کراچی کا ایک خاموش رضاکار: غلام رسول کلمتی

ریاض بلوچ

ملیر میں نیشنل ہائی وے پر واقع انور بلوچ ہوٹل سے مشرق کی طرف جاتے ہوئے چند قدم آگے سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ (لائبریری) ہے۔ لائبریری میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے آپ کی ملاقات ہر وقت کتابیں پڑھنے اور لکھنے میں مگن ایک سفید ریش شخص سے ہوگی۔ یہی شخص غلام رسول کلمتی ہیں، جن کو ہم پیار سے مُلا یا واجہ غلام رسول کلمتی بھی کہتے ہیں۔

بلوچی زبان و ادب کا کوئی ایسا طالب علم نہیں، جو ان سے واقف نہ ہو لیکن غیر بلوچ اشخاص ان کو بہت کم ہی جانتے ہیں۔ کیونکہ وہ میڈیا سے بہت دور خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں

9 تحقیقی کتابیں لکھنے کے باوجود غلام رسول کلمتی کو شہرت کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ اس لئے وہ ہمیشہ میڈیا کی زینت بننے سے انکار کرتے ہیں، بس خاموشی سے ’وتی شہدیں‘ بلوچی زبان و ادب کی خدمت کرتے رہتے ہیں

غلام رسول کلمتی نے بلوچی و اردو زبان میں کراچی کی تاریخ، رند و لاشار جنگ کی تاریخ، بلوچی زبان کے گرامر، اصطلاح، لغت اور دیگر موضوعات پر 9 کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ابھی وہ مسلسل لکھ رہے ہیں

ان کی شایع شدہ کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ کراچی، قدامت، روایات اور واقعات

2۔ رند و لاشار جنگ

3۔ نبشتہ رہبند و بنرہبند

4۔ بلوچی رواجگال

5۔ بلوچی وند

6 بلوچی گالریچ

7۔ بلوچی بنداتی رہبند

8ن بلوچی گال گنج

9۔ کلمت ہما وھدءَ کلمت ات

غلام رسول کلمتی صاحب ملیر کی وہ شخصیت ہیں، جنہوں نے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اپنے حصے سے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ صرف لکھتے ہیں بلکہ ہم جیسا کوئی طالب علم ان کی خدمت میں حاضر ہو اور بلوچی زبان و ادب یا کراچی کی تاریخ کے موضوع پر ان سے مدد کی درخواست کرے تو وہ پانچ منٹ میں اس موضوع پر کئی کتابیں اور مضامین ان کے سامنے رکھتے ہیں، پھر جہاں جہاں آپ کے کام کی بات لکھی ہو، وہ صفحہ نمبر بھی ڈھونڈ کر دیتے ہیں اور مزید رہنمائی بھی کرتے ہیں

ان کا طرز بیاں نہایت ہی خوبصورت و دلکش ہے اور خاص طور پر جب وہ کراچی پر لکھتے ہیں تو ان کی تحریر میں ایسا درد سما جاتا ہے کہ وہ دلکَش ہونے کے ساتھ ساتھ دلکُش بھی ہوجاتی ہے!

واجہ غلام رسول کلمتی اپنی کتاب ’رند و لاشار جنگ‘ میں کراچی کی ماضی کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”شہر کے شوروغل سے دُور، ملیر کے ایک دوُر افتادہ علاقے کاٹھوڑ میں، تین چار گھروں پر مشتمل، ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں ایک طرف دُور تک پھیلے ہوئے کھیت تھے اور تین اطراف پہاڑوں کا طویل سلسلہ تھا۔ بجلی کا نام و نشان تو کجا، تصور تک نہ تھا۔ سورج ڈھلتے ہی جھینگروں کی دھیمی دھیمی لیکن یکساں آوازیں سنائی دیتیں، البتہ برسات کے موسم میں مینڈک بازی لے جاتے۔ رات کی تاریکی کا فاٸدہ اٹھا کر اُلو بھی آپس میں لڑنے والے انداز میں شور مچانے کے لٸے نکل آتے۔ کبھی کبھار زمین پر گھونسلے بنانے والے پرندوں میں سے کوئی، کسی جانور کے خوف سے رات کی تاریکی میں چِلاتے ہوئے آواز بلند کرتا۔ اکثر و بیشتر کہیں سے کوئی گیدڑ یا بھیڑیا لمبی سائرن جیسی ”ھُو“ کی آواز نکالتا اور تیز ہوا اسے ترنم میں بدلنے کی کوشش کرتی، لیکن فوراً دُور سے کوئی کُتا اس ”ھُو“ کے جواب میں زور سے بھونکتا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا اور ”ھُو“ کی آواز کا گلہ دبا دیتا۔ لیکن گیدڑ ”ھُو“ کو روک کر ہنسنے والے انداز میں ”ہی ہی ہی“ کے آواز نکالتے۔


غلام رسول کلمتی کی کتاب ”کلمت ھما روچ کلمت اَت“ کے مضامین کا خلاصہ

ادشاہت یا حاکمیت زمانہ قدیم سے رواج پا گئی ہے، بادشاہ کسی خاص علاقے میں بیٹھ کر دوسرے علاقوں پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے والی یا نمائندگان سے کام لیتا تھا۔ ایران (فارس اور کردستان سمیت پورا بلوچستان) میں قبلِ مسیح سے ہمیں اسی طرح کی بادشاہت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی بنیاد اس خطے میں مدین قوم نے کیقباد کی سرکردگی میں 853 قبل مسیح میں رکھی اور اس تمام خطے میں مدستان یا مادستان کے نام سے ہمیں ایک وسیع سلطنت دکھائی دیتی ہے ،جس کا مرکز اگبتانہ (موجودہ ھمدان) تھا۔


رات کی تاریکی کے مناظر یکسر مختلف ہوتے، آسمان پر ستاروں کا جھرمٹ ہوتا اور تاریک راتوں میں ستاروں کا منظر اور زیادہ دلکش ہوتا اور خاص طور پر دلہن کی مانگ کی مانند کہکشاں کا منظر تو ناقابل فراموش ہوتا۔ پہاڑ سیاہ دیووں کی طرح سینہ پھیلا کر کھڑے نظر آتے۔ اکثر و بیشتر دُور پہاڑ کے دامن سے اونٹوں کے کسی کارواں سے جرس کی مترنم آواز رات کی خاموشی کو آہستہ آہستہ توڑتی اور پھر دھیرے دھیرے بند ہوجاتی۔ چاندنی راتوں میں پہاڑ کے دامن سے جاتے ہوئے کارواں اور جرس کی مترنم سحر انگیز آواز کچھ زیادہ ہی خوبصورت ہوتی۔ ان کاروانوں کے جرس کی مترنم آواز کو میں آج تک فراموش نہ کر سکا“

واجہ سے میرا صدیوں پرانا رشتہ ہے۔ شاید ہم اُس وقت سے ایک ہیں، جب کراچی کا حُسن پردے میں تھا اور اُس کے دعویدار ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ جب کراچی میں انسانوں کی بنسبت جانوروں کی آبادی زیادہ تھی، اُس وقت ہمارے بڑے بزرگ اندھیری راتوں میں ملیر سے مول اور جوریجی سے لیاری تک بلا خوف و خطر سفر کرتے تھے۔ وہ جانوروں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ہماری طرح سہمے ہوئے نہیں تھے کیونکہ جانوروں نے کسی عبداللہ مراد کو شہید نہیں کیا تھا، جانوروں نے کسی ماما فیض محمد گبول کو جھوٹے مقدمات میں قید نہیں کیا تھا، جانوروں نے ملیر کے کھیت و کلیان نہیں اُجاڑے تھے، جانور اپنی حدود میں رہتے تھے، اس لئے وہ کبھی ہمارے گھر مسمار نہیں کرتے تھے۔ یہ سب کارنامے انسانوں نے کئے۔۔!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close