کیا اس دھرتی پر جینے کا حق صرف انسان کے پاس ہے؟

عومر درویش

اکتوبر کا مہینہ تھا، دھوپ قدرے تیز تھی. آسمان پر کہیں کہیں روئی کی طرح سفید بادل چھائے ہوئے تھے اور آسمان کچھ زیادہ نیلا دکھائی دے رہا تھا۔ میں ایک درخت کے نیچے جھاڑیوں کے بیچ میں کیمرہ اسٹینڈ پر لگا کر اِرد گِرد کا نظارہ کر رہا تھا کہ کب ہرن، جنگلی بکرے اور دوسرے جانور آئیں اور ان کی عکس بندی کر سکوں۔ کافی دیر گزرنے کے بعد جھاڑیوں سے سرسراہٹ سنائی دی اور میں کچھ سہم سا گیا۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں، میں نے اسے نظر انداز کرلیا اور پھر سے سامنے سینہ تانے کھڑی پہاڑیوں کی چوٹی کا نظارہ کرنے لگا۔

"پکڑ لیا ۔۔۔!”
…..آواز سنتے ہی میں ڈرتے ہوئے پیچھے مڑا تو  دیکھا کہ وہاں ایک لومڑ کھڑا تھا، جس نے ایک لاٹھی کو بندوق کی طرح پکڑ رکھا تھا۔
میں نے گھبراتے ہوئے کہا "ابے لومڑ! کیا ہوا..”
اتنے میں آس پاس سے خرگوش، گیدڑ، بھیڑیا، تیتر، ہرنی اور بے شمار جنگلی جانور چرند پرند پہنچ گئے۔

گیدڑ نے آتے ہی کہا "ارے او لومڑی! اس انسان کے پاس تو کیمرہ ہے۔ تم نے تو پورے جنگل میں اعلان کیا ہوا تھا، کہ ایک شکاری آیا ہے، پانی والی جگہ پر کوئی نہ جائے۔”
ہرنی اچھلی اور فیس بکی Princess کی طرح منہ بنا کر کہنے لگی "میری بھی ایک تصویر کھینچو”
لومڑ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا "بس کر جنگل کی شہزادی! اور پھر وہ گیدڑ کی طرف متوجہ ہوا "سن لو.. یہ بھی بندوق سے کم نہیں ہے، دو گھنٹے سے شکاری کی طرح ایکشن میں تھا۔”
میں یہ سب خاموشی سے کھڑا سن رہا تھا، پھر میں لومڑ سے مخاطب ہوا "بس اب ہوگئی تسلی…”

اتنے میں بھیڑیا زیرِ لب کچھ بڑبڑاتے ہوئے، منہ دوسری طرف کرکے، اگلے پاؤں پانی میں ڈال کر بیٹھ گیا۔
گیڈر نے اپنے دانت دکھاتے ہوئے کہا” میرا نام ۔۔۔۔خیر چھوڑیے…! اور کہنے لگا” میرا دادا *صفوراں اور *اوکیواڑی اور اس کے آس پاس والے علاقے میں، جہاں پہلے جنگل ہوا کرتا تھا، وہاں رہتا تھا۔”

میں نے کہا” پاگل ہوگئے ہو، وہاں کیسے، آپ کو کس نے بتایا..”
"میرے دادا نے” گیدڑ نے جواب دیا "اس نے بتایا تھا کہ وہ پہلے وہیں رہتے تھے، پھر جب وہاں جنگلات کا صفایا ہوا تو کچھ نہیں بچا۔ دادا کے بقول اس کے بعد وہ *پہنوارو جبل پر آکر بس گئے۔ میرا بچپن بھی وہیں گزرا، تین سال پہلے بڑی بڑی مشنری پہاڑوں اور جنگلوں کو کاٹنے لگی۔ دوست، خاندان سب پتہ نہیں کہاں بھاگ نکلے اور میں تین سال سے اِدھر ہی ہوں۔ وہ جگہ بہت یاد آتی ہے، دوست یاد آتے ہیں، پتہ نہیں کس حال میں ہونگے، بڑا دکھ ہوتا ہے ماضی کو یاد کرکے..”

لومڑ کہنے لگا "یہ انسان بھی نا کچھ دیکھتا نہیں… دل کرتا ہے…” وہ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھا، "قتل کردوں اس انسان کو… مگر کیا کروں کہ میں انسان نہیں ہوں”

بھیڑیے کامنہ ابھی بھی دوسرے طرف تھا، وہیں بیٹھے بیٹھے وہ گھمبیر لہجے میں کہنے لگا "شکر کر تو انسان نہیں ہے..”
میں نے دوبارہ گیدڑ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا "ہاں تو… تم اتنی دور کیوں بھاگ آئے؟”
کہنے لگا "گیدڑ ہوں، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا”

اتنے میں بطخوں کی ایک جوڑی پانی میں تیرتے ہوئے بھیڑیے کے سامنے آکر رکی۔ ان میں سے ایک کہنے لگی "دیکھیے ہم مہمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ مہمان گھر کے لئے رحمت ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے گھر کی رونق بڑھتی ہے۔ تو ہم ٹھہرے مہمان.. آج ہیں، کل اپنے گھر کی طرف کوچ کر جائیں گے۔”

لومڑ جونی لیور کی طرح بیچ میں کود پڑا، “تو ہم کیا کریں۔ آپ کی وجہ سے تو یہ سارا پانی گدلا ہوگیا ہے اور نخرے دیکھو ان بطخوں کے۔”

میں نے لومڑ سے کہا "ایسے بات نہیں کرتے مہمانوں سے۔”
لومڑ نے جھٹ سے جواب دیا، "واہ.. اب تم ہمیں سکھاؤ گے کہ بات کیسے کی جاتی ہے… ہماری زندگی یہاں داؤ پر لگی ہے، ہمارا خیال تو نہیں آیا، اورالٹا ہمیں ہی سنا رہے ہو۔”

اسی بیچ پاس کھڑی ایک تیتری نے کچھ بولنا چاہا، گیدڑ نے سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا” لو.. اس کی بھی رام کہانی سن لو…”
تیتری کہنے لگی "گیدڑ سچ کہتا ہے.. میں بھی پہنوارو جبل سے آئی ہوں۔ وہاں ان کی مشینری کی وجہ سے ہمارے پڑوسیوں اور میرے بھی کئی انڈے ان کی مشینوں کے نیچے آگئے، اور ہمارے گھر اور سب کچھ ختم ہو گیا۔”
اتنا کہہ کر تیتری سسکیاں لینے لگی، اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا "اور پھر ہم بھی اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلے۔ میرے ساتھی کی ٹانگ بھی زخمی ہوگئی۔ ہم نے*پَراڑ جی میں پناہ لی، کچھ وقت وہیں رہنے لگے، مگر میرے ساتھی کی ٹانگ ٹھیک نہیں ہوئی۔ ایک دن یہ ظالم انسان وہاں بھی پہنچ گئے۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ بھاگ نکلی۔ مگر میرا ساتھی بھاگ نہیں سکا اور مشینری کے نیچے آکر مر گیا۔”
ہرن بیچ میں بولا "یا ﷲ.. ان کے ساتھ کتنا ظلم ہوا۔”


تیتری کے آنسو مسلسل بہتے رہے۔ اور سب خاموشی سے سنتے رہے۔ "پھر میں اور بہت سارے ہمارے ساتھی اور چرند پرند *مَور مُرادی آگئے۔”
اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا "آپ کو تو پتا ہوگا کہ ہم شبنم کا پانی پیتے ہیں، جو درختوں کے پتوں پر گرتا ہے، مگر اب یہ پانی بھی گدلا ہو گیا ہے۔ ان مشینوں اور پہاڑوں کی کٹائی کی وجہ سے درخت، ماحول اور یہ ہوا دھول اور مٹی سے اٹ چکے ہیں۔ میرا ایک بچہ برداشت نہیں کر سکا اور مر گیا، دوسرا اب کچھ بہتر ہے۔”
یہ سن کر کھیرتھر کی پہاڑیوں کی کسی چوٹی سے آیا ہوا جنگلی بکرا کہنے لگے "یا ﷲ خیر.. اس کا مطلب ہے کہ ہم سردیوں میں اب وہاں گھاس چرنے نہیں جا سکیں گے!؟”
لومڑی نے حسبِ عادت بیچ میں بکرے کو ٹوکا "ابے او مورکھ بکرے! اتنی دیر سے یہ الف لیلی’ کی کہانی سنا رہا تھا کیا؟”

ہرنی بولی "ہائے ﷲ! تبھی میری امی بار بار شکایت کر رہی ہیں کہ اسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے.. یہ سارا کیا دھرا اس بلڈر کا ہے، جو یہاں کی چراگاہوں اور پہاڑوں کو کاٹ رہا ہے اور یہ دھول اور مٹی اسی کی وجہ سے ہے”  یہ کہہ کر وہ  کھانسنے لگی "میرا بھی گلہ خراب ہے، گلے میں خارش ہو رہی ہے۔”

لومڑ بندوق نما لاٹھی پکڑے، یہ کہتے ہوئے میری طرف بڑھا۔ "یہ سب ان انسانوں کا کیا دھرا ہے۔ دل کرتا ہے انہیں قتل کردوں مگر…….”

بھیڑیے نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے لومڑ کی بات مکمل کی”مگر افسوس کہ لومڑ انسان نہیں ہے..”
سب ہنسنے لگے اور لومڑ چنکی پانڈے کی طرح اپنے دانت دکھانے لگا۔

ہر چرند پرند کی ایک درد ناک کہانی تھی اور سب کی ایک ہی جیسی کہانی تھی، جو وہ مجھے اور ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔

لومڑ نے توند نکلے ہوئے پولیس افسر کی طرح کھڑے تیتری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "اس منحوس کو پکڑو.. یہ جس جگہ گئی ہے، وہاں اپنی نحوست پھیلا رہی ہے۔ اب یہاں آئی ہے، تو اس جگہ کا مقدر بھی تباہی ہوگی۔”

اتنے میں گیدڑ نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "یہ انسان ہمارے گھر اور بچوں کو بچا سکتا ہے۔”

بھیڑیے نے طنز سے کہا "یہ۔۔۔۔!؟ اس کی تو اپنی زمین اس کے پاؤں کے نیچے سے کھینچی جا رہی ہے۔ یہ تمہیں کیا بچائے گا۔”
جنگلی بکرے نے کہا” یہ آپ کیسے کہہ رہے رہیں۔”

بھیڑیے نے کہا "سب اِدھر آجاؤ۔”
بھیڑیا ابھی بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا اس کے دونوں پاؤں پانی میں تھے اور سورج کی روشنی پانی پر پڑ رہی تھی۔ میں بھی اُٹھا اور بھیڑیے کی طرف بڑھا۔ اسی جگہ پانی میں دیکھنے لگا اور سب کی زبانیں باہر نکل آئیں منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں ایسے باہر آگئیں تھیں، جیسے سب نے موت کو اپنے سامنے دیکھ لیا ہو۔

میرے علاوہ سب جانور اور چرند پرند یک زبان ہوکر بولے، "کیا اس دھرتی پر ہمیں جینے کا حق نہیں؟”

میں اٹھا تو میرا سر چکرانے لگا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرف سے آیا ہوں، کہاں جارہا ہوں؛ اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا جیسے آسمان میرے سر پر گر رہا ہو۔ اور میرے کانوں میں مسلسل ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔ کیا اس دھرتی پر ہمیں جینے کا حق نہیں؟


* صفوراں: آج  صفورا کہلاتا ہے مگر اب وہاں  کنکریٹ کے جنگل ہیں۔
* اوکیواڑی: وہ علاقہ، جہاں اب گلشن اقبال، گلستان جوہر شہری علاقے آباد ہیں۔
* پنہوارو جبل: گڈاپ ملیر میں ایک جگہ کا نام ہے، جو کھیرتھر سلسلہ ہائے کوہ کا حصہ ہے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی سے پہلے یہاں درخت اور ندی نالوں اور جنگلی چرند پرند کا مسکن تھا۔
* پراڑ جی: یہ بھی گڈاپ ملیر میں کھیرتھر سلسلہ ہائے کوہ کا حصہ ہے۔
* مور مُرادی ایک تاریخی قبرستان ہے. یہ جگہ ایک لوک عشقیہ داستان کے دو کرداروں مور اور مُرادی کے نام سے منسوب ہے۔


عومر درویش کا یہ افسانہ 5 جون 2017 کو ایک روزن میں شائع ہوا تھا جسے سنگت میگ اپنی ویب سائٹ پر شائع کر رہا ہے.

بشکریہ ایک روزن

www.aikrozan.com


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close