طلسماتی سپاہی کا قصہ

واشنگٹن اِروِنگ (ترجمہ: سید وقار عظیم)

سلمانکا سینٹ سپرین کے غار کا نام کس نے نہیں سنا ہوگا؟ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک ساحر گورکن یہاں پوشیدہ طور پر ہئیت، علم الارواح اور دوسرے علومِ مظلمہ اور فنونِ خبیثہ کی تعلیم دیتا تھا۔ بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ اس ساحر گورکن کے بھیس میں خود ابلیس تھا۔ اس غار کا منہ مدتیں ہوئیں بند کر دیا گیا اور لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کا محل وقوع کیا تھا۔۔ گو عام روایت یہ ہے کہ یہ غار اس جگہ تھا، جہاں مدرسۂ قروجل کے مختصر صحن میں پتھر کی صلیب نصب ہے۔ اور ہم اس وقت جو داستان سنا رہے ہیں اس سے اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے

کسی زمانے میں سلمانکا میں ایک طالب علم پڑھتا تھا، جس کا نام ڈان وِسنتے تھا۔ یہ طالب علم بےفکرے طلباء کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا، جو خالی ہاتھ اور خالی جیب لے کر علم کی رہ گزر پر گامزن ہو جاتے ہیں اور مدرسے کی تعطیل کے زمانے میں قریہ قریہ، دیار دیار پھر کر دریوزہ گری کرتے ہیں اور اپنی تعلیم کے لئے فلوس و دِرم فراہم کرتے ہیں۔ چھٹیاں ہوئیں تو وِسنتے نے بھی یہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے موسیقی سے تھوڑا بہت لگاؤ تھا اس لئے اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے اس نے اپنے کندھے پر ایک ستار رکھ لیا کہ سادہ دل دہقانیوں کو خوش کر کے اپنے لئے زادِ راہ حاصل کرتا رہے

وہ مدرسے کے صحن میں لگی ہوئی پتھر کی صلیب کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے اپنی ٹوپی اتاری اور سینٹ سپرین سے اپنی مہم کی کامیابی کی دعا مانگنے لگا۔ وہ دعا مانگ رہا تھا کہ صلیب کے قریب زمین پر اسے کوئی چیز چمکتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے جھک کر وہ چمکدار چیز اٹھائی تو وہ کسی کی مہر تھی، جو سونے اور چاندی کے میل سے بنائی گئی تھی۔ مہر پر دو مثلث اس طرح بنے ہوئے تھے کہ ان کے کٹنے سے ایک ستارے کی شکل بن جاتی تھی۔ ستارے کے اس نمونے کو قوت کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے، اور جسے سحر و طلسم میں بڑی اہم چیز خیال کیا جاتا ہے، لیکن سیدھا سادا طالب علم نہ ولی تھا نہ ساحر اور اس لئے اس علامت کی اہمیت سے واقف نہ تھا۔ اس نے انگوٹھی کو سینٹ سپرین کا انعام سمجھ کر انگلی میں ڈال لیا اور صلیب کو تعظیم دے کر سِتار کے تاروں پر انگلیاں مارتا خوشی خوشی اپنی مہم پر روانہ ہو گیا

اسپین میں اس طرح کے گداگر یا وظیفہ خوار طالب علموں کی زندگی بڑے مزے سے گزرتی ہے، بشرط یہ کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ وہ اپنے من کی موج میں گاؤں گاؤں، شہر شہر گھومتے پھرتے ہیں۔ گاؤں کے چھوٹے پادری، جو اپنی طالب علمی کا دور اسی طرح گزار چکے ہوتے ہیں، ان سیاح طالب علموں کی دل سے اور قابل قدر انداز سے میزبانی کرتے ہیں اورجاتے ہوئے دو چار سونے یا چاندی کے سکے بھی عنایت کر کے انہیں رخصت کر دیتے ہیں۔ شہر کی گلیوں میں دربدر پھرنے والے ان طالب علموں کو نہ کوئی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہ ان سے بےرخی برتتا ہے۔ اس لئے کہ علم کے حصول کی خاطر یہ دریوزہ گری (بھیک مانگنا ) کوئی معیوب چیز نہیں۔ یوں کہ ہسپانیہ کے اکثر اربابِ علم و فضل کی علمی زندگی کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے۔ لیکن اگر طالب علم ایسا ہو جیسا کہ ڈان وسنتے تھا، خوش رو اور خوش مزاج اور سِتار بجانے کے ہنر سے واقف، تو دہقان اس کا بڑا پرجوش خیر مقدم کرتے ہیں

غرض یہ کہ علم و دانش کے اس شکستہ حال اور موسیقی داں فرزند نے اسپین کی مملکت کا نصف سے زیادہ حصہ طے کر لینے کے بعد یہ تہیہ کیا کہ واپسی سے پہلے غرناطہ کی زیارت ضرور کرے گا۔ اپنی اس طالب علمانہ سیاحت میں اسے کبھی گاؤں کے پادری کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا اور کبھی کسی دہقان کی سادہ لیکن پرخلوص جھونپڑی کی آغوش میں پناہ ملتی۔ جب وہ دہقانوں کی جھونپڑیوں کے دروازے پر بیٹھ کر ستار بجاتا اور سادہ دھن میں کوئی دلکش نغمہ چھیڑتا تو سادہ دل دہقانوں کے دل کنول کی طرح کھل جاتے اور کبھی کبھی گاؤں کے چراغوں کی مدھم روشنی میں دہقانوں کے معصوم بچے اور بچیاں اس کی دھنوں پر رقص کرنے لگتے۔ صبح کو وہ میزبان اور اس کی بیوی کی دعاؤں کاتحفہ لے کر وہاں سے رخصت ہو جاتا

بالآخر ہوتے ہوتے وہ اپنی اس پُر ترنّم آوارگی کی منزلِ مقصود، یعنی غرناطہ کے مشہور و معروف شہر میں پہنچ گیا اور حیرت سے عربوں کے تعمیر کئے ہوئے بُرجوں اور میناروں، اس کے حسین مرغزاروں اور بہار کی فضا میں چمکتے ہوئے برفانی پہاڑوں پر نظر ڈال کر خوش ہونے لگا۔ یہ بتانا لاحاصل ہے کہ وہ کس فرطِ شوق سے غرناطہ کے پھاٹک میں داخل ہوا اور اس کی شاہراہوں پر گھوم پھر کر مشرقی تعمیر کی شاندار یادگاروں کا کس حیرت و استعجاب سے مشاہدہ کیا۔ شہر کی شاہراہ سے گزرتی ہوئی ہر حسینہ کو اس کی نظر نے کوئی عرب شہزادی جانا اور اپنی طالب علمانہ گلیم (اونی کپڑا) اس کے قدموں میں بچھا دی

وِسنتے کے بوسیدہ فرسودہ لباس کے باوجود، اس کی موسیقی کی مہارت، اس کی زندہ دلی، اس کی کمسنی اور اس کی مردانہ وجاہت نے اسے ایک نمایاں شخصیت بنا دیا اور اس نے غرناطہ کی گلیوں اور اس کے نواح میں کئی دن بڑے لطف اور بڑی آسائش سے بسر کئے۔ غرناطہ میں اس کا سب سےپسندیدہ مستقر، وادیِ حدرہ کا مشہور فوارہ تھا۔ یہ فوارہ غرناطہ کی سب سے پُرلطف سیر گاہ ہے، جو عرب حکمرانوں کے زمانے میں اتنی ہی پسندیدہ تھی جتنی آج کل

فوارے پر پہنچ کر وہ اپنے لئے ایک گوشہ تلاش کر لیتا اور یہاں بیٹھ کر، اپنے گرد حلقہ بنا کر کھڑے ہو جانے والے مداحوں کو محبت کے گیت سناتا۔ ایک شام وہ اسی طرح مردوں اور عورتوں کے حلقے میں بیٹھا ستار بجا رہا تھا کہ اس نے ایک پادری کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا

پادری کے قریب آتے ہی سب نے احتراماً اپنی ٹوپیوں پر ہاتھ رکھ کر اسے سلام کیا۔ بظاہر وہ کوئی بڑا آدمی معلوم ہوتا تھا اور اس کا چہرہ مقدس زندگی کا نہ سہی، پُرآسائش زندگی کا آئینہ دار یقیناً تھا۔ اس کا چہرہ بھرا بھرا سا تھا اور اس پر خون کی سرخی چھلک رہی تھی۔ موسم کی حدت اور پیادہ پائی کی مشقت سے اس کا جسم پسینے میں تربتر تھا۔ پادری سڑک پر سے گزرتے ہوئے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اپنی جیب سے کوئی سکہ نکالتا اور کرم گُستری (عنایت) کی ایک خاص شان سے کسی گداگر کے ہاتھ پر رکھ دیتا۔ یوں فقیروں پر جود و سخا کی یہ بارش کرتا پادری آگے بڑھتا اور لوگوں کی دعائیں لیتا رہا۔ ”خدا پادری کو بڑی عمر دے اور جلدی بڑے پادری کا عہدہ عطا کرے“

پہاڑی کے سنگلاخ راستے سے اترتے ہوئے وہ کبھی کبھی شفقت و نرمی سے اپنے ساتھ چلتی ہوئی حسین خادمہ کے ہاتھ کا سہارا لیتا۔ جس کے لئے بظاہر اس مہربان پادری کے خانہِ دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ شفیق پادری نے فوارے کے قریب والے مجمعے پر شفقت کی نظر ڈالی اور اطمینان سے ایک پتھر کی تپائی پر بیٹھ گیا۔ خادمہ نے فوراً ہی ہیرے کی طرح چمکتے ہوئے شفاف پانی کا ایک گلاس اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ پادری نے پانی ایک ایک گھونٹ کر کے مزے لے لے کر پی لیا اور ہر گھونٹ میں پہلے سے تلے ہوئے انڈے کا ایک خوش ذائقہ ٹکڑا منہ میں رکھ کر مسرور ہوتا رہا

ستار بجاتے ہوئے طالب علم حسرت سے دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ کتنا خوش نصیب ہے یہ مہربان پادری بھی۔۔

لیکن یہ قابلِ رشک مسرت اس کے نصیب میں نہ تھی۔ اس نے وہ سارے افسوں جن سے دہقان دوشیزاؤں کو بارہا اپنا مفتوں و گرویدہ بنا چکا تھا، آج بھی آزمائے لیکن پادری کے جیسی قابلِ رشک مسرت اس کے حصے میں نہ آئی۔ اس نے اپنے ستار کے تاروں کو کبھی اس مہارت سے نہ چھیڑا تھا اور کبھی اس کے سینے سے اتنے دل دوز نغمے نہ نکلے تھے، لیکن افسوس! اس کے حریف گاؤں کے پادری اور دہقانی دوشیزائیں نہیں تھیں

شفیق پادری کو غالباً موسیقی سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور خادمہ نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی نظریں زمین سے نہ ہٹائیں۔ پادری نے پتھر کی تپائی پر بہت تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر غرناطہ کا رخ کیا۔ خادمہ نے چلتے ہوئے ایک اچٹتی سی شرمیلی نظر طالب علم پر ڈالی

دونوں چلے گئے تو اس نے لوگوں سے ان کا اتا پتا پوچھا۔ پادری ٹامس کے غرناطہ کے پادریوں میں سے ایک تھا، پابندیِ اوقات کا مکمل نمونہ۔ اس کے سو کر اٹھنے، ناشتہ کرنے، کھانا کھانے، قیلولہ کرنے، بچوں کے معصوم کھیل کھیلنے، شام کو ٹہلنے، رات کو گرجے کے مخصوص حلقوں میں گپ بازی کرنے اور سونے کے اوقات مقرر تھے۔ وہ ان کی پوری پابندی کرتا اور اگلے دن پھر انہی معمولات کے وظیفے کے لئے تروتازہ اور بیدار ہوتا۔ سواری کے لئے اس کے پاس ایک چکنا چپڑا سُبک رو خچر تھا، اس کے پسندیدہ کھانے پکانے کے لئے ایک مستعد خادمہ، اور گھر کے کام کاج کے لیے وہی خادمہ جو ابھی اس کے ساتھ تھی

طالب علم نے پادری کے مسکن تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس جیسے کوچہ گرد طالب علموں کی رسائی سے باہر تھا۔ پادری کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی اس لئے کہ اسے کبھی اپنی محفل کو پُر رونق رکھنے کے لئے ستار کی تاروں کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی

آخر ہوتے ہوتے سینٹ جان کا تہوار آ پہنچا، جب غرناطہ کے غریب، مرد، عورتیں اور بچے دیہاتوں کا رخ کرتے ہیں، شام کا وقت رقص و نغمے میں گزارتے ہیں اور راتیں حدرۃ اور شنیل کے ساحلوں پر بسر کرتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ، جنہیں اس وقت، جب آدھی رات کو گرجا کی گھنٹیاں بجتی ہوں، حدرۃ و شنیل کے بہتے ہوئے پانی میں منہ دھونے کا موقع مل جائے۔ اس لئے کہ اس خاص لمحے پانی میں چہرے کو حسین بنانے کی طلسمی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے

کوچہ گرد طالب علم کی بےشغلی اسے بھی غرناطہ کے سیلانیوں کے ساتھ حدرۃ کی تنگ وادی میں لے آئی اور اس نے اپنے آپ کو بِلا ارادہ، الحمرا کے سرخ بُرجوں کے زیر سایہ پہاڑی کے دامن میں کھڑا پایا۔ دریا کی خشک ترائی، اسے اپنے حلقے میں لینے والی سنگلاخ چٹانیں اور ان چٹانوں کا حاشیہ بنانے والے مرغزار، ان آوارہ گردوں اور سیلانیوں کی گہما گہمی اور چہل پہل سے معمور تھے اور انگوروں اور انجیروں کے سائے میں ستار اور جھانجھ اور رقص کی جھنکار گونج رہی تھی۔
طالب علم حدرۃ کے تنگ پہل کے ایک بھدے اور بھاری پتھر کے سہارے کھڑا غم کے بھنور میں ہچکولے کھاتا رہا۔ اس نے اس ہشّاش بشّاش مجمع پر حسرت بھری نظر ڈالی، جس میں ہر نوجوان کے ہاتھ میں ایک ساتھی کا ہاتھ تھا اور وہ اپنی تنہائی کے احساس سے غمگین، اُس چشمِ مست کے تصور میں غرق تھا، جس تک اس کی رسائی نہ تھی۔ اسے اپنا بوسیدہ لباس محبت کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا نظر آ رہا تھا

اتفاق سے اس کی نظر ایک اور آدمی پر پڑ گئی، جو اسی کی طرح یکّہ و تنہا اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ یہ منفرد و تنہا شخص خاکستری داڑھی اور سنجیدہ چہرے والا ایک طویل قامت سپاہی تھا، جسے بظاہر انار کے درخت کے پاس سنتری بنا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ زمانے نے اس کے چہرے کو سنولا دیا تھا

اس کے جسم پر ایک قدیم ہسپانوی زرہ بکتر، کندھے پر ڈھال اور ہاتھ میں نیزہ تھا اور وہ اپنی جگہ بت بنا کھڑا تھا۔ یہ بات طالب علم کے لئے باعثِ حیرت تھی کہ گو کہ اس سپاہی کے جسم پر ایسا عجیب لباس تھا، لیکن گزرنے والوں میں سے کوئی اُس کی طرف دھیان نہ دیتا۔ وہ اس کے جسم کو چھوتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے

طالب علم نے اپنے دل میں سوچا ”یہ شہر قدیم زمانے کے عجائبات کا شہر ہے، اور یقیناً یہ سنتری بھی اس شہر کا ایسا عجوبہ ہے، جس سے یہاں کے باشندے اچھی طرح مانوس ہیں اور اس لئے اس کی یہاں موجودگی ان کے لئے باعثِ استعجاب نہیں“

لیکن اس کے ذوقِ تجسس نے اس کے قدموں کو جنبش دی اور طبعاً ملنسار ہونے کے سبب وہ سپاہی کے قریب گیا اور اسے یوں مخاطب کیا ”اجنبی دوست! تم نے کتنا عجیب زرہ بکتر پہن رکھا ہے؟ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم کس فوجی دستے کے سپاہی ہو؟“

سپاہی نے ان جبڑوں کو ہلا کر، جو یقیناً زنگ آلود ہو چکے تھے، بہ مشکل جواب دیا ”فرڈیننڈ اور ازابیلا کے محافظ شاہی دستے کا!“

"خداوند تم پر رحم کرے! لیکن یہ فوجی دستہ تو اب سے تین صدیاں پہلے رہا ہوگا“

”اور تین صدیوں سے میں سنتری کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔۔ میرا خیال ہے کہ اب میرے گشت کی مدت ختم ہونے والی ہے۔۔ لیکن تم بتاؤ ، کیا تمہیں دولت چاہیے؟“

طالب علم نے جواب میں اپنا بوسیدہ لبادہ اس کے آگے پھیلا دیا

”میں تمہارا مطلب سمجھ گیا۔ لیکن تم میں ہمت اور ایمان ہے تو میرے ساتھ آؤ اور سمجھ لو کہ تمہارے دن پھر گئے“

"دوست! ذرا ٹھہر ٹھہر کر بولو۔۔ اور جان لو کہ جس کے پاس ایک جان اور ایک ٹوٹے پھوٹے ستار کے سوا کھونے کو کچھ اور نہ ہو اسے تمہارے ساتھ چلنے کے لئے زیادہ ہمت کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ میرے لئے ان دونوں چیزوں کی قیمت یکساں ہے۔ لیکن میرا ایمان؟ اس کی صورت ذرا مختلف ہے۔ اسے طمع کا شکار بنانا آسان نہیں۔ اگر میرے دن کوئی جُرم کر کے پھرنے والے ہیں تو ہر گز مت سمجھو کہ میرا یہ بوسیدہ لباس مجھے کسی جرم پر آمادہ کر سکے گا“

سپاہی نے طالب علم پر سخت غصے کی نگاہ ڈالی اور بولا ”میں نے تلوار اپنے مذہب اور تاج کی حمایت کے سوا کبھی کسی اور مقصد سے نہیں اٹھائی۔ میں سچا عیسائی ہوں۔ مجھ پر بھروسا کرو اور بےخوف ہو کر میرے ساتھ چلو“

طالب علم حیرت سے اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ گزرنے والوں میں سے کسی نے ان کی گفتگو میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لی اور سپاہی سیلانیوں کے گروہوں میں سے اس طرح گزرتا رہا، جیسے وہ کسی کو نظر ہی نہیں آ رہا۔
پُل پار کر کے، سپاہی ایک تنگ اور سنگلاخ راستے سے ہوتا ہوا مسلمانوں کے زمانے کی ایک پن چکی کے پاس پہنچا اور وہاں اس نالے کے اوپر چڑھ گیا، جو الحمرا اور جنت العریف کی حد بندی کرتا ہے

سورج کی آخری کرنیں الحمرا کی قرمزی فصیلوں پر پہنچ کر اپنا دن کا سفر ختم کر رہی تھیں اور گرجا کی گھنٹیاں تہوار کی مسرتوں کا پیام سنا رہی تھیں۔ انجیر کے درختوں، انگور اور حنا کی شاخوں اور قلعے کے بیرونی بُرجوں اور دیواروں کا سایہ نالے پر پڑ رہا تھا۔ فضا تاریک اور سنسان تھی اور کہیں کہیں چمگادڑوں کے پیروں کی سنسناہٹ سنائی دینے لگی تھی۔ سپاہی چلتے چلتے ایک دُور اُفتادہ بُرج کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ اس نے اپنی برچھی کا دستہ زور سے زمین پر مارا۔ گڑگڑاہٹ کی آواز پیدا ہوئی اور سنگلاخ زمین میں دروازے کے برابر چوڑا ایک شگاف پیدا ہو گیا

سپاہی نے طالب علم سے کہا ”مقدس تثلیث کا نام لے کر اندر داخل ہو جاؤ اور ڈرو مت!“

طالب علم کا کلیجہ کانپ گیا لیکن اس نے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور اپنے پُراسرار رہنما کی قیادت میں ایک گہرے تہہ خانے میں داخل ہوا جو چٹان کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ تہہ خانے کی دیواروں پر ہر طرف عربی عبارتیں کندہ تھیں۔ سپاہی نے تہہ خانے کے ایک طرف بچھی ہوئی ایک پتھر کی تپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طالب علم سے کہا ”تین سو سال سے یہی پتھر میری نشست گاہ ہے“

حیرت زدہ طالب علم نے سپاہی پر ایک فقرہ چست کرنے کی کوشش کی ”سینٹ انتھونی کی قسم! اس نرم و نازک بستر پر تمہیں نیند تو خوب گہری آتی ہوگی!“

”تمہارا خیال درست نہیں۔ یہ آنکھیں نیند کی رفاقت سے بیگانہ ہیں۔ تین سو سال سے مسلسل نگہبانی میرا مقسوم رہی ہے۔ تم چاہو تو میری داستان سن لو۔ جیسا کہ میں تمہیں بتا چکا ہوں، میں فرڈنینڈ اور ازابیلا کے شاہی محافظ دستے کا ایک سپاہی تھا۔ عربوں کے ایک دھاوے میں گرفتار ہوا اور اس برج میں قید کر دیا گیا۔ جب عیسائیوں کا اقتدار شروع ہوا اور اس قلعے کو ان کے حوالے کرنے کی تیاریاں ہونے لگیں تو ایک بوڑھے نے میری مدد سے ابی عبداللہ کا کچھ خزانہ اس تہہ خانے میں منتقل کر دیا۔ یوں یہ خزانہ نہ ابو عبداللہ کے ہاتھ لگا اور نہ فرڈیننڈ و ازابیلا کے۔۔بوڑھے نے، جو حقیقت میں ایک افریقی ساحر تھا، اپنے سحر کی تاثیر سے مجھے اس خزانے کا پاسبان بنا دیا۔ یہ خدمت میرے سپرد کر دینے کے بعد بوڑھا ساحر پھر کبھی یہاں نہیں آیا۔۔
خدا جانے اس کا کیا حشر ہوا۔ میں اسی وقت سے اس تہہ خانے میں زندہ درگور ہوں۔ صدیاں گزر گئیں۔۔ زلزلوں نے پہاڑ کو تہہ و بالا کر دیا۔ بُرج اور قلعے کے پتھر ایک ایک کر کے زمین کی سطح پر آتے رہے۔ زمانے کی فطری دست برد نے گرد و پیش کی ہر چیز کو نیست و نابود کر دیا، لیکن تہہ خانے کی سحرزدہ دیواریں زلزلے اور وقت کے حوادث سے بےخبر مضبوطی سے اپنی جگہ کھڑی ہیں۔
ہر سو سال کے بعد سینٹ جان کے تہوار کے دن طلسم کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے اور مجھے اس غار سے حدرۃ کے پُل پر جا کر اس جگہ کھڑے ہونے کی اجازت ملتی ہے، جہاں آج تم نے مجھے دیکھا تھا۔ میں اس جگہ کھڑا ہو کر اس شخص کا انتظار کرتا ہوں، جس کے ہاتھوں یہ طلسم ٹوٹنے والا ہے۔
آج سے پہلے میں نے سینٹ جان کے دو تہوار وہاں کھڑے ہو کر گزارے لیکن مجھے میرے طلسم سے رہائی دینے والا نہ آیا، اور میں انسانوں کی نظر سے اوجھل اس طرح یہاں واپس آ گیا جیسے بادلوں نے مجھے پردے میں چھپا رکھا ہو۔ تم پہلے شخص ہو جس نے تین سو سال بعد آج مجھ سے بات کی اور اس کا سبب مجھے معلوم ہے۔ تمہاری انگلی پر داؤدی ستارے والی انگوٹھی ہے، جس کی تاثیر ، پہننے والے کو ہر طلسم کے اندیشوں سے بےخطر اور محفوظ کر دیتی ہے۔ اب یہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ مجھے اس قید سے رہائی دلواؤ یا سو برس کے لئے اور اسی قید میں چھوڑ جاؤ۔“

طالب علم حیرت سے مستغرق یہ داستان سنتا رہا۔ اس نے اس سے پہلے بھی الحمرا کے تہہ خانوں میں چھپے ہوئے طلسمی دفینوں کے افسانے سنے تھے لیکن انہیں ہمیشہ محض افسانہ سمجھ کر ان پر یقین نہ کیا تھا۔ اسے اب اس مہر کی قیمت کا اندازہ ہوا جو اسے سینٹ سپرین سے انعام میں ملی تھی۔ گو وہ ایسے قوی اور مؤثر طلسم سے مسلح تھا لیکن اس طرح ایک طلسمی غار کے تہہ خانے میں قید ہونا اور ایک ایسے طلسمی انسان سے باتیں کرنا، جسے قوانینِ قدرت کے مطابق اب سے تین سو برس پہلے اپنی قبر میں دفن ہونا چاہیے تھا، اسے بڑا عجیب معلوم ہوا

اس طرح کا انسان زندگی کے عام انداز سے بالکل مختلف تھا لیکن اسے محض مذاق یا افسانہ سمجھ کر نہیں ٹالا جا سکتا تھا، اس لئے اس نے طلسمی سپاہی کو یقین دلایا کہ وہ اس کی دوستی پر بھروسا کر سکتا ہے۔ وہ اس کی رہائی کے لئے جو کچھ ہو سکے گا، اس سے دریغ نہ کرے گا

طالب علم کی زبان سے دوستی کی بشارت کے جواب میں سپاہی بولا ”میں دوستی سے زیادہ کسی اور چیز کا قائل ہوں“

وہ فولاد کے ایک بےحد وزنی صندوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ، جس میں کئی قفل پڑے ہوئے تھے اور جس پر ہر طرف عربی کی عبارتیں کندہ تھیں، ”اس صندوق میں بےشمار سونے کے سکے، جواہرات اور بیش بہا زیورات بند ہیں۔ اگر تم اس طلسم کو توڑ دو، جس میں مَیں قید ہوں، تو اس خزانے میں سے آدھا تمہارا ہوگا۔“

”لیکن میں اس طلسم کو کیسے توڑ سکتا ہوں؟“

”اس کام کے لئے ایک عیسائی پادری اور ایک عیسائی دوشیزہ کی مدد درکار ہے۔ عیسائی پادری طلسم کے الفاظ پڑھنے کے لئے اور دوشیزہ اس آہنی خزانے کو داؤدی ستارے والی انگوٹھی سے چُھونے کے لئے۔ اور یہ کام آج ہی رات کو کرنے کا ہے۔ اس سنجیدگی اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ یہ پاکیزہ صفت لوگوں کے ہاتھوں انجام پائے۔۔
پادری کو صحیح قسم کا دین دار اور تقدّس کا مجسمہ ہونا چاہیے اور یہاں آنے سے پہلے ایک دن روزہ رکھنا چاہیے۔ اسی طرح دوشیزہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی سیرت معصیت سے پاک ہو اور آسانی سے نفس پرستی کی شکار نہ ہو جائے۔ تمہیں ایسے دو آدمیوں کی مدد حاصل کرنی ہے۔ لیکن کام ایسا ہے کہ اس میں تاخیر کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ تین دن کی فرصت ہے۔ اگر تین دن کے اندر مجھے رہائی نہ ملی تو میری ایک صدی پھر اسی قید خانے میں بسر ہو گی“

”گھبراؤ مت…“ طالب علم نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا ”ایسا پادری اور ایسی دوشیزہ میری نظر میں ہے۔ لیکن اپنی مہم کی تکمیل کے بعد میں اس تہہ خانے میں کیسے پہنچوں گا؟“

”انگوٹھی تمہاری رہنمائی کرے گی۔ تہہ خانے کا راستہ تمہارے لئے کھل جائے گا“

طالب علم تیزی سے تہہ خانے سے نکلا۔ اس کے باہر نکلتے ہی سنگین راستہ بند ہو گیا اور زمین پہلے کی طرح ہموار ہو گئی

اگلے دن علی الصبح وہ پادری کی حویلی پہنچ گیا۔ آج اس کے قدم جرأت و استقامت سے اٹھ رہے تھے۔ آج وہ کوچہ گرد طالب علم کی حیثیت سے پادری کے پاس نہیں جا رہا تھا، جس کا مقسوم ستار بجانا اور دریوزہ گری کرنا تھا۔ آج وہ طلسمی دنیا کا سفیر بن کر اس کے پاس آیا تھا اور اس کے پاس زمین کے پُراسرار طلسمی خزانوں کی بشارت تھی

اس سفارت کی تفصیل داستان میں بالکل نہیں بتائی گئی۔ سوائے اس کے، کہ ایک راسخ العقیدہ سپاہی کو بچانے اور ایک بیش بہا خزانے کو شیطان کے قبضے سے نکالنے کے خیال نے پادری کو فوراً اس مہم کے لئے راضی کر دیا کہ دولت کتنے غریبوں کی غریبی دور کرنے، کتنے کلیسا تعمیر کرنے اور کتنے دوستوں اور عزیزوں کو متموّل بنانے کے کام آئے گی!
رہی خادمہ، تو وہ بھی خوشی سے اس مقدس مہم میں شریک ہونے پر راضی ہو گئی۔ اور اگر کبھی کبھی اٹھ جانے والی نظر پر اعتبار کیا جا سکے تو یہ کہنا بھی درست ہے کہ طلسمی دنیا کے سفیر کے لئے اس کی آنکھوں میں اب تھوڑی سی جگہ بھی پیدا ہو گئی تھی

لیکن وہ روزہ جو پادری کو اس مہم کے سلسلے میں رکھنا تھا، اس کے لئے بڑا عذاب ثابت ہوا۔ دو بار اس نے روزہ شروع کیا اور دونوں بار ضرورتیں روح کے تقاضوں پر غالب آئیں۔ تیسرے دن بڑی مشکل سے اس نے اپنے اوپر یہ جبر گوارا کیا، لیکن سوال یہ تھا کہ طلسم ٹوٹنے تک یہ سختی برداشت ہو سکے گی یا نہیں!؟

رات کا خاصا حصہ گزر جانے پر یہ قافلہ لالٹین کی روشنی میں بھٹکتا اور ٹھوکریں کھاتا نالے کے اوپر چڑھتا نظر آیا۔ خادمہ کے ہاتھ میں کھانے پینے کے سامان کی ایک ٹوکری تھی کہ جب روزے کا وقت مکمل ہو تو کچھ کھایا جا سکے۔۔ داؤدی ستارے والی انگوٹھی کی تاثیر نے انہیں بُرج کے تہہ خانے میں داخل کر دیا

طلسمی سپاہی آہنی صندوق پر ان کا منتظر بیٹھا تھا۔ اس کی ہدایت کے مطابق طلسم توڑنے کے سب رسمی مرحلے طے کئے گئے اور آخر دوشیزہ نے داؤدی ستارے والی انگوٹھی آہنی قفلوں سے لگا دی۔ مُہر لگتے ہی صندوق کا ڈھکن ایک جھٹکے کے ساتھ کھل گیا اور سونے کے سکوں، بیش بہا زیوروں اور نایاب جواہرات کی آب وتاب نے سب کی نظریں خیرہ کر دیں

”یہ ہے معاملے کی بات!“ طالب علم خوشی سے چلا اٹھا اور جلدی جلدی اپنی جیبیں بھرنے لگا

”جلدی اور گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں..“ سپاہی نے نرمی سے کہا ”چلو! پہلے صندوق کو باہر نکالیں اور پھر اس کے حصے بخرے کریں“

اس مشورے پر سب آگے بڑھے۔ لیکن کام آسان نہ تھا۔ صندوق بےحد وزنی تھا اور صدیوں سے اس جگہ رکھا تھا۔ سب تو صندوق کو باہر نکالنے میں مصروف تھے اور نیک دل پادری ایک کونے میں بیٹھا دونوں ہاتھوں سے کھانے کی ٹوکری پر حملہ کر رہا تھا کہ کسی طرح دیوِ اشتہا کو تسکین دے، جس نے اس کی انتڑیوں میں آگ لگا رکھی تھی۔ آن کی آن میں ایک فربہ بھنا ہوا مرغا اور ہسپانوی شراب کا ایک شیشہ آنتوں میں اتر گیا

یہ سب کچھ تہہ خانے کے ایک گوشے میں بڑی خاموشی سے ہوا تھا لیکن کان اور زبان رکھنے والی دیواروں نے جیسے بڑی فتح مندی کے ساتھ اس کا پُرزور اعلان کر دیا۔ اس عجیب سی آواز پر سپاہی مایوسی سے چلا اٹھا۔ صندوق، جسے آدھا اٹھایا جا چکا تھا، ایک دھماکے کے ساتھ زمین پر گرا اور پھر مقفل ہو گیا۔ پادری، خادمہ اور طالب علم تینوں نے اپنے آپ کو غار سے باہر کھڑا پایا اور اس کی دیوار بادل کی گرج کے ساتھ بند ہو گئی۔ افسوس! نیک دل پادری نے اپنا روزہ وقت سے پہلے کھول لیا تھا۔۔۔

خوف و حیرت کا غلبہ کم ہوا تو طالب علم نے پھر بُرج کے تہہ خانے میں گھسنے کا ارادہ کیا، لیکن حیف! خادمہ جلدی میں داؤدی ستارے والی انگوٹھی تہہ خانے کے اندر ہی چھوڑ آئی تھی

مختصر یہ کہ گرجا کے جَرس نے بارہ بجائے اور طلسم کا اثر پھر سے شروع ہو گیا۔ ابھی بےچارے سپاہی کی قسمت میں ایک صدی کی قید اور لکھی تھی۔ ایک صدی کی یا اس کے بعد آنے والی کئی صدیوں کی۔۔۔ وہ شاید آج بھی اسی تہہ خانے میں قید ہو۔ محض اس لئے کہ نیک دل پادری نے وقت سے پہلے روزہ کھول لیا تھا اور اپنے نفس کو شکست نہ دے سکا تھا

”افسوس! شفیق بزرگ، افسوس!“ واپس آتے ہوئے طالب علم نے پادری کو مخاطب کر کے کہا۔ اور سر کو جنبش دیتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی

طلسمی سپاہی کی داستان کا جتنا حصہ مستند سمجھا جاتا ہے وہ اس جگہ آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن روایت نے اس میں اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ طالب علم اپنی جیبوں میں اتنے سکے اور جواہرات بھر لایا تھا کہ اس کی باقی زندگی آسائش اور آسودگی سے گزری اور نیک نفس پادری نے اس غلطی کی تلافی کے لئے، جو اس سے تہہ خانے میں سرزد ہوئی تھی، اپنی خادمہ کی شادی اس کے ساتھ کر دی

طلسمی سپاہی کی داستان غرناطہ کی داستانوں میں سب سے زیادہ دلچسپی سے بیان کی جاتی ہے، گو اس کی تفصیلات میں جابجا اختلاف ہیں۔ لیکن ایک بات جس پر عوام پوری طرح سے متفق ہیں یہ ہے کہ سینٹ جان کے تہوار کے دن وہ اب بھی حدرۃ کے پُل پر سنگین انار کے قریب کھڑا ہو کر سنتری کی خدمت سر انجام دیتا ہے۔ گو سوائے ان معدودے چند خوش نصیب لوگوں کے جن کے پاس مخصوص طرز کی انگوٹھی ہو، کسی کو نظر نہیں آتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close