کون گھٹا، کون بڑھا۔۔ برطانیہ میں نئی مردم شماری کے دلچسپ نتائج

ویب ڈیسک

برطانیہ میں مردم شماری کے گزشتہ روز جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق پہلی بار برطانیہ اور ویلز میں نصف سے بھی کم آبادی کو مسیحی کے طور پر شناخت کیا گیا ہے

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دفتر برائے قومی شماریات (او این ایس) نے کہا ہے کہ2021ع میں کی گئی دس سالہ مردم شماری میں مسلم آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن مسیحی کے بعد کوئی مذہب نہیں

یارک کے آرچ بشپ اسٹیفن کوٹریل کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے سیکولرازم کے دور میں یہ کوئی ’زیادہ حیرت‘ کی بات نہیں ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں مسیحیوں کا تناسب کم ہو رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ مصارف زندگی کے بحران اور یورپ میں جنگ کے پیشِ نظر لوگوں کو اب بھی روحانیت کی ضرورت ہے

انہوں نے کہا ”ہم ان کے لیے موجود ہوں گے، بہت سے معاملات میں، انہیں خوراک اور گرم جوشی فراہم کرتے ہوئے اور کرسمس پر لاکھوں لوگ اب بھی ہماری خدمات کے لیے آئیں گے“

انہوں نے مزید کہا ”ایک ہی وقت میں، ہم اپنے اردگرد کے ماحول سے باہر دیکھ رہے ہوں گے، یاد رکھتے ہوئے کہ ہم ایک عالمی عقیدے کا حصہ ہیں جو زمین پر سب سے بڑی تحریک ہے اور یہ ایک پرامن اور پائیدار مستقبل کے لیے سب سے بڑی امید ہے“

واضح رہے کہ مذہب کے بارے میں سوال 2001ع میں برطانیہ کی مردم شماری میں شامل کیا گیا تھا۔ اگرچہ اس کا جواب دینے نہ دینے کی آزادی ہے، لیکن او این ایس کے مطابق چورانے فی صد لوگوں نے اس سوال کا جواب دیا ہے

برطانیہ اور ویلز میں دو کروڑ پچھتر لاکھ افراد یا 46.2 فی صد لوگوں نے اپنے آپ کو مسیحی کہا ہے۔2011 کے مقابلے میں پوائنٹس کے اعتبار سے اس میں 13.1 فی صد کمی ہوئی ہے

’کوئی مذہب نہیں‘ کا جواب 12 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ بڑھ کر 37.2 فی صد یا دو کروڑ بائیس لاکھ ہو گیا ہے، جبکہ مسلمان انتالیس لاکھ یا آبادی کا 6.5 فیصد ہیں۔ اس طرح 4.9 فیصد کے پہلے کے تناسب کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بڑھی ہے

اگلا سب سے عام جواب ہندو تھا۔ (دس لاکھ اور سکھ پانچ لاکھ چوبیس ہزار) جبکہ بدھ مت کو ماننے والے لوگوں کی تعداد یہودیوں سے زیادہ ہو گئی ہے، یعنی دو لاکھ 71 ہزار یہودیوں کے مقابلے میں بدھ مت کو ماننے والوں کی تعداد دو لاکھ 73 ہزار ہو گئی ہے

او این ایس گذشتہ سال کی مردم شماری کے اہم حصے جاری کر رہا ہے، اور تازہ ترین حصے مذہب اور نسلی شناخت سے متعلق ہیں۔ سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے لیے ڈیٹا الگ الگ جاری کیا جاتا ہے

پتہ چلا ہے کہ برطانیہ اور ویلز میں وہ لوگ جو اپنے لسانی گروپ کی شناخت سفید فام کے طور پر کرواتے ہیں، ان کی تعداد میں 2011 کے بعد سے تقریباً پانچ لاکھ کی کمی ہوئی ہےاور وہ 86 فیصد سے 81.7 فیصد ہوگئے ہیں

جزائر برطانیہ میں خود کو سفید فام کہنے والی آبادی کا تناسب 74.4 فیصد ہے، جس میں 2011 کے مقابلے میں چھ پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے

’دوسرے سفید فام‘ کی کیٹگری میں ایک دہائی میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ 2016ع میں بریگزٹ ریفرینڈم سے سے پہلے اور بعد میں مشرقی یورپ سے تارکین وطن مسلسل برطانیہ آتے رہے

لیکن او این ایس نے نوٹ کیا کہ جواب دہندگان 2011 کے مقابلے میں زیادہ آپشنز میں سے بھی انتخاب کر سکتے تھے، جس سے دوسری شناختوں کے تحت اندراج کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی

سفید فام کے بعد دوسرا سب زیادہ عام لسانی گروپ ایشائی، ایشیائی برطانوی یا ایشیائی ویلش تھا

ان لوگوں کی تعداد ایک دہائی قبل کی 7.5 فیصد سے بڑھ کر 9.3 فیصد ہو گئی ہے۔ اس گروپ میں زیادہ تر جواب دہندگان نے اپنے خاندانی ورثے کو انڈین قرار دیا جس کے بعد پاکستانی، دوسرے ایشیائی، بنگلہ دیشی اور چینی شہری تھے

دوسرا سب سے بڑا لسانی گروپ تیزی سے بڑھنے والی افریقی آبادی ہے، جس کے بعد کیریبیئن کا نمبر آتا ہے

افریقہ کے اوینجلیکل گرجا گھر لندن اور دوسرے مقامات پر پھیل چکے ہیں جس سے مسیحی برداری کو قدرے تقویت ملی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close