آج کی اس شکّی دنیا میں ہم عموماً اجنبی لوگوں سے گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن ایسے لوگوں سے باتیں کرنا، جنہیں ہم پہلے سے نہیں جانتے ہیں، یہاں تک کہ ان سے پہلے کبھی کوئی سرسری سا تعلق بھی نہ رہا ہو، وہ ہمیں زیادہ سمجھدار بناتا ہے اور زیادہ خوشی دیتا ہے
بہت سے لوگوں کی طرح جو 1980ع کی دہائی میں امریکہ میں پلے بڑھے تھے، انہی کی طرح میری پرورش بھی اجنبیوں سے خوف کے ایک ماحول میں ہوئی تھی
ان دنوں لوگوں کا سارا غصہ ’اجنبی سے خطرے‘ کے بارے میں ہوتا تھا۔ والدین کی تشویش اور اجنبیوں کے تئیں انسانیت کی فطری احتیاط کو سنسنی خیز میڈیا کی کوریج اور سماجی اعتماد کی گرتی ہوئی سطحوں نے بہت زیادہ بڑھا دیا تھا، جو ایک مکمل اخلاقی گھبراہٹ کی شکل اختیار کر گیا تھا
پولیس افسران، اساتذہ، والدین، مذہبی رہنما، سیاستدان، میڈیا شخصیات اور بچوں کی فلاح و بہبود کی تنظیموں نے اپنے آپس کے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اجنبیوں سے خوف کے اس پیغام کو پھیلانے کے لیے مل کر کام کیا کہ ’کسی اجنبی کے ساتھ بات چیت کرنا انہیں خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‘
اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگوں کو اجنبیوں کے ساتھ تکلیف دہ تجربات بھی ہوتے ہیں لیکن ’اجنبی سے خطرے‘ کے احساس کی کوئی سائنسی یا کوئی حقیقی شماریاتی بنیاد نہیں تھی
پھر، جیسا کہ یہ آج بھی ہوتا ہے، بچوں کے خلاف زیادہ تر جنسی اور پرتشدد جرائم کا ارتکاب (اور اس معاملے میں بالغ افراد) وہ لوگ کرتے ہیں جو متاثرہ بچے کو جانتے ہیں: رشتہ دار، پڑوسی اور خاندانی دوست (یعنی ان بچوں کے ساتھ جرائم کرنے والے عموماً اجنبی نہیں ہوتے ہیں)۔ وہ بچے جو ان لوگوں کے ہاتھوں اغوا ہوتے ہیں، جو اُن کے رشتے دار یا واقف نہیں ہوتے ہیں، ان کی بہت ہی کم تعداد ہوتی ہے
امریکہ میں لاپتہ اور استحصال زدہ بچوں کے قومی مرکز کو رپورٹ کیے گئے گمشدہ بچوں کے واقعات میں سے صرف ایک فیصد ایسے واقعات ہیں، جہاں ایک بچہ کسی اجنبی کے ہاتھوں اغوا یا استحصال کا شکار ہوتا ہے
لیکن اگر اجنبی کا خوف ایک حقیقی خوف محسوس ہوا، تو یہ اس وجہ سے حقیقی تھا کیونکہ اس زمانے میں اجنبی سے مراد ایک خطرہ لیا جاتا تھا اور اجنبی کب خطرہ سمجھا جانا چاہیے، اس کا کوئی مربوط تعلق نہیں
تاہم کیا سوچنے کا یہ طریقہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے بعد کی زندگی میں ہماری اجنبیوں سے بات چیت کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے؟ کیا اس خطرے کے خوف کی وجہ سے ہم نے کوئی قیمتی چیز تو نہیں کھو دی؟
کچھ سماجی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بچوں کو یہ سکھانا کہ دنیا میں حقیقت میں ہر وہ شخص خطرناک ہے، جس سے وہ پہلے نہیں ملے تھے، ایسی تربیت ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی ذہن سازی کے لیے کافی نقصان دہ ہو
کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر سیاسیات ڈائیٹ لِنڈ سٹول نے دلیل دی کہ کئی دہائیوں تک اس تصور نے پوری ایک نسل کو دوسرے لوگوں پر بھروسہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کیا اور اس طرح انہیں نقصان پہنچایا ہے
یہ سوچ پریشانی کا باعث ہے۔ بہت سے معاشروں کے لیے کام کرنے کے لیے اجنبی افراد پر بھروسہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے
سٹول نے حیرت سے کہا ”صرف اجنبیوں سے ڈر کر ہم اپنی زندگی کے کتنے سارے سماجی یا معاشی مواقع کھو دیتے ہیں؟“
اگرچہ میں اجنبیوں کو بچوں سے رابطہ کرنے کی وکالت نہیں کر رہا ہوں، اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں کہ اجنبیوں سے تعلقات بڑھائیں بلکہ میرا یقین ہے کہ بڑوں کے طور پر ہمیں اجنبیوں سے محفوظ طریقے سے بات کرنے کے فوائد کے بارے میں بھی از سرِنو سوچنے کی ضرورت ہے
میں نے جو سیکھا، وہ یہ تھا کہ ہم اجنبیوں سے ڈر کر بہت سے فائدے حاصل کرنے کے موقعے ضائع کر دیتے ہیں
عمومی طور پر صحیح حالات میں اجنبیوں سے بات کرنا ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہوتا ہے، ہمارے محلوں، ہمارے قصبوں اور شہروں، ہماری قوموں اور ہماری دنیا کے لیے یہ اچھا ہوتا ہے کہ ہم اجنبیوں سے بات کریں
اجنبیوں سے بات کرنا آپ کو مختلف چیزیں سکھا سکتا ہے، آپ کی شخصیت میں گہرائی پیدا کر سکتا ہے، آپ کو ایک بہتر شہری، ایک بہتر سوچنے والا اور ایک بہتر انسان بنا سکتا ہے
یہ جینے کا ایک اچھا طریقہ ہے لیکن یہ اس سے بھی زیادہ اچھی بات ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی، لامحدود پیچیدہ، شدید تقسیم شدہ دنیا میں، یہ زندہ رہنے کا ایک اچھا طریقہ ہے
تقریباً چھ ہزار سال سے زیادہ عرصے سے انسان سماجی تنظیم کی ایک شکل، جس میں اجنبیوں کی کثرت ہے، شہروں میں معاشروں کی صورت میں رہ رہے ہیں لیکن حال ہی میں ماہرین نفسیات نے اس بات کا مطالعہ شروع کیا ہے کہ جب ہم ان تمام نامعلوم لوگوں جنہیں ہم اجنبی کہتے ہیں، جب ان سے بات کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے
سنہ 2013ع میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس کی ماہرِ نفسیات گیلین سینڈسٹروم اور کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں الزبتھ ڈن نے ایک تحقیقی تجربے کا نتیجہ شائع کیا، جس میں ٹورنٹو کی ایک کافی شاپ میں تیس بالغوں نے مسکراتے ہوئے اپنے کافی بنانے والے اجنبی شخص سے بات کی اور تیس مزید ایسے لوگوں سے بات کی، جو اپنی اجنبی سے گفتگو کو ممکن حد تک بہتر بنانے کی کوشش کو اچھا تجربہ سمجھتے ہیں
سینڈسٹروم نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں لکھا ”لوگ اجنبیوں سے بات کرنے کے تقریباً ہر پہلو کے بارے میں غیر معمولی طور پر مایوسی کا شکار ہیں“ تاہم یہ مایوسی غیر ضروری معلوم ہوتی ہے
اس تحقیق کے شرکا، جنہوں نے اپنی کافی خریدتے وقت کافی بنانے والے اجنبی سے بات چیت کی، ان لوگوں کے مقابلے میں، جنہوں نے اجنبی سے بات نہیں کی، نے اپنے تعلق کے مضبوط احساس اور اپنے بہتر موڈ کو محسوس کیا
کسی اجنبی کے ساتھ بات چیت کرنے کی ہمت پیدا کرنا مشکل محسوس ہو سکتا ہے کیونکہ یہ عام طور پر ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے آسان نہیں ہوتا
شکاگو یونیورسٹی میں رویے کے مطالعے کے سائنسدان نکولس ایپلے اور جولیانا شروئڈر نے مسافروں سے کہا کہ وہ اجنبیوں سے بسوں، ٹرینوں، ٹیکسیوں اور انتظار گاہوں میں بات کریں، شکاگو میں ایسی جگہیں، جہاں لوگ عموماً ایک دوسرے سے بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے ہیں
یہ بات ہم سمجھ سکتے ہیں کہ زیادہ تر شرکا نے پیشگوئی کی کہ اجنبی سے ملنا جلنا فائدہ مند نہیں ہوگا۔ سماجی اصول کی خلاف ورزی سے ہوشیار رہنے کی وجہ سے، انہیں خدشہ تھا کہ اجنبی انہیں مسترد کر دے گا اور ان کا سفر پہلے سے کہیں زیادہ ناخوشگوار ہو جائے گا
تاہم جب اس تحقیق کے شرکا باہر کی دنیا میں اجنبی لوگوں سے ملنے گئے اور حقیقت میں لوگوں کے ساتھ رابطہ کیا تو انہوں نے پایا کہ اجنبی حیرت انگیز طور پر خیر مقدم کرنے والے، متجسس اور خوشگوار لوگ تھے
نکولس ایپلے اور شروئڈر نے لکھا ”مسافر یہ سوچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ کسی اجنبی سے بات کرنے سے سماجی طور پر مسترد ہونے کا ایک بامعنی خطرہ لاحق ہے۔ جہاں تک ہم کہہ سکتے ہیں، اس سے کوئی خطرہ نہیں تھا“
اس کے برعکس، اجنبی سے بات کرنے والے شرکا نے بتایا کہ بات چیت خوشگوار، دلچسپ اور ان کے اندازے سے زیادہ دیر تک جاری رہی اور اس بات چیت نے ان کے سفر کو مزید پرلطف بنایا
ایپلے اور شروئڈر نے مزید کہا کہ اس سے ’سماجی میل جول کے بارے میں ایک گہری غلط فہمی‘ کا پتہ چلتا ہے، یعنی یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ’انسان سماجی جانور ہو سکتے ہیں لیکن وہ اپنی بھلائی کے لیے ہمیشہ سماجی نہیں ہوتے‘
ایسا نہ ہو کہ ان نتائج کو امریکہ کے وسط مغربی کے دوستی کے معیار کے مطابق بنایا جائے، اس مقصد کے لیے ایپلے اور شروئڈر نے ایک مختصر ماحول اور کم وقت کے حالات میں دوستی کا تجربہ کیا اور مسافروں نے لندن میں بسوں اور ٹرینوں (اور ایک ایسی جگہ جہاں لوگ ایک دوسرے سے آنکھیں بھی ملانے سے گریز کرتے ہیں) پر اجنبیوں کے ساتھ بات چیت کی
اس کے بعد یہ تجربہ دوسرے ممالک میں دہرایا گیا ہے، جس میں مختلف قسم کے شرکا کی تنوّع شامل تھی
ان تحقیقات کے نتائج نمایاں طور پر ایک جیسے رہے ہیں: بہت سے لوگ اجنبیوں سے بات کرنے سے ڈرتے ہیں لیکن جب وہ لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں تو وہ اس کے بعد اچھا محسوس کرتے ہیں، زیادہ خوش، کم تنہا، زیادہ پر امید، زیادہ ہمدرد، اور ان سے تعلق رکھنے کے مضبوط احساس کے ساتھ اپنی بات چیت ختم کرتے ہیں
کئی ماہرین کے ساتھ ساتھ جو عام لوگوں سمیت اجنبیوں سے بات کرتے ہیں، نے مجھے بتایا کہ ایسا کرنے سے وہ اصل میں خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں، اور اس طرح وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے آس پاس کے لوگ اچھے ہیں
پھر بھی بہت سی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے لوگ اجنبیوں سے بات کرنے میں پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ عموماً لوگ اس خوف سے کہ اجنبی بات کرنے میں برا محسوس کریں گے یا ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوگا، یا کسی دوسرے گروپ کے کسی سے بات کرنے اور معیوب یا غلط بات کہنے کے بارے میں فکر مند ہوتے ہوئے سماجی اصول کی خلاف ورزی کے بارے میں فکر مند ہونے کی اطلاع دیتے ہیں
بہت سے عوامل ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے سے روکتے ہیں۔ یقینی طور پر سمارٹ فونز نے ہمارے قریبی ماحول میں لوگوں کے ساتھ بات چیت سے بچنے یا گریز کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ آسان بنا دیا ہے اور ہم فطری طور پر کسی ایسے شخص سے رابطہ کرنے کے بارے میں محتاط ہو سکتے ہیں، جو ہمارے لیے ناقابل بھروسہ نظر آتا ہے، چاہے ہم ان سے کبھی نہ ملے ہوں
ہم کسی ایسے شخص کے ساتھ تعاون کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جو کسی ایسے شخص سے ملتا جلتا ہو، جس پر ہم نے ماضی میں بھروسہ کیا ہو، نہ کہ کسی ایسے شخص کے ساتھ جو ایک ناقابل اعتماد پرانا واقف لگتا ہو
لہٰذا یہ حیرت کی بات ہے کہ جب اجنبی سے کسی خوف کی وجہ سے بات نہ کرنے والے لوگ جب عملی طور پر بات چیت کا تجربہ نہیں کرتے ہیں تو وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں
میں نے خود ایسی خوشی محسوس کی ہے، جب میں نے اجنبیوں کے ساتھ مثبت بات چیت چیت کی
ایک حالیہ تحقیقی تجربے کے بعد سینڈسٹروم کا کہنا ہے ”میرے خیال میں یہ خوشی صرف وہ احساس ہو سکتا ہے کہ اب یہ دنیا خوفناک نہیں اور پھر آپ نے کسی اجنبی شخص کے ساتھ بات چیت چیت کی اور یہ اچھی طرح چلتی ہے، اور یہ ایسا ہی ہے، شاید دنیا اتنی بری نہیں“
یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ ایسے وقت میں جب بہت سے لوگ خود کو تنہا، اجنبی، لوگوں سے جدا، منقطع، مایوس محسوس کرتے ہیں، یہ نتائج مفید اور تسلی بخش ہیں
اجنبیوں کے ساتھ تعامل کرنا، یہاں تک کہ ان کے ساتھ وقت گزارنا بھی، ہمیں سوشل نیٹ ورکس بنانے یا دوبارہ ایک دوسرے سے تعلقات بنانے میں، ہمیں اپنی کمیونٹیز سے دوبارہ جوڑنے، اور اپنے اردگرد کے لوگوں میں اعتماد بڑھانے میں مدد دے سکتا ہے
ایک یونیورسٹی کے طالب علم، جس نے سینڈسٹروم کے حالیہ تجربات میں سے ایک میں حصہ لیا تھا، کا کہنا ہے ”مجھے ایسا لگا جیسے میں دوست بنانے کا طریقہ بھول گئی ہوں، لیکن اس مطالعے نے مجھے یاد دلایا کہ زیادہ تر لوگ دوستانہ طبیعت رکھتے ہیں اور آپ کو صرف اپنے آپ کو وہاں سے باہر رکھنے کی ضرورت ہے“
اپنی کتاب پر تحقیق کرتے ہوئے میں نے ان مختلف اقسام کے لوگوں کے ایک وسیع ہجوم سے بات کرنے کو یقینی بنایا، جنہوں نے اجنبیوں سے بات کرنا اپنی عادت بنا لی تھی
ان کے مختلف پس منظر اور تجربات کے باوجود، وہ زیادہ تر وہی مثبت اثرات بتاتے ہیں، جو ایپلے اور شروئڈر کے تحقیقی رپورٹ میں پائے جاتے ہیں لیکن میں یہ تجویز نہیں کروں گا کہ یہ تعاملات ہر کسی کے لیے ایک جیسے نتائج دیں گے اور میں کسی بھی طرح سے ان لوگوں کے خدشات کو مسترد نہیں کروں گا، جنہیں اجنبیوں کے ساتھ تکلیف دہ تجربات ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ میں سختی سے مشورہ دیتا ہوں کہ میری حیثیت کے مردوں کو اجنبیوں کے ساتھ بات چیت کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں
سینڈسٹروم کسی ایسے شخص سے بات کرنے کے لیے کچھ اور مشورہ دیتی ہیں، جسے آپ نہیں جانتے ہیں۔ پہلے ان سے بات کرنے کے لیے ایک عمومی سا سوال پوچھیں اور پھر کسی ایسی چیز کے ساتھ جواب دیں، جو آپ میں مشترک ہے – اس کی ایک وجہ ہے کہ ہم موسم کے بارے میں بات کرنے میں پہلے سے طے شدہ ردعمل دیکھتے ہیں
لیکن اگر آپ کر سکتے ہیں، تو یہ ایک قابلِ ستائش کوشش ہے اور ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اجنبیوں سے بات کرنا آپ کو اس سے زیادہ گہرے طریقوں سے متاثر کر سکتا ہے، جس کی آپ توقع کر سکتے ہیں اور اس طرح آپ اپنی ذہنی صحت کے بہت سے فوائد حاصل کر سکتے ہیں
ہارورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈینیئل ایلن کہتی ہیں کہ اجنبیوں سے بات کرنا ہمیں سمجھدار، زیادہ عملیت پسند اور زیادہ ہمدرد طبیعت والا بنا سکتا ہے
جب وہ شکاگو یونیورسٹی میں پڑھا رہی تھیں تو ایلن کو اُن کے ساتھیوں نے بار بار تنبیہہ کی تھی کہ وہ شہر کے غریب علاقوں سے دور رہیں
وہ مانتی ہیں کہ ’اجنبیوں کا یہ خوف دراصل (اس کے ساتھیوں کی) فکری اور سماجی صلاحیتوں کو ختم کر رہا تھا‘
انہوں نے عام لوگوں سے دور رہنے کا مشورہ مسترد کردیا، اور اُن غریبوں کے علاقوں اور محلوں میں اپنا سب سے زیادہ قابل تعریف تحقیقی کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا کیریئر لوگوں اور گروہوں کے درمیان روابط کو فروغ دینے کے لیے وقف کر دیا، جو عموماً ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کریں گے
ایلن لکھتی ہیں ”اپنے گھر کے باغ سے باہر دوسرے علاقوں میں جا کر کی جانے والے اس کا تحقیقی کام اور حقیقی علم خوف کو دور کرتا ہے لیکن صرف اجنبیوں سے بات کرنے سے ہی ہم ایسا علم حاصل کر سکتے ہیں“
اجنبیوں سے بات کرنے سے آپ کو نوعِ انسانی کی دماغی پیچیدگی، اور انسانی تجربات کی لامحدود اقسام کی جھلک ملتی ہے تاہم یہ آسان نہیں
آپ اپنے آپ کو دنیا اور اس میں اپنے مقام کے بارے میں اپنے مفروضوں پر مسلسل غور کرتے ہوئے پائیں گے، جو مشکل اور پریشان کن ہے بلکہ پرجوش اور یہاں تک کہ یہ ایک دل لگی بھی ہو سکتی ہے
یہ بھی ہے کہ ہم فرد کے طور پر کیسے بڑھتے ہیں، اور معاشروں کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کیسے جڑے رہتے ہیں۔ اس طرح ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں، اور صرف ایک دوسرے کو جاننے میں ہی ہم کبھی ایک ساتھ رہنے کی امید بھی کر سکتے ہیں
یہ ستم ظریفی ہے کہ اجنبیوں سے ڈرنے کے ماحول میں پرورش پانے کے بعد، میں اب انہی اجنبیوں کو امید کا ایک ذریعہ پاتا ہوں۔ جب یہ تعاملات اچھی طرح سے چلتے ہیں، اور وہ عام طور پر اچھی طرح چلتے ہیں، اجنبی کے بارے میں مثبت تاثر لوگوں کے بارے میں بہتر احساسات کو عام کر سکتا ہے
میرے لیے اور بہت سے معزز ماہرین اور مکمل اجنبیوں سے جن سے میں نے بات کی ہے، یہ تحقیقی سوالات سے جمع کیے گئے ایک ڈیٹا سے حل ہوتا ہے۔ اگر میں اپنے فون یا لیپ ٹاپ کے ذریعے دستیاب چیزوں پر انسانیت کے بارے میں اپنے تمام تصورات کی بنیاد رکھتا ہوں تو میرا زیادہ تر دوسرے لوگوں کے بارے میں حیرت انگیز طور پر منفی نظریہ ہوگا
میں ’اجنبی کے خطرے‘ کی وجہ سے مفلوج ہو جاؤں گا اور میں ’شکی مزاج‘ اور ’جذباتی لوگوں‘، یا ’مجرموں‘، ’جاہلوں‘، ’غصے والے لوگوں‘ سے بات چیت کرنے سے گریز والے رویے کو مکمل طور پر جائز سمجھوں گا تاہم اس کے بجائے، میں حقیقی دنیا میں گیا اور لوگوں سے بات چیت کی تو اس کے بعد میرا خیال بدلا اور میں دنیا کے بارے میں اپنے تصور کی بنیاد اپنے اس وسیع مشاہدے کے نتائج پر رکھتا ہوں، اور اجنبیوں سے بات کرنے کے نتیجے میں میرا نقطہ نظر کچھ زیادہ ہی پر امید ہو گیا ہے
ایلن نے مجھے بتایا ”میں انسانیت کو مجموعی طور پر زیادہ پسند کرتا ہوں کیونکہ میں اجنبیوں سے بات کرتا ہوں“
امریکہ میں ایک سیاہ فام عورت کے لیے اس کی کسی اجنبی سے بات چیت میری نسبت کہیں زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی جب اجنبیوں سے بات چیت کرنے کی بات آتی ہے تو وہ کہتی ہیں ”مثبت باتیں منفی باتوں سے بہت زیادہ ہیں۔“
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)