پہاڑوں کا عالمی دن دراصل پاکستان کے لیے بطور خاص اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ دنیا کی بلند ترین برفیلی بلندیوں کا تعلق وطنِ عزیز سے ہے
ماؤنٹین ڈے ہر سال 11 دسمبر کو منایا جاتا ہے، جس کا آغاز 2002 میں کیا گیا۔ یہ دن مناتے ہوئے دنیا بھر میں پہاڑوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت پر زوردیا جاتا ہے۔ دنیا کے مشہور ترین پہاڑی سلسلے ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ عالمی دن پر پہاڑوں کو آلودگی سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کا عہد کیا جائے تو یہ دن منانے کا مقصد پورا ہو سکتا ہے
یہ اعزاز قدرت کی طرف سے پاکستان کو ودیعت کیا گیا کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو جسے مقامی زبان میں چھوغوری کہا جاتا ہے۔ 8611 میٹر اونچی اور نو ویں بلد ترین چوٹی جو قاتل پہاڑ کے نام سے مشہور ہے سمیت آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14 اولین چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں
عالمی سطح پر ہر سال پانچ کروڑ سیاح پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تاہم اس کی قیمت پہاڑی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے۔ یہ عالمی دن منانے کا مقصد پہاڑوں کا قدرتی حسن برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کا شعور اجاگر کرنا ہے
پہاڑ دنیا بھر کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل اور نیشنل پارکس کا 56 فیصد حصہ پہاڑوں میں واقع ہے۔ مجھے دنیا کے طویل ترین برفانی راستے پر سفر کے دوران ان چوٹیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تو عجیب حیرت ہوئی کہ دنیا بھر میں 26 ہزار فٹ بلند 14 برفانی چوٹیاں اپنے اپنے سفید وجود لیے ہزاروں سال سے گلیشئرز کو محفوظ کیے ہوئے ہیں
پاکستان میں موجود دنیا کی پانچ حیران کن چوٹیوں میں سے چار بلندیاں کنکورڈیا اور کے ٹو کے قریب ترین ہیں۔ پاکستان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ سات ہزار میٹر بلند 186 چوٹیاں گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں ترتیب سے پروئی گئی ہیں
دنیا کی دوسری اونچی 8611 میٹر بلند چوٹی K2 کے علاوہ نانگا پربت 8125 میٹر بلند، گیشابرم ون (8068 میٹر)، بروڈ پیک (8051 میٹر) اور گیشابرم ٹو (8035 میٹر) وطن عزیز کو پہاڑوں کی دنیا میں ممتاز کرتی ہیں۔ ضلع نگر کی حدود میں واقع 7788 میٹر بلند راکا پوشی کوہ پیماؤں کو ہنزہ کی طرف کھینچتی ہے۔ 7708 میٹر بلند برفیلی بلندی ترچ میر ضلع چترال کو سفید چاندی جیسا عکس عطا کرتی ہے
قراقرم کے حصے میں سب سے زیادہ بلندیاں آتی ہیں۔ قاتل پہاڑ نانگا پربت ہمالیہ میں رنگ بھرتا ہے۔ کوہ ہندو کش کا سلسلہ بھی ترچ میر کے بغیر ادھورا ہے۔ عالمی کوہ پیماؤں کے لیے ہمیشہ سے جان لیوا چوٹی نانگا پربت شاہرائے قراقرم پر سفر کرنے والوں کو بہت دلکش نظارے تقسیم کرتی ہے۔ رائے کوٹ سائیڈ پر نانگا پربت کے بیال کیمپ کی طرف جانے والے سیاح فیری میڈو سے ہو کر وہاں پہنچتے ہیں۔ پریوں کی چراگاہ میں ریفلیکشن جھیل کے پانی نانگا پربت کا عکس لیے ہوتے ہیں
یہ دنیا بھر کی واحد مثال ہے کہ آٹھ ہزار میٹر بلندی کی حامل چار چوٹیاں کندھے سے کندھا ملائے کنکورڈیا کے راستے میں پڑتی ہیں۔ K2 کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں تو ایک تکون جس میں ذرا سا دھبہ بھی نظر نہیں آتا وہ اینجل پیک ہے، دائیں جانب براڈ پیک اور اس کے ساتھ گیشابروم گروپ کی چوٹیاں ہیں۔ ان راستوں پر زیادہ تر امریکہ، جرمنی، جاپان اور انگلینڈ کے کوہ پیما اور سیاح جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کا اس طرف رجحان بہت کم ہے
جگلوٹ پر دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ اپنی جداگانہ رنگت سمیت دریائے سندھ کے کنارے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ دیوسائی کی سطح مرتفع سیاحوں کو نئی زندگی کا مفہوم عطا کرتی ہے۔ جھیل کرومبر آج بھی فطری کشش سمیت دشوار راستوں کو آباد کیے ہوئے ہے کہ لوگ پیدل چل کر جب وہاں پہنچتے ہیں تو پاؤں کے آبلے بھول جاتے ہیں۔ پاکستان سیاحت کے حوالے سے سونے کی چڑیا ہے مگر افسوس کہ حکومتی سطح پر ان دل کش وادیوں کی نوک پلک سنواری ہی نہیں گئی۔ آسان رسائی ہوتی تو لوگ سوئٹزرلینڈ کو بھول جاتے
آلودگی سے برباد ہوتی پہاڑی دنیا ہمیں ایک طرح خبردار کرتی ہے کہ کے ٹو بیس کیمپ کو بھی فیری میڈوز کی طرح صاف رکھا جائے۔ اسکولے گاؤں سے لے کر کنکورڈیا تک گدھوں کے فضلے کو صاف کرنے کا اہتمام ضروری ہے ۔ مقامی پورٹرز کا رزق سیاحوں اور کوہ پیماؤں کی آمد سے جڑا ہے اس لیے انتظامیہ اور مقامی آبادی کو آگاہی پھیلانے کا اہتمام کرنا چاہئیے
دودھ اور جوس کے ڈبے جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ مختلف بازاری چیزوں کے خالی ریپرز اور بوتلیں گندگی کا سامان ہیں جنہیں اٹھا کر مخصوص جگہ پر سٹور کیا جائے اور پھر تلف کر دیا جائے۔ کے ٹو بیس کیمپ پر نصب خیمے صفائی نہ ہونے کی وجہ سے کباڑ خانہ بنے ہوئے ہیں جسے ذرا ترتیب سے خوبصورت بنا جا سکتا ہے۔ ناران کے قریب ملکہ پربت کے پہلو میں جھیل سیف الملوک کبھی پریوں کی جھیل تھی جسے چھوا نہیں جاسکتا تھا وہ اب آلودہ ہو چکی ایک دکان ہے جس کے گرد گاہک منڈلاتے ہیں
جھیلوں کے کنارے بنے ریسورنٹ ختم کر دیے جائیں تو قدرت کے شاہکار مناظر نکھر کر سامنے آئیں اور پاکستان کا روشن چہرہ دنیا میں متعارف ہو۔ فور بائی فور جیپوں کے انجن کا شور پہاڑوں اور وادیوں کی پاکیزگی کا سینہ چیرتا ہے اور ڈیزل کا دھواں ماحول کو زندگی کے لیے دشوار بناتا ہے اس لیے جھیلوں اور لینڈ سکیپ سے ذرا دور ان جیپوں کو روک کر چند گز پیدل چل لیا جائے تو آلودگی کم جائے
راما، کنکورڈیا، فیری میڈوز، راکا پوشی اور دیوسائی کی خیمہ بستیاں کسی نہ کسی ٹھیکہ دار کی نگرانی میں آباد ہوتی ہیں جن کی وجہ سے پوری وادی اور دریا کنارے آلودہ ہوتے ہیں، کیمپنگ سائٹس پر صفائی کا نظام بہتر کرکے آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ہنزہ کے نواح میں عطا آباد جھیل کو تو بوٹنگ والوں نے نیلام کر دیا ہے اسی وجہ سے وہاں غلاظت کے ڈھیر ملتے ہیں۔ ان شفاف وادیوں کو پارک بنانے سے گریز کیا جائے
پاکستان کی زراعت کا تعلق دریاؤں پر ہے اور دریاؤں میں دریائے سندھ ہمارے نہری نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ میں نے خپلو، کنکورڈیا اور کارگل تک کے سفر کے دوران دیکھا ہے کہ دریائے سیوق، دریائے برالدو، دریائے شگر کیسے پہاڑوں کے دامن چومتے ہوئے دریائے سندھ کا حصہ بنتے ہیں۔ دریائے ہنزہ اور دریائے غذر خنجراب اور چترال کے علاقوں سے گلیشیئر سے پانی کشید کر کے کس طرح دریائے سندھ کی طغیانی بڑھاتے ہیں
پہاڑ دراصل میدانی علاقوں کی زرخیزی کا سبب بنتے ہیں اس لیے ان کو آلودگی سے بچانا ضروری ہے۔ درختوں کا تحفظ بھی پہاڑوں کی بقا کے لیے اہم ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)