پطرس بخاری کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب میں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہماری بچپن کی یادوں کا حصہ ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ بھی
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس نے پطرس کے مضامین نہیں پڑھے، اس نے اردو ادب کے بنیادی سبق کو ہی نہیں بلکہ ادب میں زندگی کو بھی نہیں پڑھا اور وہ اپنے بچپن میں ادب کی لذت سے محروم رہا
پطرس بخاری نے اردو میں مختلف ادبی اسلوب کو اپنایا، مثال کے طور پر انہوں نے ہلکے پھلکے مضمون لکھے، ادبی تنقید لکھی، انگریزی ادب کے کچھ اعلٰی ترین اور معیاری کاموں یعنی جدید کلاسک کا ترجمہ کیا، اردو کے قارئین کو ابتدائی یونانی فلسفے سے متعارف کروایا اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی قلم اٹھایا
تاہم جس چیز نے اردو ادب میں انہیں ایک الگ شناخت دی، وہ ان کے ہلکے پھلکے مضامین ہیں جو ’پطرس کے مضامین‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے، جسے اردو کے مزاحیہ ادب میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ 11 مضامین پر مشتمل یہ مجموعہ پہلی بار 1930ء میں شائع ہوا. یہ مضامین تعداد میں تو کم ہیں لیکن اردو کا سرمایہ ہیں اور آج بھی ویسے ہی تر و تازہ اور شگفتہ ہیں، جیسے اوّل روز تھے
پطرس انسانوں سے محبت کرنے والے اور روتوں کو ہنسانے والےانسان تھے۔ افتخار عارف نے ایک مرتبہ پطرس کے بارے میں کہا کہ ’پطرس نے جس وقت مضامین لکھے، اس وقت ان سے پہلے اس طرح کے مضامین نہیں لکھے گئے تھے، پطرس بخاری کی نثر کا جو کمال ہے وہ آسان، رواں اور سہل اردو ہے‘
پطرس بخاری کے پوتے ایاز بخاری کے مطابق سید امتیاز علی تاج، صوفی غلام مصطفٰی تبسم، فیض احمد فیض اور پطرس بخاری یہ چاروں اپنے آپ کو چار یار کہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ’بخاری صاحب کے دوست بہت تھے اور شاگرد بھی لیکن صرف ایک شخص تھا، جو شاگرد بھی تھا اور دوست بھی اور وہ تھے فیض صاحب۔ 1980ء کی دہائی میں فیض صاحب کے لیے منعقد ایک تقریب میں کسی نے کہا کہ بخاری صاحب کا کیا کام ہے، 11 مضامین، اس کے علاوہ انہوں نےکیا دیا؟ تو فیض صاحب نے اپنے انداز میں اس سوال کرنے والے شخص سے پوچھا آپ کا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے فیض صاحب کے بارے میں تعریف کے پل باندھ دیے تو فیض صاحب نے کہا کہ بخاری صاحب میرے استاد تھے اور مجھے انہوں نے ہی تراشا‘
پطرس نے ایک بار لندن سے فیض کی اہلیہ ایلس کو خط لکھا تھا۔ اس خط سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس مزاج کے آدمی تھے اور کس طرح پُرمزاح انداز میں ان کی اہلیہ ایلس کو تسلی بھی دے رہے ہیں کیونکہ ان کی دل جوئی مقصود ہے۔ وہ پردیس سے اپنے شاگرد کے گھر کی خبر گیری کے لیے خط لکھ رہے ہیں۔ خط کی چند سطریں بتا دیتی ہیں کہ اس تحریر کا خالق مشکل میں بھی مسکرانے پر مجبور کر سکتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ’آپ کے گھر والوں کی خبر رکھنا میری ذمہ داری ہے کیونکہ میں بڑا ہوں، لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ [فیض] اب نہیں لکھ سکے گا کیونکہ وہ شاعر مست ہے۔ میں نے کہیں سنا تھا کہ اسے جیل بھیجا جا رہا ہے [حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں، جسے راولپنڈی سازش کیس کہا جاتا ہے کا ذکر ہے، جب فیض کو 1951ء میں گرفتار کیا گیا] پھر سنا ہے کہ مہمان نوازی کی پیشکش واپس لے لی گئی ہے، میں فیصلہ نہیں کرسکتا کہ مجھے کس بات سے زیادہ مزہ آئے گا۔ وہ اسے قید کرنے جا رہے ہیں یا وہ ایسا نہیں کر رہے۔ یقیناً آپ اور میں پسند کریں گے کہ وہ ہمارے ساتھ رہے بجائے اس کے کہ ہم اسے دیکھنے کے لیے فارم بھرتے جائیں‘
تو ایسے تھے ہمارے پطرس، جن کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ نام پہلے پیر احمد شاہ تھا۔ بعد میں انہوں نے ’پیر‘ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ پطرس کا قلمی نام سب سے پہلے رسالہ ’کہکشاں‘ کے ایک سلسلۂ مضامین ’یونانی حکما اور ان کے خیالات‘ میں سامنے آیا تھا
اس کا اپنا ایک پس منظر تھا اور وہ یہ کہ جب آپ انگریزی میں لکھتے تھے تو آپ نے اپنے استاد پیٹر واٹکنز کے حوالے سے قلمی نام ’پیٹر‘ استعمال کرنا شروع کیا، پھر انہوں نے اپنی اردو تحریروں میں قلمی نام ’پطرس‘ استعمال کیا۔ خالد احمد نے 13 مئی 1999ء کو دی فرائیڈے ٹائمز لاہور میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’دی ہاؤس آف پطرس‘ میں لکھا ہے کہ پطرس دراصل پیٹر کے عربی ترجمہ کی فارسی موافقت ہے‘
احمد شاہ بخاری پطرس بخاری قادرالکلام انشا پرداز، اپنے وقت میں ایک استاد، بلند پایہ نقاد اور کامیاب مترجم، مصنف، براڈکاسٹر اور آخر میں اقوامِ متحدہ کے اعلٰی ترین سطح پر ایک سفارتکار رہے تھے۔ ان کی زندگی کا سطحی مطالعہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ان تمام متنوع کرداروں میں نمایاں تھے
آپ یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ 8 برس کے تھے، جب آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد والد نے دوسری شادی کرلی تھی۔ آپ کے والد کا نام پیر سید اسد اللہ شاہ بخاری تھا، جو پشاور کے ایک نامور وکیل خواجہ کمال الدین کے سیکرٹری تھے
آپ کے چار بھائیوں میں سید غالب بخاری سب سے بڑے تھے۔ پطرس اپنے والد کے تیسرے بیٹے تھے، دوسرے بیٹے سید محمد شاہ تھے، جو شاعر تھے اور تخلص ’رفعت‘ تھا۔ سید ذوالفقار علی بخاری جو خود شاعر، صداکار اور ماہرِ نشریات تھے، وہ پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی تھے
پیر سید احمد شاہ کے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے والد نے انہیں 1914ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کروادیا، جہاں سے انہوں نے گریجویشن کیا اور کیمبرج یونیورسٹی کے عمانویل کالج میں انگریزی ادب میں TRIPOS کی سند اوّل درجے میں حاصل کی
آل انڈیا ریڈیو کے کنٹرولر نیونل فیلڈن 1937ء میں آل انڈیا ریڈیو قائم ہونے کے بعد جب ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے تو کیونکہ وہ پطرس کے کام سے متاثر تھے اور ان کی صلاحیتوں کے متعرف تھے اور ان کو پسند کرتے تھے اس لیے انہوں نے وائسرائے لارڈ لنلتھگو سے جو رشتے میں ان کے ماموں تھے، کہہ کر جلد پطرس کو اپنا نائب مقرر کرلیا۔ بعد میں پطرس بخاری کا نیونل فیلڈن سے اختلاف ہوا اور پھر وہ جب بیمار ہوکر انگلستان چلے گئے تو پطرس آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بن گئے اور 1945ء تک اس عہدے پر فائز رہے
پطرس بخاری رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے، اسی دور میں آپ نے اردو کے کئی نامور ادیبوں اور شاعروں کو مختلف حیثیتوں میں آل انڈیا ریڈیو میں مختلف اسٹیشنوں کے لیے مقرر کیا۔ ان میں شوکت تھانوی، میراجی، ن م راشد، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، اوپیندر ناتھ اشک اور بہت سے دوسرے لوگ شامل تھے
اسی پس منظر میں ایک وقت ریڈیو میں ان پر اعتراض بھی آیا کہ وہ صرف گورنمنٹ کالج والوں کو لے آتے ہیں تو اس پر پطرس کہنے لگے کہ ’میں صرف میرٹ والوں کو لاتا ہوں‘
پطرس بخاری مارچ 1947ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بن گئے تھے۔ اس سے قبل اسی کالج میں شعبۂ انگریزی کے پہلے مسلمان صدر تھے۔ آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے لیکن ان میں ن م راشد، فیض احمد فیض، حنیف رامے، آغا عبد الحمید اور بلراج ساہنی اہم ہیں
پطرس بخاری کے شاگرد اور معروف تاریخ دان اے کے عزیز خان کے مطابق ’بخاری صاحب کو سب سے زیادہ دلچسپی شیکسپیئر پڑھانے میں تھی‘
معروف صداکار ضیا محی الدین نے کہا تھا کہ ’ان کی جتنی بھی مزاح نگاری ہے، اس میں مغرب اور ہندوستان کے بہترین مزاح نگاروں کی جھلک نظر آتی ہے لیکن نقل کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ بخاری صاحب اختصار کے ساتھ کہنے والے مزاح نگار تھے۔ بخاری صاحب سے انگریزی سنی تو معلوم ہوا وہ زبان جسے میں انگریزی سمجھتا تھا، وہ انگریزی نہیں کوئی اور ہی زبان تھی۔ انگریزی زبان تو پہلی دفعہ اب سننے میں آئی ہے‘
ایک اور شاگرد چوہدری محمد انور کے مطابق ’بخاری صاحب جب پڑھا رہے ہوتے تھے تو انہیں کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، ساری باتیں ان کے ذہن میں ہوتی تھیں۔ ڈاکٹر خالد آفتاب، سابق وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی کے مطابق ’اردو ادب، پنجابی اور کئی زبانوں پر ان کو عبور تھا‘
آپ کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب مقرر کیا گیا، جہاں اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ذمے داریاں نبھائیں۔ 1952ء میں انہیں سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع بھی ملا
شیکسپیئر کے اقتباسات سے جڑی انگریزی میں ان کی خوبصورت اور بے عیب تقاریر کو اقوامِ متحدہ میں سامعین نے بے حد پسند کیا۔ وہاں ان کی ایک بہت اہم تقریر 4 اپریل 1952ء کی تھی، جو تیونس کی آزادی کے مسئلے پر فرانس کے خلاف تھی، جس پر وہاں موجود لوگوں نے تیونس اور مراکش کی استعماری حکمرانوں سے آزادی کے لیے پطرس بخاری کے کردار اور سفارتی حمایت کو بھی سراہا تھا اور انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا تھا
بشیر اے خان اقوامِ متحدہ میں پطرس بخاری کے ساتھ تھے۔ ان کا اس ضمن کہنا ہے کہ ’تیونس کے مسئلے پر جب بحث ہو رہی تھی تو اس میں 11 مقرر تھے، ان میں سے اکثر فرانس کی مدد کر رہے تھے کیونکہ فرانس کا قبضہ تھا۔ جب انہوں [پطرس بخاری] نے تقریر کی تو ان کے اور برطانیہ کے نمائندے سر گلیڈ وین، جیب جو سامنے بیٹھے تھے، کے درمیان آپس میں بیت بازی کی طرح فقرے بولنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، وہاں پطرس بخاری نے اپنی گفتگو میں کہا ’سر گلیڈ وین جیب جن کی زبان کی برجستگی پر مجھے رشک آتا ہے، نے اپنے آپ کو کچھوے اور مجھے خرگوش کے لقب سے نوازا، اور اس کی وجہ سے مجھ پر شدید پُرجوشی کا الزام لگایا۔ وہ کہتے تھے کہ برطانوی دولت مشترکہ میں، جس کا حصہ ہونے کا انہیں، مجھے اور ہمارے ملک کو شرف حاصل ہے، کئی اقسام کے سیاسی جانوروں کی گنجائش ہے، یہ شاید سچ ہو، لیکن اگر برطانوی دولت مشترکہ میں کوئی شتر مرغ ہے تو اس کا تعلق میرے ملک سے نہیں ہے‘ اس پر زبردست قہقہے لگے’۔
بشیر اے خان کے مطابق دونوں کوشش کرتے رہے کے ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں، آخر میں سر گلیڈ وین جیب اپنی کرسی سے اُٹھے اور فرش کے اوپر اپنے گھٹنے ٹیکے اور ہاتھ جوڑ کر پطرس سے کہا کہ ’Sir, I surrender, you are a diplomat‘s diplomat’
بشیر اے خان کے مطابق اس کے بعد نیو یارک ٹائمز میں اس واقعے کی 5 یا 6 کالم کی خبر لگی تھی اور یہ پطرس بخاری کا لقب بھی بن گیا تھا
ان کے کام کے احترام اور عقیدت کے اظہار کے لیے تیونس میں پطرس بخاری کے نام پر ایک سڑک بھی موجود ہے
1954ء میں پطرس کو اقوامِ متحدہ میں شعبہ اطلاعات میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر کردیا گیا۔ بعد ازاں وہ اس ادارے کے انڈر سیکرٹری بھی رہے۔ آپ پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے دورہ امریکا کے دوران ان کی خواہش پر ان کی مرکزی تقریر لکھنے والوں میں شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر تقاریر جنہوں نے امریکی ذہنوں پر گہرا اثر ڈالا، وہ پطرس بخاری نے ہی لکھی تھیں، جس کی وجہ یقیناً ان کے بیان میں فصاحت اور زبان میں کمال کی سادگی تھی۔ وہ اس عہدے سے 15 اپریل 1958ء کے آخر میں سبکدوش ہوگئے تھے
پطرس بخاری مزاح نگاری میں اپنے ہم عصروں سے کچھ الگ نہیں بلکہ بہت الگ تھے اور یہی چیز انہیں کئی اعتبار سے ممتاز کرتی ہے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی کے مطابق ’ظرافت نگاری میں پطرس جیسا ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں، بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغؔ کی غزلوں اور مرزا شوکت کی مثنوِیوں سے دے سکتے ہیں‘
غلام مصطفٰی تبسم نے بھی آپ کے اسلوب پر لکھا کہ ’بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری ہے، اور پھر اسے بیان پر قدرت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا مزاح پڑھنے والوں کے دل میں شگفتگی پیدا کردیتا ہے‘
ڈاکٹر خورشید السلام ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’ان کے اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں انگریزی ادب کا اثر موجود ہے اور اندازِ بیان میں تخیّل کا عمل فرحت اللہ بیگ سے زیادہ قریب ہے‘
سچی بات یہ ہے کہ وہ سب سے الگ اور منفرد تھے اور درحقیقت طنز و مزاح کے ’امام‘ تھے۔ ان کی مزاح نگاری کا کمال یہ تھا کہ وہ تمسخر اور طنز سے آلودہ نہیں تھی۔ آپ نے پطرس کی تحریروں میں یہ بات ضرور محسوس کی ہوگی کہ ایسا لگتا ہے وہ اپنے دوست سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں بات چیت کررہے ہیں’۔
ذرا پطرس کے مزاح کو دیکھیے کہ ’مضامین پطرس‘ کے دیباچہ میں انہوں نے لکھا کہ ’اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں‘
ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ ’پطرس اردو ادب میں خالص مزاح نگاری کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ اگرچہ ان کے سوچنے کا انداز اور مزاح نگاری کے حربوں کا استعمال انگریزی اثرات کا غماز ہے، پھر بھی ان کی نگارشات خالص ادب کا درجہ اختیار کرگئی ہیں‘
’میبل اور میں‘ احمد شاہ پطرس بخاری کے فنِ مزاح نگاری کا ایک شاہکار ہے، جس میں انہوں نے لطیف پیرائے میں عورت اور مرد کی نفسیاتی کیفیت کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بعض معاملات میں عورت اور مرد دونوں کی فطرت یکساں ہے۔ اسی طرح ’ہاسٹل میں پڑنا‘، ’مرحوم کی یاد میں‘، ’کتے‘، ’مریدپور کا پیر‘، ’سویرے جو آنکھ کھلی میری‘ ایسے کمال کے مضامین ہیں جو کسی بھی مضمون میں بے ساختگی اور بذلہ سنجی کا عروج ہیں
پطرس تحریف نگاری میں نہایت مہارت سے الفاظ کو پروکر کچھ الگ سی خوبصورتی پیدا کردیتے تھے، جس کی جھلکیاں ان کے مضامین ’ہاسٹل میں پڑنا‘، ’لاہور کا جغرافیہ‘، ’اردو کی آخری کتاب‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں
’اردو کی پہلی کتاب‘ کی پیروڈی میں اردو کی آخری کتاب کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں کہ ’ماں بچے کو گود میں لیے بیٹھی ہے۔ باپ انگوٹھا چُوس رہا ہے اور دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے‘۔
پطرس بخاری اشعار کی تحریف میں بھی کمال کرتے تھے، غالب کے اشعار کی تحریف کچھ یوں کی کہ
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
اصل شعر کچھ اس طرح سے ہے کہ:
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
پطرس بخاری علامہ اقبال کو دنیا کا بہترین شاعر اور فلسفی مانتے تھے۔ نقوش کے پبلشر جناب محمد طفیل نے لکھا کہ ’پطرس اس قابل تھے کہ وہ علامہ اقبال کے ساتھ فلسفیانہ بحث بھی کرتے۔ ایک موقع پر انہوں نے برگساں کے فلسفے پر بحث کی جس میں علامہ اقبال اور پطرس دونوں نے اپنے اپنے دلائل اور منطق پیش کیے‘
کہا جاتا ہے کہ اس بحث کے بعد ہی اقبال نے وہ نظم تحریر کی جو ضرب کلیم میں ’ايک فلسفہ زدہ سيد زادے کے نام‘ سے شامل ہے۔ اپنے مضمون ’سر محمد اقبال‘ میں پطرس اقبال کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’وہ انسان جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا‘۔
اپنے ایک تنقیدی مضمون ’کچھ عصمت چغتائی کے بارے میں‘ لکھتے ہیں کہ ’عصمت کوئی قدآور ادیب نہیں۔ اردو ادب میں جو امتیاز ان کو حاصل ہے اس سے منکر ہونا کج بینی اور بخل سے کم نہ ہوگا۔ اور یہ مضمون بذاتِ خود اس امتیاز کا اعتراف ہے لیکن بھول نہ جانا چاہیے کہ ہمارا افسانہ ابھی سن رشد یا سنِ بلوغ کو نہیں پہنچا۔ اردو ادب کے قدر دانوں میں یہ حوصلہ پیدا ہونا چاہیے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ادب کا دنیا کے بہترین ادب سے مقابلہ کرتے رہیں تاکہ تناسب کا احساس کند نہ ہونے پائے۔ اتنی حد بندی کرلینے کے بعد ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہ ہونا چاہیے کہ عصمت کی شخصیت اردو ادب کے لیے باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے بعض ایسی پرانی فصیلوں میں رخنے ڈال دیے ہیں کہ جب تک وہ کھڑی تھیں کئی رستے آنکھوں سے اوجھل تھے۔ اس کارنامے کے لیے اردو خوانوں ہی کو نہیں بلکہ اردو کے ادیبوں کو بھی ان کا ممنون ہونا چاہیے‘
پطرس بخاری کے خطوط بھی منفرد اور خاص نوعیت کے ہیں جن کی زبان بھی سادہ ہے اور ان میں گھروں کی کہانی سے لے کر ادبی اور دیگر اہم معاملے بھی جابجا موجود ہیں اور وہ سب کچھ ہے جو انسانوں کے تعلق میں تجربے میں آتا ہے۔ اس میں دوستوں سے شکوے اور ملازمت کے دوران روزمرہ پیش آنے والے امور اور دکھڑے بھی شامل ہیں۔ یہ خطوط ان کے نام ہیں جن سے پطرس بخاری کا خاص تعلق تھا۔ ان میں سے چند کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے
ان میں عبدالمجید سالک کے نام لکھے خط زیادہ ہیں جس کی وجہ پطرس بخاری کی ان سے خصوصی عقیدت تھی۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کو خطوط لکھے ان میں غلام مہر، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، امتیاز علی تاج، عبدالرحمٰن چغتائی، حامد علی خان، عبدالقدیر رشک، سید ہاشم رضا، حکیم یوسف حسن، کلیم الرحمٰن، بیگم آمنہ مجید ملک، بیگم فیض اور منیرہ فیض کے نام شامل ہیں
پطرس کی تخلیقات زیادہ تر متفرق مضامین، مقالوں، دیباچوں اور تقریروں کی صورت میں مختلف رسالوں میں بکھری ہوئی ہیں۔ پطرس کی تصانیف میں پطرس کے خطوط، افسانے، ڈرامے اور ناولٹ، خطباتِ پطرس، تنقیدی مضامین، تخلیقاتِ پطرس، اقوامِ متحدہ میں تقاریر کا مجموعہ (انگریزی) بھی شامل ہیں۔ آپ کے انتقال کے بہت بعد 1999ء میں ’نقوش‘ میں پطرس پر ایک ضخیم نمبر جو 640 صفحات پر مشتمل تھا شائع ہوا تھا
آپ کے پوتے ایاز بخاری نے ایک ویب سائٹ پطرس بخاری ڈاٹ کام بھی بنائی ہے، جس میں پطرس کی اکثر تخلیقات موجود ہیں
مرجھائے ہوئے دلوں میں گدگدیاں کرنے والے پطرس، خود دل کے مریض تھے۔ آپ 5 دسمبر 1958ء کی صبح نیویارک میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ آپ کی تدفین پردیس میں نیویارک کے ہی ایک و سیع وعریض قبرستان میں ہوئی۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی وفات کے 44 برس بعد 14 اگست 2003ء کو انہیں ہلالِ امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا
وہ آخری لمحے تک زندہ رہے۔ ان کے ڈاکٹر کے مطابق ’وہ کام کرتے ہوئے مرے‘ وہ انتقال سے قبل چند سالوں سے مستقل بیمار تھے لیکن اپنی بیماری کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ ان پر دل کا پہلا دورہ 9 اگست 1953ءکو پڑا جب وہ اسپتال میں طبّی مشورے کے لیےگئے تو انہوں نے اپنا نام ’مسٹر براؤن لکھوایا جو ان کے ڈرائیور کا نام تھا۔ آخر میں وہ صاحبِ فراش ہو کر کمرے تک محدود ہوگئے تھے۔ آخری رات ڈاکٹر نے پوچھا کہ میں رات آپ کے ساتھ بسر کرسکتا ہوں تو پروفیسر بخاری نے کہا ’نہیں، نرس موجود ہے، آپ زحمت نہ کریں‘ اور پھر ڈاکٹر نے جاتے ہوئے کہا ’خدا حافظ شہزادہ شرمیں‘ یہ شاید بخاری کا آخری مزاح تھا، جس کے بات صبح ساڑھے 5 بجے نرس نے اطلاع دی کہ حالت خراب ہے اور سوا 6 بجے وہ اس دنیا فانی سے جاچکے تھے’
امریکا سے تعلق رکھنے والے لکھاری خالد چوہدری نے ’پطرس بخاری سے نیویارک میں ملاقات‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’ان کے خاندان کے افراد یا اکا دکا پرستار انفرادی طور پر تو یقیناً ان کی آخری آرام گاہ پر جاتے ہوں گے لیکن گزشتہ 20 سال امریکا میں رہتے ہوئے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی پاکستانی سفارت خانہ واشنگٹن، پاکستان مشن برائے اقوامِ متحدہ، نیویارک یا پاکستان قونصل خانے نیویارک میں سے کسی نے اپنے اس سابق سفارتکار اور ایک بڑی قومی اور عالمی شخصیت کی سرکاری سطح پر برسی منائی ہو یا کسی نے ان کی قبر پر حاضری دینے کی زحمت بھی گوارا کی ہو‘
پطرس بخاری کے صاحبزادے سید ہارون بخاری کا بھی 2012ء میں انتقال ہوچکا ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پطرس کی یاد میں منعقدہ کسی تقریب میں بتایا تھا کہ ’وہ [پطرس] اپنی اقوامِ متحدہ کی مشکلات اور اپنی بیماریوں کا بتاتے نہیں تھے لیکن انہوں نے انتقال سے دو روز قبل ایک خط لکھا جس میں بیماری اور ریٹائرمنٹ کی تفصیلات تھیں۔ اس سے پہلے کہ میں اس کا جواب دیتا ان کا 5 دسمبر کو انتقال ہوگیا‘
بشیر اے خان کے مطابق ’1957ء میں اقوامِ متحدہ کے ایک اعلٰی عہدیدار کا انتقال ہوا تو ہم نیویارک سے 25 میل دُور ایک جگہ والہالہ گئے۔ وہاں پہاڑی پر ایک بہت ہی خوبصورت جگہ تھی، جہاں اس شخص کو دفنایا گیا تھا۔ بخاری صاحب جہاں اس مقام سے چند گز کے فاصلے پر کھڑے تھے جیسےکسی خاص نقطے پر ان کی نظر تھی، بڑی دیر کے بعد انہوں نے آنکھ اٹھائی، میری طرف دیکھا اور کہا، بشیر میرا ایک کام کرو گے؟ میں نے کہا سر حکم کریں، ’جب میرا انتقال ہو تو مجھے یہاں دفن کیا جائے‘، یہ الفاظ انہوں نے کہے اور آج وہ وہیں دفن ہیں‘
وہاں ان کی قبر کے کتبے پر ان کے دوست اور معروف امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ کا ایک جملہ ہے، جو انہوں نے اپنے ایک خط میں پطرس بخاری کے نام 19 اپریل 1957ء کو لکھا تھا۔ وہ جملہ یہ ہے
Nature within her inmost self divides
To trouble men with having to take sides
اب پطرس نہیں ہیں لیکن ان کا تخلیق کیا ہوا مزاحیہ ادب ہمارا سرمایہ ہے، جس میں سے کچھ اسکولوں اور کالجوں کے نصاب کا حصہ بھی ہے جو یقیناً آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ موجود رہے گا۔
بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)