وسعت اللہ خان کا تفصیلی انٹرویو۔ (قسط 1)

ویب ڈیسک

نامور کالم نویس، منفرد تجزیہ کار، صحافی و دانش ور اور مقبول اینکر پرسن وسعت اللہ خان کی شخصیت کا احاطہ اگر مختصر ترین الفاظ میں کیا جائے تو وہ جملہ ہوگا ’’اپنی شرائط پر زیست کرنے والا انسان۔‘‘ رحیم یار خان کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لینے والا خداداد صلاحیتوں کا مالک تو تھا ہی، ادب دوست والد نے اسے مطالعے کی چاٹ لگائی تو فہمیدگی کو چار چاند لگ گئے۔ وسعت اللہ خان دورِ حاضر کے ان چنیدہ لکھاریوں میں شامل ہیں، جنہیں خواص کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے کالموں میں تاریخ اور عالمی و مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی عام فہم اور دل نشین انداز میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس پر ان کی طنازی کا تڑکا، محض زبان و بیاں کی شیرینی سے رغبت رکھنے والوں کو بھی گرویدہ بنائے رکھتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سجاد عباسی نے وسعت اللہ خان کے ساتھ ایک طویل نشست رکھی۔ یہ بات چیت روزنامہ ’’امت‘‘ میں انٹرویو کی شکل میں شائع ہوئی، جسے ہم ادارے کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ کے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

س: لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ملکی اور پھر بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے والے وسعت اللہ خان کون ہیں، کہاں پیدا ہوئے، بچپن کیسا گزرا؟

ج: میں رحیم یار خان میں پیدا ہوا۔ 1962ء کی پیدائش ہے۔ اس لحاظ سے میں اس وقت ساٹھ برس کا ہوں۔ میں آج تک یہ طے نہیں کر پایا کہ میری فیملی کا تعلق مڈل کلاس سے تھا یا لوئر مڈل کلاس سے۔ میرے والد بنیادی طور پر فوٹوگرافر تھے۔ ان کا اپنا اسٹوڈیو تھا۔ رحیم یار خان میں اسٹوڈیو قائم کرنے سے پہلے وہ کچھ سال کراچی میں رہے۔ یہاں وہ خبر رساں ایجنسی پی پی آئی کے ساتھ بطور پریس فوٹوگرافر کام کرتے رہے۔ میری والدہ اور دادی چونکہ رحیم یار خان میں ہی تھیں، لہٰذا وہ وہیں شفٹ ہوگئے اور اسٹوڈیو بنا لیا۔ میں نے ہائی اسکول کی تعلیم کے بعد انٹرمیڈیٹ بھی آبائی شہر سے کیا۔ 1978ء میں کراچی آیا اور جامعہ کراچی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں بی اے آنرز اور پھر ماسٹرز کیا۔ اس کے بعد وہیں ’ایریا اسٹڈی سینٹر فار یورپ‘ میں ریسرچ آفیسر کی جاب مل گئی۔ دو سال میں وہاں رہا۔ کراچی یونیورسٹی میں حصولِ تعلیم کے دوران پورا عرصہ میں ہاسٹل میں مقیم رہا۔ ہمارا دور چونکہ جنرل ضیا کا دور تھا، تو اسی زمانے میں طلبہ یونینز پر پابندی بھی لگی تھی۔ کسی طلبہ یونین کا آخری صدر بھی ہم نے اپنے دور میں دیکھا اور یونین کی سرگرمیاں بھی آخری بار ہم نے اپنے زمانہِ طالب علمی میں دیکھیں۔ غالباً یہ 1983ء کی بات ہے۔ اس کے بعد سے طلبہ سیاست پر ہی پابندی لگ گئی۔ صحافت سے میرا تعلق اور وابستگی بھی وہیں پیدا ہوئی۔ گو کہ میں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا تھا، مگر میرا دوستوں کا بنیادی حلقہ جرنلزم ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتا تھا۔

س: ان میں کون کون لوگ تھے آپ کے ساتھ؟

ج: مجھ سے سینئر لوگ تھے جن میں اخلاق احمد (ممتاز افسانہ نگار) عطا محمد تبسم، شیرازی صاحب ہیں۔ نوریز ہیں۔ عبدالسلام سلامی ہیں۔ میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ یہ سب مجھ سے دو دو تین تین سال سینئر تھے۔ تو اس ’’بگاڑ‘‘ میں ان سب نے حسبِ توفیق میرا ہاتھ بٹایا (مسکراتے ہوئے)۔ میرا پہلا آرٹیکل 1979ء میں جس اخبار میں شائع ہوا، وہ روزنامہ جسارت تھا۔ یہ مضمون ٹائٹل پیج پر چھپا تھا۔ ظاہر ہے اس وقت میں طالب علم تھا جو کہ 83ء تک رہا۔ اس دوران میں نے مشرق اخبار میں بھی کام کیا۔ ہاسٹل میں رہنے والے کم و بیش سارے ہی لوگ کوئی نہ کوئی ملازمت کرتے تھے، تاکہ تعلیمی اخراجات پورے کئے جا سکیں۔ گھر سے تو بہت کم لوگ پیسے منگواتے تھے۔ تو مشرق بڑا اخبار تھا اس زمانے کا۔ میں نائٹ شفٹ میں 25 روپے دیہاڑی پر کام کرتا تھا تو پھر وہاں سے سلسلہ آگے چل نکلا۔

س: ہم دوبارہ آپ کے بچپن کی طرف چلتے ہیں۔ گھر کا ماحول کیسا تھا؟ چونکہ آپ کا تعلق پڑھنے لکھنے سے ہے تو قدرتی طور پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ ماحول آپ کو گھر سے ملا؟ کس قسم کی کتابیں پڑھنے کو ملتی تھیں؟

ج: میرے والد نے اگرچہ انٹر کر رکھا تھا، مگر انہیں انگریزی ادب سے خاصی دلچسپی تھی۔ اس زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ امریکن سینٹر، امریکی رائٹرز کے ناول، جو کلاسکس کی ذیل میں آتے ہیں، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں چھاپا کرتے تھے۔ تو میرے والد موٹے موٹے ناول باقاعدگی سے منگوایا کرتے تھے۔ اسی طرح ہمارے ہاں اس زمانے میں اردو ڈائجسٹ باقاعدگی سے آیا کرتا تھا، جس کی بہت شہرت تھی اور اثر تھا۔ اس کے علاوہ بچوں کے رسالے جیسے تعلیم و تربیت اور نونہال وغیرہ بھی آتے تھے۔ تو یہ ایک سلسلہ تھا، جس کی مدد سے ہمیں بچپن ہی سے کہانی کی سمجھ آنے لگی تھی۔ پھر میرا پسندیدہ مضمون تاریخ و جغرافیہ تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کیوں تھا؟ کیونکہ بارہ تیرہ برس کا بچہ اس حوالے سے کوئی واضح فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ تو اس زمانے میں گلوب کو بڑے غور سے دیکھتا رہتا تھا۔ اتنا کہ تقریباً سارا گلوب ہی ذہن میں سما گیا کہ کون سا خطہ اور کون سا ملک کہاں واقع ہے۔ کون سے براعظم میں کتنے ملک ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔ جب ان ملکوں کے نام پڑھے تو پھر یہ کھوج ہوئی کہ ان کی تاریخ بھی پڑھی جائے۔ پھر تاریخ پڑھی۔ مجھے یورپ کی تاریخ بہت اچھی لگتی تھی۔ پھر برصغیر پاک و ہند کی قدیم تاریخ بہت پسند تھی اور بہت Fascinate کرتی تھی۔ تو اس طرح لاشعوری طور پر ایک پس منظر بنتا چلا گیا۔ جس کی بنیاد پر آگے بھی یہ میں پڑھتا رہا۔

س: یہ عادت تسلسل کے ساتھ کب تک قائم رہی یا اس میں کوئی کمی بیشی آئی؟

ج: یہ عادت تقریباً کالج کے دور تک برقرار رہی۔ اس لئے کہ اس وقت تک کوئی جاب تو تھی نہیں۔ پڑھنا تھا، سونا تھا، کھیل کود تھا اور کھانا پینا تھا۔ تو کتابیں پڑھنے کے لئے وقت اچھا خاصا مل جاتا تھا۔ پھر انٹرمیڈیٹ کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے مطالعے کے لئے بھرپور وقت صرف کیا ہو۔ جم کے کوئی کتاب پڑھی ہو۔ Bits and pieces میں تو یہ چلتا رہا۔ اور پھر صحافت میں آکر پتہ چلا کہ یہ پیشہ تو مطالعے کا دشمن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کتاب سے آپ جو حاصل کرتے ہیں، وہ علم (Knowledge) ہوتا ہے اور مشین (اے پی پی، پی پی آئی کی کریڈ) سے آتی ہے خبر۔ اب خبر اور نالج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خبر تو ایک سیلاب ہے جو ہر لحظہ نئی لہروں کی صورت آرہا ہے۔ کبھی یہ سیلاب اونچا ہوگیا اور کبھی نیچا۔ تو آپ ان لہروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں اور کتاب آپ سے دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ تو میں جب اپنے مطالعے کا تجزیہ کرتا ہوں اور پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو فرض کریں کہ اگر میں نے انٹرمیڈیٹ تک سو کتابیں پڑھی ہیں اپنے پسندیدہ موضوع کی، تو پچھلے چالیس برس میں ملا جُلا کر میں نے ساٹھ کتابیں پڑھ لی ہوں گی۔ اتنا فرق آ جاتا ہے۔ تو صحافت کے پیشے کا یہ المیہ ہے اور میرے پاس اس کا کوئی توڑ بھی نہیں ہے۔۔ مگر اب چونکہ پلیٹ فارمز ہی تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب نظر صفحے پر زیادہ دیر نہیں ٹکتی۔ کیونکہ وہ موبائل یا لیپ ٹاپ کی اسکرین کی عادی ہو گئی ہے۔ لہٰذا اب ہوتا یہ ہے کہ جو بہت ہی دلچسپ آرٹیکلز ہوتے ہیں یا جو میرے پسندیدہ رائٹرز ہیں، جیسے رابرٹ فسک ہے، نوم چومسکی ہے یا اس طرح کے دیگر لوگ۔۔ ان کے جو آرٹیکل وغیرہ ہوتے ہیں، وہ میں پڑھتا ہوں۔ الجزیرہ چینل کو اچھی طرح دیکھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ صحافت میں بھی ہیں تو باقی مجبوریاں اپنی جگہ، مگر مطالعہ آپ کے لئے بالکل آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر آپ ایک ہفتے تک کچھ نہ پڑھیں تو آپ تقریباً چھ ماہ تک پیچھے چلے جاتے ہیں۔ چیزیں اتنی رفتار کے ساتھ آگے پیچھے ہو رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے مطالعہ میری پیشہ ورانہ ذمہ داری بھی ہے اور مشغلہ بھی۔ جس کے لئے بہرصورت وقت نکالنا پڑتا ہے۔

س: یعنی آپ کو خوش قسمت صحافیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے جو مطالعے کے لئے وقت نکال لیتے ہیں؟

ج: خوش قسمتی میری یہ رہی ہے کہ میں نے زندگی میں کبھی نائن ٹو فائیو (نو سے پانچ) والی جاب نہیں کی۔ اسائنمنٹ کی بنیاد پر کام کیا ہے کہ آپ ٹارگٹ دیں، ٹائم لائن بھی اور میں کام کرکے دوں گا۔ تو اس بنی بنائی نوکری کی مجھے عادت نہیں رہی۔ پھر خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ سرکاری نوکری نہیں کی۔ ایسا نہیں کہ میں نے سرکاری ملازمت کے لئے کوشش نہیں کی۔ میں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا تھا۔ مگر انٹرویو کی سطح پر آ کر میں اپنی ’’مرضی‘‘ سے فیل ہو گیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شاید یہ میرا شعبہ نہیں ہے۔ اس زمانے میں عموماً یہ ہوتا تھا کہ ہم بچوں کو تین چار آپشن ہی دیئے جاتے تھے۔ یا تو ڈاکٹر انجینئر بن جاؤ، یا فوج میں چلے جاؤ، یا پائلٹ بن جاؤ۔ تو میں نے ایئرفورس کا بھی ٹیسٹ دیا تھا مگر میری نظر کمزور ہونا شروع ہوگئی تھی۔ سکس بائی سکس (6×6) نہیں تھی تو وہ بھی نہیں ہو پایا۔ پھر پی ٹی وی کے لئے میں نے ماسٹرز کرنے کے بعد ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کرنٹ افیئرز میں بھی Attempt کیا اور پروڈکشن سائیڈ پر بھی۔ تو مجھے پی ٹی وی نے بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ میں وہاں پروڈیوسر بن سکوں۔ ان کا لیٹر ابھی تک میرے پاس رکھا ہوا ہے، جس میں مجھ سے معذرت کی گئی۔ اس زمانے میں پی ٹی وی کے چیف کنٹرولر عثمانی صاحب (مرحوم) تھے، جنہوں نے مجھے Regret کا خط بھیجا تھا۔ ایک بار وہ بی بی سی آئے تھے۔ میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کا انٹرویو بھی کیا اور انہیں entertain بھی کیا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس آپ کا لیٹر ابھی تک رکھا ہوا ہے، جس پر آپ کے دستخط ہیں۔ تو کہنے لگے کون سا لیٹر میاں؟ میں نے کہا اس میں آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ پی ٹی وی کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ کہنے لگے یہ تو ہو نہیں سکتا۔ میں نے کہا سر ایسا ہوا ہے۔ اور پھر اس ’’نا اہل‘‘ آدمی کو بی بی سی نے رکھ لیا۔ تو زندگی میں یہ بھی چیزیں ہوتی ہیں اور پھر جرنلزم میں بھی۔ میں شاید آزادی پسند آدمی ہوں بنیادی طور پر۔ تو زیادہ پابندیاں قبول کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ ایک بارڈر لائن یا دائرے کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ آپ نے ایڈیٹوریل پالیسی کا ایک دائرہ دے دیا کہ اس سے باہر نہیں جا سکتے۔ ان معاملات پر ہاتھ ہلکا رکھیں تو اس حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہ کہ آپ بات بات پر مداخلت کریں۔ اس پیراگراف اور لائن کو یوں نہیں یوں ہونا چاہئے۔ یہ سب کچھ ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ اکثر آپ نے سنا اور مشاہدہ کیا ہوگا۔ تو مجھے وہ ماحول سازگار ملا بی بی سی کی وجہ سے۔ وہاں تو یہ ہے کہ آپ کی خبر، مضمون، تجزیہ حقائق کے لحاظ سے درست ہونا چاہئے۔ تجزیہ جذباتیت کے بجائے دلیل پر مشتمل ہو۔ باقی کوئی مسئلہ نہیں۔ تو اس فضا میں پروان چڑھنے کے بعد اب میں جس ادارے سے منسلک ہوں۔ وہاں بھی کم و بیش اتنی ہی آزادی ہے۔ میں یہ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اس قسم کے ادارے نہ ہوتے تو میں کہاں جاتا۔ کیا کر رہا ہوتا۔ ایک گھٹن اور فرسٹریشن میں مبتلا ہوتا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس سے بچایا ہے۔ کبھی میں نے پاکستان میں بی بی سی کے سوا جو بڑے بڑے ادارے ہیں، جن کی نوکری کو لوگ اپنی کامیابی کی معراج سمجھتے ہیں، میں نے ہمیشہ اللہ سے یہی دعا کی کہ مجھے ان سے دور ہی رکھے۔ میری یہ دعا قبول ہوئی اور میں ان سے دور ہی رہا۔ (جاری ہے)

بشکریہ: روزنامہ امت

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close