ابو گئے ایک مرتبہ امریکہ، مہینہ پورا ہو گیا کوئی خط پتر نہیں، گھر میں سارے اداس، دادی کی نمازیں لمبی ہوتی گئیں، امی اپنی جگہ پریشان، رابطے کی صورت ہی کوئی نہیں تھی
میں چھوٹا تھا بہت، اتنا یاد ہے کہ ساتھ والوں کے یہاں فون آ گیا آخر ابو کا، ایک طویل انتظار کے بعد، دادی اور امی دونوں رو رہی تھیں، خوشی کے آنسو تھے یا شاید تسلی کے۔۔ وجہ بہرحال یہ بنی کہ جو خط اور پوسٹ کارڈ وہاں سے ابو نے لکھے تھے، وہ کسی وجہ سے ہم تک پہنچ نہیں سکے تھے
پوسٹ کارڈ بھی ایک مزے کی چیز ہوتی تھی۔ نئے بچے بس یوں سمجھ لیں کہ ایک طرف جہاں گئے ہیں، ادھر کی یادگاری کوئی فوٹو، دوسری سائیڈ پہ ڈاک ٹکٹ لگانے کی جگہ اور خیر خیریت لکھنے کے لیے کوئی چار بائے چار انچ کا چوکھٹا۔ خط سے اس کا خرچہ کم پڑتا تھا، جتنی باریک ہینڈ رائٹنگ ہوتی اتنا چیمپیئن سمجھا جاتا بندہ۔۔ جدھر گئے، وہاں سے ایک پوسٹ کارڈ بھیج دیا، جدھر نئیں گئے، شریکے ساڑنے کے لیے وہاں سے بھیجنے کا بندوبست بھی ہو جاتا تھا
جو سب سے مزے کی بات تھی، وہ یہ کہ موبائل فون کوئی نئیں تھا ہوتا جو چپے چپے کی خاک چھانتے ہوئے سایہ بنا رہے۔ چارج ختم ہونے کی ٹینشن، کوئی ای میل نہ ریمائنڈر!
جس علاقے سیاح جاتے، سب سے پہلے وہاں کا ایک نقشہ خریدا جاتا اور اس کے بعد چل سو چل۔۔ عام آدمی کی سیاحت میں پہلے سے پلاننگ یا جگہیں ریزرو کرنے کا سین ہی کوئی نہیں ہوتا تھا۔ جدھر بجٹ کے مطابق جگہ مل گئی ادھر ٹِک گئے، اگلے دن کی اللہ جانے۔۔ ویزے وغیرہ بھی سکون سے مل جاتے تھے، 1970 سے پہلے تک پاکستانی پاسپورٹ پہ امریکی ویزا بھی آن ارائیول یعنی امریکہ پہنچ کے ملتا ہوتا تھا، یورپ وغیرہ کے آن ارائیول ویزے 1983 کے بعد سے پاکستانیوں کے لیے بند ہوئے ہیں
اب، اس دور میں آپ نے گھومنے جانا ہو اور چھ مہینے پہلے سے ویزے کے لیے خوار ہوتے پھریں، یہ کدھر کا انصاف ہے؟ اس کے بعد پھر سارا ٹور پلان کریں، موڈ ہو تو کسی ٹورنگ کمپنی کے ساتھ چلے جائیں لیکن چھٹیوں کے دن بھی اگر گھڑی کے ساتھ باندھ کے گزار دینے ہیں تو یہ کیسی سیر ہوئی؟ ٹوں ٹوں۔۔۔ آج دس بجے توپ کاپی جانا ہے، ٹی ٹی۔۔۔ چار گھنٹے پورے، اب آیا صوفیہ جائیں، بیپ بیپ، دو گھنٹے ہو گئے، موبائل پہ دیکھ کے وہاں پہنچیں جدھر کھانے کا بندوبست ہے، پاں پاں۔۔۔ ہارن بج گیا بس کا، سارے ٹورسٹ بس میں پہنچیں، گھڑی دیکھ کے رات کو سونے لیٹیں اور اگلی صبح کی ٹوں ٹوں کا انتظار شروع کر دیں!
مسئلہ یہ ہے کہ چلیں یہ سب بھی ہو تو چلے گا، ایئرپورٹ پہ لمبی لائنیں اور خود لمبے ترین ایئرپورٹ، کرونے کے ٹیسٹ اور پتہ نئیں کیا کیا اب لازمی ہو چکا ہے، اس سب میں وہ بندہ کدھر جائے، جس نے گھڑی اتار کے سیر کرنی ہے؟
پاکستان کے اندر بات کر لیں سیاحت کی۔۔ یہ لازم کیوں ہے کہ جس پہاڑی علاقے میں ٹھہرنا ہے، اس کا چپہ چپہ چھان مارنا ہے۔ ہم ایک جگہ بیٹھ کے دنیا انجوائے کیوں نہیں کر سکتے؟ روز صبح اٹھنا ہے، نئی نہر کھودنی ہے، اس میں پاؤں گیلے کرنے ہیں اور پھر کُدال اٹھا کے آگے بڑھ جانا ہے۔ سیر کرنے میں کیا صرف گھومنا شامل ہے؟ کسی اچھی جگہ پہ سات آٹھ دن صرف رہا نہیں جا سکتا؟
آج کل والی سیاحت میں سے تفریح ڈھونڈنا مشکل ترین ہو گیا ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ جگہیں کم سے کم وقت میں گھومنا چاہتے ہیں، مگر کیوں؟ انسٹاگرام کے لیے یا روٹین کی زندگی سے فرار کے لیے؟ اس کے علاوہ مقصد کیا ہوتا ہے؟
بچے گھومنے جانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے اسکول میں دوسرے بچے جب چھٹیوں سے واپس آئیں گے، تو ان کے پاس کئی کہانیاں ہوں گی اور ہمارے والے بچے کے ہاتھ خالی ہوں گے، اگر وہ کہیں جائے گا نہیں
خواتین گھومنے جانا چاہتی ہیں کیونکہ آس پاس کی سہیلیاں اور رشتے دار جگہ جگہ رنگ رنگ کی تصویریں لگاتے ہیں
مرد حضرات گھومنے جاتے ہیں تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ ’ہم اپنی فیملی ہالیڈیز کیسی کُول جگہوں پر گزارتے ہیں‘ اور بعد میں پھر حسبِ استطاعت اکیلے بھی گھومنے جاتے ہیں، جس کی تصویریں گھٹ ودھ ہی انسٹاگرام پہ آتی ہیں
سوال یہ ہے کہ اس سب کے بیچ وہ کلاسیکل والا سفر اور سیر اور سیاحت کہاں رہ گئے، جب جانے والا کئی کئی دن ایک ہی جگہ پڑا رہتا تھا۔ پیدل گھوم کے روز ایک آدھ جگہ دیکھتا، تھوڑے بہت پیسے کمانے کے لیے چھوٹی موٹی نوکری کرتا، اگلے دن جوگے پیسے ہو جاتے تو پھر سیر کے لیے نکل جاتا۔۔ اور اگر وہ سب نہیں باقی رہ گیا تو اب جو کچھ ہم کرتے ہیں، کیا اسے سیاحت کہا جا سکتا ہے؟ یا شاید اب جو ہوتی ہے، فاسٹ فارورڈ کے ساتھ، سینکڑوں سیلفیوں کے ساتھ، سیاحت وہ ہوتی ہے ۔۔۔ پہلے جو ہوتا تھا، وہ کچھ اور ہی تھا!
خیر، رالف والڈو ایمرسن ایک صاحب تھے، انہوں نے کہا تھا کہ ’ٹریولنگ از اے فولز پیراڈائز‘ مجھے گھر پہ بیٹھے بیٹھے ایسا لگتا ہے کہ روم جا کے شاید میں اپنے سارے غم بھلا دوں گا، اداسی ختم ہو جائے گی۔ ایک طویل سفر کے بعد جب بالآخر روم کی پہلی صبح میری آنکھ کھلتی ہے تو ادھر میرے ساتھ پھر وہی اداسی ہوتی ہے۔۔۔ وہی سب کچھ یہاں بھی ہوتا ہے، جس سے بھاگنے کے لیے میں نے اتنا لمبا سفر کیا۔ میں زیادہ سے زیادہ تاریخی جگہیں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ بھوت، میرے اندر کی اداسی کا، وہ ساتھ ساتھ ہی چلتا ہر جگہ پہنچ جاتا ہے
انہوں نے کوئی سو سوا سو برس پہلے یہ بات کہی تھی لیکن اچھی تحریر کی خوبی شاید یہی ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ تازہ لگے!
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)