حال ہی میں مودی سرکار نے سپریم کورٹ میں داخل حلف نامے میں دلیل دی ہے کہ اسلام اور عیسائیت میں اونچ نیچ نہیں ہے لہٰذا دلت ہندو مذہب تبدیل کرنے کے بعد ریزرویشن کا آئینی حق کھو دیتا ہے۔ جبکہ متعدد تنظیموں نے اس دلیل کو بے بنیاد قرار دیا ہے
واضح رہے کہ بھارت میں ریزرویشن ایک بہت بڑا سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسئلہ رہا ہے۔ بھارتی آئین کی رو سے مختلف مذہبی طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تعلیم اور ملازمت میں ریزرویشن کی الگ الگ فیصد طے ہے
تاہم ان دنوں سپریم کورٹ میں ایک کیس زیر غور ہے کہ کیا اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اگر کوئی دلت ہندو، جسے شیڈولڈ کاسٹ بھی کہا جاتا ہے، اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام یا مسیحیت قبول کرلیتا ہے، تب بھی وہ ریزرویشن کا حقدار رہے گا؟
دراصل ایک غیرسرکاری تنظیم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر کے کہا ہے کہ 1950ع کا (شیڈولڈ کاسٹ) آئینی حکم غیرآئینی ہے، کیونکہ اس میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتے ہوئے صر ف ہندو، بودھوں اور سکھوں کو شیڈولڈ کاسٹ قرار دیا گیا ہے جبکہ بھارتی آئین میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں رکھی گئی ہے
دوسری جانب ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی مودی سرکار اس کے خلاف ہے۔ اس نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کے کہا ہے کہ چونکہ ہندو دھرم کے برخلاف اسلام اور مسیحیت میں کسی طرح کا اچھوت کا تصور نہیں ہے، لہٰذا اپنا دھرم تبدیل کرکے ان دونوں میں سے کوئی بھی مذہب اختیار کرنے والا ریزرویشن کا آئینی حق کھو دیتا ہے
سماجی اور مذہبی تنظیموں نے مودی حکومت کی اس دلیل کو بے بنیاد قرار دیا ہے
اس حوالے سے سماجی کارکن اور جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینئر محمد سلیم کا کہنا ہے کہ 1950 کا (شیڈولڈ کاسٹ) آئینی حکم نامہ بہت خطرناک ہے، کیونکہ یہ بھارتی شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے
انہوں نے مزید کہا کہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی بھی اسی وجہ سے مخالفت کی گئی تھی کیونکہ یہ مذہبی بنیاد پر تفریق کرتا ہے
انجینئرمحمد سلیم کا کہنا تھا کہ تمام انصاف پسند اس آئینی حکم کے خلاف ہیں۔ حتٰی کہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ جسٹس رنگ ناتھ مشرا کمیشن نے بھی سن 2007ع میں اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ شیڈولڈ کاسٹ کے ریزرویشن کا معاملہ مذہب سے بالکل الگ رکھا جائے۔ اور آئین نے جن گروپوں اور ذاتوں کو شیڈولڈ کاسٹ کا درجہ دیا ہے، اگر ان کے افراد کوئی دوسرا مذہب قبول کرلیتے ہیں تب بھی ان کی سابقہ حیثیت برقرار رہنی چاہئے۔ جس طرح کہ شیڈولڈ ٹرائب یعنی قبائلیوں کے معاملے میں ہے
خیال رہے کہ بھارتی آئین میں ابتدائی طور پر یہ کہا گیا تھا کہ جو ہندو شیڈولڈ کاسٹ ہیں، انہیں شیڈولڈ کاسٹ ہی سمجھا جائے گا۔ اس کے بعد 1956ع میں آئین میں ترمیم کر کے سکھ مت اختیار کر لینے پر بھی شیڈولڈ کاسٹ کا درجہ برقرار رکھا گیا۔ سن 1990ع میں آئین میں ایک اور ترمیم کی گئی، جس میں ہندو دلت یا شیڈولڈ کاسٹ کے بودھ مت اختیار کر لینے پر بھی ان کا شیڈولڈ کاسٹ کا درجہ اور انہیں ملنے والی تمام مراعات برقرار رکھی گئیں۔ تاہم اسلام یا مسیحیت اختیار کر لینے کے بعد یہ رعایت چھین لی گئی
انجینئر محمد سلیم کہتے ہیں کہ یہ پہلے سے ہی تفریقی تھا اور آئین میں ترمیم کر کے اسے مزید تفریقی بنا دیا گیا ہے۔