قطر میں اسلامی مبلغ ذاکر نائک کی موجودگی سے بھارت برہم کیوں ہے؟

ویب ڈیسک

قطر میں فیفا ورلڈکپ کی افتتاحی تقریب میں بھارتی قیادت کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مگر اس دوران دوحہ میں اسلامی اسکالر ذاکر نائیک کی موجودگی بھارتی حکومت سے ہضم نہ ہو سکی۔ دوسری جانب قطر نے اس بارے میں وضاحت نہیں کی کہ آیا ذاکر نائیک کو ورلڈکپ کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ایک مرکزی وزیر نے فٹبال ورلڈکپ کے دوران، معروف اسلامی مبلغ ذاکر نائک کی قطر میں موجودگی پر اپنی ناراضی ظاہر کرتے ہوئے بالآخر پہلا رد عمل دیا اور کہا کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس پیشرفت کا بھارت اور قطر کے درمیان تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر باقاعدہ کوئی تبصرہ نہیں کیا

بھارت میں پیٹرولیم کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری کا کہنا ہے کہ قطر کی حکومت نے آخر بھارتی نژاد ’متنازعہ‘ مبلغ کو اس موقع پر بطور خصوصی مہمان دوحہ آنے کی دعوت کیوں دی، اس بارے میں بھارت اپنے موقف کو مضبوط ترین الفاظ میں دوحہ کے ساتھ اٹھائے گا

واضح رہے کہ بھارت کی حکمران انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ذاکر نائک کو ورلڈکپ کے موقع پر دعوت دینے پر سخت اعتراض کیا ہے اور مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی وجہ سے قطر میں جاری فیفا ورلڈکپ کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے گزشتہ کئی روز سے بحث جاری ہے

حالانکہ بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکڑنے بھارت کے نمائندہ کے طور پر اپنی اہلیہ کے ساتھ فیفا ورلڈکپ کی افتتاحی تقریب میں شرکت بھی کی تھی

اس حوالے سے جب بھارتی صحافیوں نے پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر ہردیپ پوری سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا ”ذاکر نائیک کے بارے میں بھارت کے اپنے خیالات ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان کے بارے میں سخت ترین الفاظ میں متعلقہ حکام کو آگاہ کیا جائے گا“

قطر کی جانب سے ذاکر نائیک کو فیفا ورلڈکپ میں مدعو کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیر نے لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت اس پر اپنا احتجاج درج کرائے گا، تو انہوں نے جواب دیا ”مجھے یقین ہے کہ بھارت نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور آگے بھی اٹھائے گا“

ان کا مزید کہنا تھا ”لیکن بات یہ ہے کہ وہ ملائیشیا کے شہری ہیں اور انہیں کہیں مدعو کیا گیا ہے۔ اس بارے میں انہیں علم ہے یا نہیں، مجھے کچھ بھی نہیں معلوم۔ میرے پاس معلومات تک اتنی ہی رسائی ہے، جتنی آپ کے پاس ہے“

واضح رہے کہ قطری حکومت نے بھارتی نژاد معروف اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کو مدعو کیا ہے، جہاں وہ فیفا ورلڈکپ ٹورنامنٹ کے دوران مذہبی امور پر لیکچر دے رہے ہیں

قطر کے سرکاری سپورٹس چینل الکاس کے پریزنٹر الہاجری نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’شیخ ذاکر نائیک قطر میں ہیں اور وہاں وہ ورلڈ کپ کے دوران کئی مذہبی لیکچر دیں گے۔‘

ادھر سوشل میڈیا پر ذاکر نائیک نے بھی قطر میں لیکچر دینے کی تصدیق کی ہے

ادھر حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے ایک ترجمان سیویو روڈرگز نے حکومت، بھارتی فٹبال ایسوسی ایشن اور میزبان ملک کا سفر کرنے والے بھارتیوں سے اپیل کی ہے کہ چونکہ قطر نے ’متنازعہ‘ اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کو فیفا ورلڈکپ میں مدعو کیا ہے، اس لیے اس کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے

انہوں نے کہا ”فیفا ورلڈکپ ایک عالمی ایونٹ ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اس شاندار کھیل کو دیکھنے آتے ہیں اور لاکھوں لوگ اسے ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بھی دیکھتے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب دنیا عالمی ’دہشت گردی‘ سے لڑ رہی ہے، ذاکر نائیک کو ایک پلیٹ فارم دینا، ایک ’دہشت گرد‘ کو اپنی بنیاد پرستی اور ’نفرت‘ پھیلانے کے لیے پلیٹ فارم دینے کے مترادف ہے“

یوں تو اسلامی مبلغ ذاکر نائک کا تعلق بھارتی ریاست مہا راشٹر سے ہے، تاہم مودی کی ہندوتوا نظریات کا پرچار کرنے والی حکومت نے ذاکر نائیک کے خلاف ’منی لانڈرنگ اور نفرت انگیز تقاریر‘ جیسے متعدد الزامات کے تحت کئی مقدمات درج کر رکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھارت چھوڑ کر ملیشیا میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بھارتی حکومت کے بقول وہ ایک ’مفرور ملزم‘ ہیں

اس برس مارچ میں وزارت داخلہ نے نائیک کی قائم کردہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کو ایک غیر قانونی ادارہ قرار دیتے ہوئے اس پر بھی پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی تھی

وفاقی حکومت نے اس پابندی کے حوالے سے کہا تھا کہ ذاکر نائیک کی تنظیم ان سرگرمیوں میں ملوث ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور اس سے ملکی اتحاد اور امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے

تاہم ذاکر نائک ان تمام الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت بھارت میں انہیں تبلیغ سے روکنے کے لیے ان کے خلاف اس طرح کے جھوٹے الزامات لگاتی رہی ہے

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے ان کے ٹی وی چینل پیس ٹی وی پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے

ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کے حوالے سے اپنی منطقی تقریروں کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ قوم پرستی، ہم جنس پرستی، اسامہ بن لادن اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر مخصوص طبقات ان کے دو ٹوک موقف کو پسند نہیں کرتے اور بعض افراد ان پر مسلکی منافرت پھیلانے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں

حتیٰ کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی منطقی تقاریر سے برطانیہ اور کینیڈا بھی خائف ہیں، وہاں بھی ان کی تقاریر پر پابندی عائد ہے، تاہم دنیا کے ایک سو پچیس ممالک میں سیٹلائٹ کے ذریعے ان کے پِیس (امن) ٹی وی کی نشریات دیکھی جاتی ہیں

ذاکر نائیک نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو ’وائٹ کالر دہشتگرد‘ کہا بھی کہا تھا

ایک انٹرویو کے دوران دی ویک نے ان سے پوچھا تھا کہ 1998 کی ایک تقریر میں ان کا کہنا تھا ’اگر اسامہ بن لادن اسلام کے دشمنوں کے خلاف لڑ رہے ہیں تو میں ان کے ساتھ ہوں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر وہ سب سے بڑے دہشتگرد امریکہ کو ڈرا رہے ہیں تو میں ان کے ساتھ ہوں۔‘

اس سوال کے جواب میں ذاکر نائیک نے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن دہشتگرد تھا نہ کوئی پاک شخصیت۔

انہوں نے دی ویک کو بتایا تھا کہ وہ جنوبی افریقہ کے اسلامی اسکالر شیخ احمد دیدات سے متاثر ہوئے تھے۔ ان کے والد ماہر نفسیات جبکہ ان کے بھائی ڈاکٹر ہیں۔ ذاکر نائیک کی والدہ انھیں دل کے امراض کی ماہر بنانا چاہتی تھیں

انہوں نے بتایا تھا کہ دیدات سے ملاقات کے بعد جب انہوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ انہیں کیا بننا چاہیے، تو ان کا جواب تھا کہ وہ مذہبی اسکالر اور ڈاکٹر دونوں کے طور پر انہیں دیکھنا چاہتی ہیں

طب میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ذاکر نائیک نے 1990 میں آئی آر ایف کے ذریعے اسلام کی دعوت شروع کی

وہ ممبئی میں پیدا ہوئے اور بچپن میں ہکلاتے تھے۔ مگر اب وہ بڑی آسانی سے لمبی سے لمبی تقریر کر لیتے ہیں۔ اپنی لیکچرز کی وجہ سے ذاکر نائیک نوے کی دہائی میں ہی مشہور ہونے لگے تھے۔ سال 2000 کے دوران ان کی وہ تقاریر لوگوں کی نظروں میں آنے لگیں جن میں وہ دلائل کی بنیاد پر اسلام اور دوسرے مذاہب کا موازنہ کرتے تھے اور اسلام کے بہتر مذہب ہونے کے دلائل دیتے تھے

کیا بھارت ذاکر نائیک کے قطر دورے کے حوالے سے کچھ کر سکتا ہے؟

قطر میں بھارت کے سابق سفیر کے پی فبیئن نے کہا ہے کہ یہ ایک نازک معاملہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے پیش نظر بھارت کے لیے قطر کے سامنے یہ معاملہ اٹھانا اتنا آسان نہیں

انہوں نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ’بھارت اور قطر کے درمیان تعلقات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ وہاں آٹھ لاکھ بھارتی شہری رہتے ہیں۔ ہم وہاں سے ایل این جی بھی حاصل کرتے ہیں۔ وہاں ہماری کئی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس معاملے کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close