پانچ روپے کم ہو کر 1095 روپے ہو گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دوران آٹا بھی نایاب ہو کر مہنگا بکتا رہا
ایک کلو باسمتی چاول جو مارچ میں 112 روپے کلو تھا، اب اس کی قیمت 142 روپے کلو ہو چکی ہے
پانچ کلو آئل جو مارچ میں دو ہزار 287 روپے میں فروخت ہو رہا تھا، اب اس کی قیمت ستمبر میں دو ہزار 849 روپے ہوچکی ہے
دال مسور جو مارچ میں 223 روپے فی کلو دستیاب تھی، اب اس کی قیمت بڑھ کر 357 روپے فی کلو ہو چکی ہے
دال مونگ کی قیمت 165 روپے فی کلو سے بڑھ کر 241 روپے، دال ماش کی قیمت 289 روپے سے بڑھ کر 418 روپے اور دال چنا کی قیمت 179 روپے سے بڑھ کر 261 روپے ہو چکی ہے
چینی کی قیمت 89 روپے فی کلو سے بڑھ کر 93 روپے فی کلو ہو گئی
یکم اپریل کو اوگرا کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت 189 روپے تھی جبکہ 16 اکتوبر کو اس کی قیمت 222 روپے ہے
اگر بجلی کے نرخوں کی بات کی جائے تو بجلی کے بلوں سے سلیب سسٹم کو ختم کر دیا گیا جس کے بعد پہلے یونٹ کے استعمال سے ہی بل 21 روپے 47 پیسہ فی یونٹ آ رہا ہے
اس سے قبل سلیب سسٹم تھا، جس میں پہلے 100 یونٹس، 100 سے 200 اور 200 سے زائد یونٹس پر مختلف چارجز لاگو ہوتے تھے
جہاں تک زرمبادلہ کے ذخائر کا تعلق ہے تو یہاں بھی صورتحال بہتری کی بجائے ابتری کی جانب بڑھی ہے
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 8 اپریل 2022 کو ڈالر کا ریٹ 184 روپے تھا اور سات اپریل کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق زر مبادلہ کے ذخائر 17.48 ارب ڈالر تھے
20 اکتوبر کو ڈالر ریٹ 220 روپے اور 13 اکتوبر کو پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 13.25 ارب ڈالر ہو گئے ہیں
اس چھ ماہ کے عرصے دوران ڈالر 240 روپے تک بھی پہنچا اور ان ہی چھ ماہ کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے 1.16 ارب ڈالر کی قسط بھی وصول ہوئی۔