اس ورلڈ کپ میں حریف ٹیموں کے وہ ٹاکرے، جو دل تھام کر دیکھے جائیں گے!

ویب ڈیسک

فٹبال کا سب سے بڑا عالمی میلہ فیفا ورلڈ کپ 2022 کا آغاز اتوار سے قطر میں رنگا رنگ تقریب سے ہو گیا، یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان، مصر، ترکیہ اور الجزائر کے صدر، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت دیگر رہنما میزبان ملک قطر اور ایکواڈور کے درمیان میچ سے قبل افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے

ٹورنامنٹ میں دنیا کی بتیس بہترین ٹیمیں ٹرافی کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ اس میگا ایونٹ کے دوسرے یعنی ناک آؤٹ کے مرحلے میں جگہ بنانے کے لیے پہلے آٹھ گروپس میں بٹی ہوئی ٹیموں کو اپنے اپنے گروپ میں موجود دیگر ٹیموں کو پچھاڑنا ہوگا

اس بار ورلڈ کپ کے پہلے راؤنڈ میں کئی ایسے مقابلوں کا امکان ہے، جو دل تھام کر دیکھے جائیں گے۔ یہ مقابلے تاریخ دہرائیں گے یا نئی تاریخ رقم کریں گے، یہ آنے والے چند روز میں پتہ چلے گا

سب سے زیادہ احتیاط دفاعی چیمپئن فرانس کو ڈنمارک کے مقابلے میں کرنی پڑے گی کیوں کہ آخری بار جب ایشیائی میدان پر یہ دونوں ٹیمیں ٹکرائیں تھی تو فرینچ ٹیم کا سفر پہلے راؤنڈ میں ختم ہوگیا تھا

یہی نہیں اگر ایک طرف امریکہ اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والا مقابلہ 1950ع کے اپ سیٹ میچ کی یاد تازہ کر سکتا ہے تو دوسری جانب اسپین اور جرمنی کی ٹیمیں پہلی مرتبہ 2010ع کے اس سیمی فائنل کے بعد آمنے سامنے آئیں گی، جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تھی۔ل

اس رپورٹ میں چند ایسے میچوں پر نظر ڈالی گئی ہے، جو نہ صرف مداحوں کی سانسیں بے ربط کر دیں گے بلکہ میگا ایونٹ کے پہلے راؤنڈ کو میگا بنانے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے

گروپ بی میں امریکہ اور انگلینڈ کا میچ اتنا اہم کیوں؟

اس بار سابق چیمپئن انگلینڈ اور اگلے ورلڈکپ کی میزبان امریکہ کی ٹیموں کا ٹکراؤ گروپ بی میں 25 نومبر کو ہوگا

فٹبال کے میدان میں انگلینڈ کے مقابلے میں امریکہ کا پلڑا بھاری رہا ہے، جس نے اب تک دو میچوں میں سے ایک انگلینڈ کو ہرایا اور ایک میچ ڈرا کیا

ڈرا ہونے والا میچ تو 2010ع کے ورلڈکپ میں کھیلا گیا تھا لیکن اسے ساٹھ سال قبل کھیلے جانے والے میچ کو جیتنے والے امریکی اور ہارنے والے انگلینڈ کے باشندے آج تک نہیں بھلا سکے

یہ تاریخی میچ 1950ع میں برازیل میں اس وقت کھیلا گیا، جب انگلش ٹیم کو کنگز آف فٹبال کہا جاتا تھا، جبکہ نو آموز امریکی ٹیم نان پروفیشنل کھلاڑیوں پر مشتمل تھی, جسے وارم اپ میچ میں اٹلی نے صفر کے مقابلے میں نو گول سے عبرتناک شکست سے دوچار کیا تھا

انگلش ٹیم کے مینیجر اس میچ میں کامیابی کے لیے اس حد تک پرامید تھے کہ انہوں نے اپنے اہم کھلاڑیوں کو آرام دیا تاکہ وہ دیگر میچوں میں پرفارم کر سکیں اور جب پہلے بارہ منٹ میں انگلینڈ کو گول کرنے کے چھ مواقع ملے تو سب کو لگا مینیجر نے ٹھیک ہی فیصلہ کیا ہے

لیکن میچ کے سینتیسویں منٹ میں اس وقت سب کچھ بدل گیا، جب امریکہ کے والٹر باحر نامی اسکول ٹیچر کے پاس پر ڈش واشر جو گیجنز نے میچ کا پہلا اور واحد گول اسکور کر کے سب کو حیران کر دیا

اس کے بعد انگلش کھلاڑیوں نے امریکی گول پر تابڑ توڑ حملے تو کیے لیکن گیند کو جال میں داغ نہ سکے، اس طرح امریکی ٹیم نے شاندار دفاع کی وجہ سے ایک اپ سیٹ کامیابی اپنے نام کی جس کا بدلہ لینے کے لیے انگلش ٹیم آج بھی بےقرار ہے

میکسیکو کو سابق ورلڈ چیمپین ارجنٹائن پر برتری کیسے حاصل ہے؟

ویسے تو ارجنٹینا کے مقابلے میں میکسیکو کی فٹبال ٹیم نسبتاً کمزور بھی ہے اور اس کے پاس لیونل میسی کے لیول کے کھلاڑی بھی نہیں۔ تاہم انہیں ارجنٹائن پر ایک معاملے میں برتری حاصل ہے اور وہ ہے زیادہ بار ورلڈکپ میں شرکت کرنے پر۔۔ برازیل کے بعد میکسیکو کی ٹیم نے سب سے زیادہ ورلڈکپ مقابلوں کے لیے کوالیفائی کرنے والی ٹیم ہے

اس میگا ایونٹ میں میکسیکو کی ٹیم 26 نومبر کو پڑوسی ملک ارجنٹائن کے مدمقابل ہوگی اور ان کی کوشش ہوگی کہ ورلڈکپ میں ارجنٹینا کو پہلی بار شکست دی جائے

اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان 1930ع کے گروپ اسٹیج میں جب کہ 2006ع اور 2010ع کے میگا ایونٹ میں کوارٹر فائنل میں مقابلہ ہوا تھا، جسے ارجنٹینا نے جیت لیا تھا

گزشتہ ورلڈکپ کے پہلے میچ میں میکسیکو نے جرمنی کو اپ سیٹ شکست دی تھی اور ان کے مداح اس بار بھی ٹیم سے کچھ ایسی ہی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں

دفاعی چیمپئن فرانس کو ڈنمارک کے خلاف محتاط کیوں رہنا ہوگا؟

عام حالات میں دفاعی چیمپئن فرانس کو ڈنمارک جیسی ٹیم کے خلاف 26 نومبر کو ہونے والے میچ سے زیاہ پریشان نہیں ہونا چاہیے لیکن آخری بار جب فرانس نے ایشیائی سرزمین پر بحیثیت دفاعی چیمپئن ڈنمارک کا سامنا کیا تھا، تو اسے ناکامی ہوئی تھی

مقام تھا جنوبی کوریا کا شہر انچن، جہاں 1998 کا ورلڈکپ جیتنے والی فرانس کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ پہلے میچ میں انہیں سینیگال کے ہاتھوں شکست ہو چکی تھی لیکن کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہ تھا کہ دفاعی چیمپئن فرانس دوسری شکست کے بعد ایونٹ سے باہر ہوجائے گا

معروف اسٹرائیکر زیڈان کی موجودگی میں فرانس کی ٹیم ڈنمارک کا کھل کر مقابلہ نہ کر سکی اور دو صفر سے نہ صرف میچ ہاری بلکہ ایک ڈرا اور دو شکستوں کے بعد ایونٹ ہی سے باہر ہو گئی اور اسی لیے فرینچ کھلاڑیوں کو ڈنمارک کا سامنا کرتے ہوئے محتاط رہنا ہوگا لیکن اب یہ اس لیے بھی مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ فرانس کو بیلن ڈی آر کے حامل اپنے اسٹار کھلاڑی کریم بینزیما کے بغیر میدان میں اترنا پڑے گا

اسپین اور جرمنی دونوں کے لیے گروپ ای کا اہم میچ

گزشتہ چالیس برسوں میں اسپین اور جرمنی کی ٹیمیں ورلڈ کپ میں تین مرتبہ مد مقابل آئی ہیں۔ 1982ع میں میچ جرمنی (اس وقت مغربی جرمنی) نے دو ایک سے جیتا تھا، جبکہ 1994ع میں ہونے والا میچ ڈرا ہوا تھا لیکن تیسرے میچ میں اسپین کی کامیابی اس لیے سب کو زیادہ یاد ہے کیونکہ یہ ایونٹ کا سیمی فائنل تھا

سن 2010ع میں ڈربن میں کھیلے گئے اس سیمی فائنل میں اسپین نے بہتر کھیل پیش کیا

پہلا ہاف تو برابری پر ختم ہوا تھا لیکن دوسرے ہاف میں اسپین کی فارورڈ لائن چھائی رہی اور 73ویں منٹ میں کارلز پویول کے فیصلہ کن گول نے اسپین کو پہلی مرتبہ ایونٹ کے فائنل میں پہنچا دیا

تب سے لے کر اب تک جرمنی اور اسپین کی ٹیمیں میگا ایونٹ میں آمنے سامنے نہیں آئیں۔27 نومبر کو ہونے والے میچ میں پتا چل جائے گا کہ اس بار کون سی ٹیم بہتر تیاری کے ساتھ ایونٹ میں شرکت کے لیے آئی ہے

دو دہائیوں بعد امریکہ اور ایران آمنے سامنے

امریکہ اور ایران کے درمیان بین الاقوامی تعلقات میں کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات تعطل کا شکار ہیں

اسی لیے جب 29 نومبر کو دونوں ممالک کی ٹیمیں ورلڈ کپ میں آمنے سامنے ہوں گی تو یہ میچ دیکھنے سے تعلق رکھنے والا ہوگا، کیونکہ اس میں دونوں ممالک کی ٹیمیں نہ صرف ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے چارج ہوں گی بلکہ ان کے حامی بھی اس کے انتظار میں بے چین ہوں گے

یہ پہلا موقع نہیں جب ایران اور امریکہ کی ٹیمیں فٹبال کے میدان میں ورلڈکپ کے دوران آمنے سامنے آئیں

‘مدر آف آل گیمز’ کے نام سے مشہور ان کا مقابلہ 1998ع میں کھیلا گیا تھا، جس میں فرینچ زمین پر ایران نے امریکہ کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے ہرایا تھا

اس میچ میں کک آف سے پہلے ایران میں پیدا ہونے والے فیفا افسر مہرداد مسعودی کو کئی معاملات میں دونوں ٹیموں کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنا پڑا

قوانین کے مطابق میچ سے قبل ٹیم بی کو ٹیم اے سے ہاتھ ملانے جانا ہوتا ہے لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا حکم تھا کہ ایرانی کھلاڑی ٹیم بی ہونے کے باوجود ایسا نہیں کریں گے

مہرداد مسعودی نے یہاں اہم کردار ادا کرتے ہوئے امریکی ٹیم کو قائل کیا کہ وہ ایرانی کھلاڑیوں سے جاکر ہاتھ ملائیں، جس کے بعد ایرانی ٹیم نے اپنے حریفوں کو سفید گلاب دے کر امن کا پیغام دیا

جس وقت دونوں ٹیموں کے کھلاڑی فیلڈ پر بہترین کھیل پیش کر رہے تھے۔ فرینچ حکام متعدد خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار تھے، جس میں گراؤنڈ میں داخل ہونے سے لے کر دہشت گردی کا خدشہ قابلِ ذکر تھا

ہاف ٹائم سے پانچ منٹ قبل ایران کی جانب سے حمید استیلی نے پہلا گول اسکور کیا تو چواسیویں منٹ میں اس برتری کو مہدی مہدوی کیا نے دگنا کر دیا

امریکی کھلاڑی برائن مک برائیڈ کے گول نے اس برتری کو کم کرنے میں تو مدد کی لیکن ایران کو ورلڈکپ فٹبال میں اپنا پہلا میچ جیتنے سے نہیں روک سکے

اس فتح کے بعد ایران میں ایسا جشن منایا گیا، جیسے ان کی ٹیم نے ورلڈکپ جیت لیا ہو

اس فتح کے باوجود ایران کی ٹیم اگلے مرحلے میں نہ پہنچ سکی لیکن امریکی ٹیم کو ناک آؤٹ مرحلے سے باہر کرکے ان کا مقصد پورا ہو گیا تھا

وہ مقابلہ جس کے لیے ویلز کے فٹ بال شائقین نے چھ دہائیوں انتظار کیا

امریکہ اور ایران کے دہائیوں پرانے کشیدہ تعلقات تو کچھ بھی نہیں، اصل پھڈا تو انگلینڈ اور ویلز کے مابین ہوگا، کہ ان کے صدیوں پرانے بگڑے معاملات کی وجہ سے اس میچ میں گھمسان کا رن پڑے گا

انگلینڈ کے بادشاہوں نے متعدد مرتبہ ویلز پر حملے کیے، جسے ویلز کے عوام آج تک نہیں بھولے

اپنی تاریخ، اپنی زبان اور اپنی فٹبال پر ویلش عوام کو ناز ہے اور اسی لیے جب 29 نومبر کو انگلینڈ اور ویلز کی ٹیمیں مدمقابل ہوں گی تو ہو سکتا ہے اس مرتبہ یہ میچ ‘مدر آف آل گیمز’ کے درجے پر فائز ہو جائے

ایک طرف ہوگی 1966 کی چیمپئن انگلینڈ کی ٹیم تو دوسری جانب چونسٹھ سال بعد ورلڈکپ میں جگہ بنانے والی ویلش ٹیم۔۔ سو امکان یہی ہے کہ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گی اور اسٹیڈیم کا ماحول بھی 1998ع میں ہونے والے امریکہ اور ایران کے میچ سے مختلف نہیں ہوگا

میگا ایونٹ کا پہلا راؤنڈ 2 دسمبر تک جاری رہے گا، جس کے بعد پری کوارٹر فائنل مرحلے میں ہر گروپ سے دو دو ٹیمیں کوالی فائی کریں گی۔

اگر مضبوط ٹیمیں نسبتاً کمزور حریفوں کو شکست دیتی رہیں اور کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا تو کوئی شک نہیں کہ ارجنٹائن کی ٹیم روایتی حریف انگلینڈ سے ٹکرائے اور برازیل کا مقابلہ یوراگوئے سے ہو، جو 1950ع میں عالمی چیمپئن بننے میں ان کے راہ میں رکاوٹ بن گئی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close